راجپوتوں کی تاریخ
راجپوتوں کی تاریخ
****************************************************
تحریر: رانا عمران صدیق ( 03134318149)
****************************************************
راجپوت قبائل کے قبول اسلام کی تفصیلات
راجپوت قبائل میں سے کس گوت نے، کب، کس کے ہاتھ، کس عہد میں اسلام قبول کیا اور اسلامی نام کیا ؟رکھا گیا
رانا عمران صدیق
راؤ عبدالرحمٰن خاں بلیالوی
****************************************************
رنگڑھ راجپوتوں کی 36 گوتیں ہیں
****************************************************
ڈوگرا |
28 |
منھاس |
19 |
منج |
10 |
1. |
|
وٹو |
29 |
جرال |
20 |
ڈھڈی |
11 |
2. |
|
منگرال |
30 |
الپیال |
21 |
کھرل |
12 |
3. |
|
تھکیال |
31 |
قائم خانی |
22 |
سیال |
13 |
4. |
|
جموال |
32 |
سلہریا |
23 |
ٹوانہ |
14 |
5. |
|
تیزال |
33 |
نارو |
24 |
نارمہ |
15 |
بھٹی |
6. |
کھچی |
34 |
جاتو |
25 |
سومرو |
16 |
راٹھور |
7. |
کھگہ |
35 |
جوئیہ |
26 |
چب |
17 |
گھوڑےوا |
8. |
خانزادہ |
36 |
وریاہ |
27 |
نون |
18 |
پنوار |
9. |
خاندان/وانش
راجپوتوں کی شجاعت جوانمردی شمشیرزنی مہمان نوازی کسی تعارف کی محتاج نہیں میدان جنگ میں لڑنا مرنا مارنا راجپوتوں کا پیشہ رہا ہے راجپوتوں کا سلسلہ نسب “حضرت اسحٰق علیہ السلام” کے بیٹے “آر” سے ملتا ہے آر کی اولاد وسطیٰ ایشیا میں آباد ہوئی اور “آریہ نسل” کہلائی چار هزار آٹھ سو سال قبل اس آریائی نسل کا ایک گروہ شمالی دروں کے راستے سے اس برصغیر میں داخل ہوا اوربعد میں صدیوں بزورشمشیر یہاں حکومت کرتا رہا ان لوگوں کا مذہب ہندومت اور زبان “سنسکرت” تهی ان لوگوں کے مذہب کی مناسبت سے برصغیر کو “ہندوستان” کہا جانے لگا راجپوت سنسکرت زبان کا لفظ ہے جو “راج” اور “پوت” سے مل کر بنا هے سنسکرت زبان میں راج بادشاہ کیلئے اور پوت اولاد کیلئے استعمال ہوتا ہے لفظی معنی “بادشاہ کی اولاد” کے ہیں ان لوگوں نے اپنے لئے لفظ راجپوت استعمال کیا
راجہ سنسکرت زبان کے لفظ راج سے ہے جس کے معنی بادشاہ کے ہیں ہندوستان کے تمام راجپوت بادشاہ اپنے لیے لفظ راجہ استعمال کرتے تھے لفظ راجہ کے معنی چمکتی ہوئی چیز کے بھی ہیں تمام راجپوت بادشاہ چمکدار لباس، تاج، تلوار، ڈهال، خوبصورت گھوڑا استعمال کرتے تھے اس مناسبت سے بھی انہیں راجہ کہا گیا
****************************************************
راجپوتوں
کا سلسلہ نصب
****************************************************
راجپوتوں کا شجرہ نصب بعض مورخین کے مطابق چین، تاتھار،
مُغل، جٹ اور ستیوں سے بہت زیادہ ملتے ہیں۔
ابتدا میں راجپوتوں کو چتری اور بعد میں کشتری کہا جاتا
تھا۔
یہی کشتری راجہ بنتے تھے اور ان کی اولاد کو راجپوت کہتے
تھے۔
پنڈت گوریشنکر اور
دیگر ہندی مورخین کا نظریہ ہےکہ راجپوت قوم چتری یا کشتری حکمرانوں کی اولاد ہیں۔
راجپوتوں کا سب سے بڑا دیوتا سورج تھا۔ اس کی پوجا کرتے اور
اس کے نام پر گھوڑے کی قربانی کرتے تھے، اسی کے نام پر لڑتے اور جان دیتے تھے۔وہ
اسے سوریا کہتے تھے۔
ساتویں صدی عیسوی سے لیکر بارھویں صدی عیسوی تک برصغیر میں
راجپوتوں کا دور حکومت تھا۔
شمالی برصغیر میں راجپوتوں کی ریاستیں دہلی، اجمیر، کنوچ،
گندھاراور گجرات میں تھیں۔
دہلی اور اجمیر ریاست کا بانی اگرچہ انک پال تھا۔لیکن
پرتھوی راج کو سب سے زیادہ شہرت ملی-
کنوچ میں مختلف خان دانوں نے حکومت کی-
کندھارا کی ریاست میں جےپال اور انند پال زیادہ مشہور
ہوئے۔جے چند راٹھور نے بھی کافی نام پیدا کیا۔
راجپوت قادریہ اور چشتیہ بزرگوں کے ہاتھوں مسلمان ہوئے۔
سر جان وائسرائے کے دور میں رائے گڑھ ریاست کا حکمران کھل
کر اسلام کی جانب مائل ہونے لگا۔ اس کو کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر اس نے
تخت کو چھوڑنا پسند کیا مگر اسلام پر قائم رہا۔ اور بیٹوں سمیت اسلام میں داخلے کا
اعلان کیا۔
****************************************************
1931 کی برطاونی ہند کی مردم شماری کے مطابق
راجپوتوں قبائل کا قبول اسلام
****************************************************
****************************************************
راجپوت اور خاں کا لقب
****************************************************
****************************************************
انڈیا کے بہت بڑے حصے پر راجپوتوں نے 490 تا 1200 عیسوی تک حکومتیں
کیں:
****************************************************
بیرونی
حملہ آور جنہوں نے دہلی اور ہندستان کے کچھ حصوں پر حکومتیں کیں جن کی بنا پر
راجپوتوں کی بادشاہتیں ریاستوں تک محدود ہو گئیں۔
راجپوت قبائل کی 1200 عیسوی سے 1947 عیسوی تک آزاد ریاستیں:
ہندوستان
پہ کئی حملہ آور آئے جن میں:
یونانی
، ایرانی ، تورانی ، سیتھین ، کشان ،
ہن ، غزنوی ، غوری ، خلجی، تغلق ، سادات ، لودھی ، مغل ، درانی ، ابدالی ،
انگریز وغیرہ شامل ہیں۔لیکن کوئی بھی حملہ آور
راجپوت قوم کی حکومت کو مکمل ختم نہ کرسکا:
راجپوتانہ
کے ساتھ ساتھ اڑیسہ ، کیرالا ، کانگڑہ اور اتر کھنڈ ایسی ریاستیں تھیں جہاں
راجپوتوں نے 5 ویں صدی سے تقسیم ہند تک لگاتار حکومت کی:
اڑیسہ پہ چندرا ونشی گنگا راجپوت خاندان نے 493 عیسوی سے 1436 عیسوی تک
لگاتار قریباً ایک ہزار سال کے حکومت کی
کیرالا
ہند کی ایک چھپی ریاست
رہی کیونکہ وہاں پہنچنا کسی بادشاہِ دہلی کے بس کی بات نہ تھی۔
کیرالا
ریاست کے بانی کیرالا راجپوت تھے لیکن اس پہ کیرالا راجپوت اور چولا راجپوت مختلف ادوار میں حکمرانی کرتے رہے۔
اترکھنڈ
پہ سوریا ونشی گڑھوالی راجپوت خاندان نے 688 عیسوی سے 1803 عیسوی تک لگاتار حکومت
کی اور اتر کھنڈ پہ دہلی کے کسی بھی مسلمان حملہ آور کا حملہ کامیاب نہ ہوا۔
کانگڑہ
پہ
کٹوچ راجپوت خاندان نے مہابھارت کی جنگ کے بعد سے لے کر 1947 تک لگاتار کئی ہزار
سال حکومت کی
کٹوچ راجپوت
دنیا کا سب سے
زیادہ عرصہ تک حکومت کرنے والا خاندان ہے جس کے 490 راجاؤں نے کانگڑہ پہ حکومت کی
دہلی کے بادشاہان کے دور میں بھی ہندوستان کے ایک بڑے حصے پہ راجپوت
قبائل حکمران رہے جن کی تفصیل ذیل ہے:
چالوکیہ راجپوت
(جنوبی ہند کے حاکم)
سولنکی راجپوت
(گجرات، مہاراشٹرا، سوراشٹرا، خاندیش ، وغیرہ کے حکمران رہے)
بگھیلہ راجپوت
(گجرات، سوراشٹرا ،
بگھیل کھنڈ ، خاندیش وغیرہ کے حکمران رہے)
بندھیلہ راجپوت
(بندھیل کھنڈ ریاست کے حکمران رہے)
کاٹھیا راجپوت
(کاٹھیاواڑ کے حکمران رہے)
جڈیجہ راجپوت
(کچھ اور جام نگر کے حکمران رہے)
چڈاسمہ راجپوت
(جوناگڑھ اور سوراشٹرا کے حکمران رہے)
ہوئیسلا راجپوت
(آسام و بہار ریاست کے
حکمران رہے)
کاکاتیہ راجپوت
(آسام ریاست کے حکمران رہے)
ٹھاکرے راجپوت
(نیپال کے حکمران رہے)
لنگاہ راجپوت
(1445
سے 1526 تک جنوبی پنجاب بمعہ ملتان کے حکمران رہے)
سمہ راجپوت
(سندھ اور بلوچستان کے حکمران رہے)
سومرو راجپوت
(سندھ اور بلوچستان کے حکمران رہے)
تاؤنی راجپوت
(سرمور، رامپور، کلسیہ، بوشہر کے حکمران رہے)
جسروٹیہ راجپوت
(جسروٹہ ریاست کے حکمران رہے)
بلوریہ راجپوت ،
(بلور ریاست کے حکمران رہے)
منگرال راجپوت
(کوٹلی ، سہنسہ ریاست کے حکمران رہے)
چمپیال راجپوت
(چمپہ ریاست کے حکمران رہے)
چب راجپوت
(چبھال ریاست کے حکمران رہے)
جرال راجپوت
(راجوری ریاست کے حکمران رہے)
جموال راجپوت
(جموں ریاست کے حکمران رہے)
کہلوریہ راجپوت
(کہلور ریاست کے حکمران رہے)
پٹھانیہ راجپوت
(پٹھان کوٹ ریاست کے حکمران رہے)
تومار راجپوت
(گوالیار ریاست کے حکمران رہے)
پرتی ہار راجپوت
(دہلی بادشاہان کے دور میں ناگوڑ کے حکمران رہے)
گکھڑ راجپوت
(پوٹھوہار ریاست کے حکمران رہے)
کھوکھر راجپوت
(1399سے
1443 تک پنجاب کے حکمران رہے)
بھٹی راجپوت
(جیسلمیر ، بھٹنیر ساندل بار ، سرموریہ نامی ریاستوں کے حکمران
رہے)
چوہان راجپوت
(رنتھمبوڑ ، اجمیر کی ریاستوں کے حکمران رہے)
ٹانک راجپوت
(1300 سے 1573 تک گجرات اور خان دیش ریاست کے حکمران رہے)
بیس راجپوت
(کچھ عرصہ بنگال 1575 سے 1610 تک لیکن بیسواڑہ پہ صدیوں حکومت
کرتے رہے)
کشمیر پہ ڈوگرہ راجپوت راج تقریباً 1860 سے 1947 تک رہا
اس
کے علاوہ پنجاب ، ہریانہ اور یوپی سمیت ہندوستان کے دیگر علاقوں کے بڑے زمیندار
بھی راجپوت قبائل تھے۔
راجپوتانہ کی کئی ریاستوں مثلاً
جیسلمیر
، بھٹنیر ، بیکانیر ، بارمیر ، اجمیر ، سروہی
، پالی ، کوٹہ ، بوندی
، امبر ، جئے پور ، جودھ پور
مارواڑ ، میواڑ ، اودھے پور ، چتوڑ گڑھ ، گوندوانہ
، کالنجر ، چندیری ، امر کوٹ ، چھاچھرو ، تھرپارکر وغیرہ پہ بھٹی ، راٹھور ،
چوہان ، کشواہا ، سیسودیا گہلوٹ
، ہاڈا وغیرہ حکمران رہے۔
شیخاوتی علاقے
پہ شیخاوت راجپوت جبکہ جنگل دیش میں جوئیہ راجپوت خود مختار رہے۔
متحدہ پنجاب اور ہریانہ کے نامور زمیندار اور طاقتور راجپوت قبائل میں
بھٹی
، جوئیہ ، کھوکھر ، سلہریہ ، جنجوعہ ،
منہاس ، کھچی ، سرویا
، بریاہ ، نارو ، منج ،
گھوڑےواہ ، ڈوگر ، وٹو
، چدھڑ ، کھرل ، ٹوانہ
، سیال ، گھیبہ ، میکن
، بگھیلا ، کاٹھیا ، سگلا
، منگلا ، پھلروان ، دھیرکے
، ڈاہا ، پڑھیار ، جودھرا ،
لودھرا ، دولتانہ ، بھٹہ ، دھنیال ، کھکھہ ، چوہان ، پنوار
، تومار ، جاٹو ، تاؤنی
، مڈاڈھ ، پنڈھیر وغیرہ شامل تھے۔
بلوچستان اور سندھ
میں
سومرہ اور سمہ کے ساتھ ساتھ
مہر
، جاموٹ ، سولنگی ، لاڑ
، اندھڑ ، بوہڑ ، منگریو
، جونیجو ، سوڈھا ، رامیجو وغیرہ طاقتور راجپوت قبائل تھے
کشمیر کے بااثر راجپوت قبائل میں:
جرال
، چب ، راٹھور ، چندیل ، منگرال
، بھٹی ، کلیال ، نگیال
، بنگیال ، بھکھڑال ، پکھڑال
، تیزیال ، وینس ، کھکھہ
، جموال ، منہاس ، تھکیال وغیرہ شامل ہیں۔
صوبہ خیبر پختون خواہ میں پائے جانے والے راجپوت قبائل میں:
حطار
، سالار ، دھیرکے ، بھٹی ، جنجوعہ
، جوئیہ وغیرہ شامل ہیں
صوبہ گلگت بلتستان
میں
رونو راجپوت اور سنگیہ راجپوت قبائل ہیں جو جرال تومار راجپوت خاندان کی شاخیں ہیں
کئی
حملہ آور آئے اور چلے گئے لیکن پاکستان او ہندوستان میں آج بھی ایک بڑے حصے کے
زمیندار بھی راجپوت قبائل ہیں
تحریر :
معراج عباس بھٹی
****************************************************
چند راجپوت قبائل کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں اور انکا صحیح
جواب
****************************************************
: 1- جوئیہ راجپوت
جوئیہ
قبیلہ کے بارے میں کسی کا کہنا ہے کہ سوریا ونشی اور کوئی انکی تاریخ لکھتے یا
بتاتے ہوئے چندرا ونشی کہتا ہے ، تو اصل یہ ہے کہ
جوئیہ
قبیلہ چندرا ونشی پانڈو ونشی راجپوت ہیں جو مہابھارت کے معروف جنگجو
"راجا یدھشترا" کی اولاد سے ہیں
اس
بات کی تصدیق میاں آفتاب احمد خان جلوانہ جوئیہ نے بھی اپنی کتاب میں کی ہے
: 2- جنجوعہ راجپوت
جنجوعہ
کو بھی کچھ سوریا ونشی راٹھور راجپوت بتارہے تھے لیکن یہ بھی چندرا ونشی پانڈو
ونشی راجپوت ہیں جو مہابھارت کے جنگجو "راجا ارجن" کی اولاد سے ہیں اور
تومار راجپوت خاندان کے بھائی بند ہیں
: 3- بھٹہ راجپوت
بتانے
والے تو بھٹہ یا بھٹو راجپوت قبیلہ کو بھی بنا تحقیق کے سوریا ونشی راجپوت بتا رہے
تھے لیکن بھٹہ (بھٹو) اصل میں چالوکیہ پانڈو ونشی چندرا ونشی راجپوتوں کی شاخ ہے جو
مہابھارت کے جنگجو "راجا کرن" کی اولاد سے ہیں۔
: 4- منگرال راجپوت
کوٹلی
کا حاکم رہنے والا یہ قبیلہ بھی سوریا
ونشی راجپوت نہیں بلکہ چندرا ونشی
راجپوتوں کی گوت ہے اور راجا منگر پال کی اولاد سے ہیں اور خود کو پال
راجپوت کی شاخ مانتے ہیں۔
: 5- ڈوگر راجپوت
بلاشبہ
ڈوگر راجپوت صدیوں سے پنجاب میں رہنے والا اہم قبیلہ ہے،
ڈوگر
راجپوت درحقیقت علاقے کی نسبت سے ہیں جو ڈگر پور تھا،
ڈگر علاقے میں تین راجپوت قبائل آباد تھے جن میں پنوار، چوہان اور
بھٹی شامل ہیں
ڈوگر
کی شاخ مہوبہ کا اصل چوہان راجپوت ہے ،
ڈوگر
کی شاخ متڑ کا اصل پنوار راجپوت ہے جبکہ
ڈوگر
کی شاخ چھینہ کا اصل بھٹی راجپوت ہے
ڈوگر
آج بھی راجستھان کے علاقے اجمیر اور کوٹہ کے مسلمان راجپوت قبائل میں مشمول ہے
: 6- چب راجپوت
چب ، ڈومال
، ڈڈوال ، جسوال اور گلیریہ قبائل
کٹوچ راجپوتوں کی شاخیں ہیں
: 7- ڈاہیا راجپوت
ڈاہیا
راجپوت اصلا سوریا ونشی چوہان راجپوتوں کی شاخ ہے جبکہ ڈاہا ایک علیحدہ گوت ہے جو
پنوار راجپوت خاندان سے ہیں
: 8- بریاہ راجپوت
بریاہ
راجپوت ، اگنی ونشی پنوار راجپوتوں سے نہیں نہ ہی یادو ونشی چندرا ونشی بھٹی
راجپوتوں سے بلاشبہ بریاہ راجپوت ہر دور
میں بھٹی راجپوتوں کے ہمراہ رہے چاہے جیسلمیر ہو یا بھٹنڈہ یا مارواڑ وغیرہ یا پھر
پنجاب ہو بریاہ اور بھٹی آپس میں دوست بھی
رہے اور کئی جھڑپیں بھی ان میں ہوئیں۔
بریاہ
ایک سوریا ونشی راجپوت قبیلہ ہے
: 9- لوہانہ راجپوت
لوہانہ
نسلاً پنوار راجپوت نہیں بلکہ رگھو ونشی سوریا ونشی راجپوت ہیں
: 10- دولتانہ راجپوت
مولوی
نور محمد چیلہ سیال اس گوت کو سیال راجپوت بتاتے ہیں جبکہ میاں آفتاب احمد خان
جلوانہ جوئیہ اس کو جوئیہ راجپوت بتاتے ہیں۔
: 11- کھوکھر راجپوت
کھوکھر اصل میں سوریا ونشی ناگ ونشی راجپوت ہیں نہ کہ
چندرا ونشی
: گکھڑ راجپوت 12-
گکھڑ
بھی کھوکھر ، ٹانک اور گوڑ کی طرح سوریا ونشی ناگ ونشی راجپوت ہیں
: 13- منج راجپوت
چند
یوٹیوبرز کہانی جوڑ رہے تھے کہ منج راجپوت
سوریا ونش سے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ منج اصل میں چندرا ونشی یادو
ونشی بھٹی راجپوتوں کی گوت ہے۔
: 14- مہر (ماہر) راجپوت
کچھ
تاریخ دانوں نے انہیں سوریا ونشی لکھا ہے لیکن یہ چندرا ونشی یادو ونشی راجپوت ہیں۔
مہر
ایک بھٹی راجپوت قبیلہ ہے جبکہ مہڑ قبیلہ سمہ راجپوت کی شاخ ہے۔
****************************************************
راجپوتوں
کی چھتیس مشہور گوتیں جنہوں نے اپنی اپنی
ریاستوں میں حکومتیں کیں
****************************************************
تاؤنی راجپوت ایک گوت ہے جو مغل سلطنت کے دور
تک ضلع امبالہ اور ریاست پٹیالہ کے ایک
خطے پنجاب کا ایک حصہ تھا۔ یہ ہندوستان
میں 360 تاؤنی راجپوت کے دیہات پر مشتمل ہے اور اس طرح جو 1947 میں ہجرت کر
کے پاکستان شفٹ ہواتھا- پُر اسرار راجپوت
ثقافت اور تہذیب کی لذت آمیز تاریخ کو قبول کرنے کے لئے یہ تاؤنی راجپوتوں کا
سرکاری یوٹیوب چینل ہے۔
****************************************************
Taoni Rajpoot
YouTube Channel
https://www.youtube.com/channel/UCLEAHqqrKCCA-ss4w_Q0dtg/about
Taoni Rajpoot
Facebook Group
Taoni
Rajpoot Brothers تاؤنی راجپوت
https://www.facebook.com/groups/324281548576981
****************************************************
امبالہ اور پٹیالہ
اور مضافات میں تاؤنی راجپوتوں کے
360 گاؤں تھے-
راجہ رائے تان جو کہ راج سالباہن سیالکوٹ کے پوتے تھے، وہاں سے ان کا سلسلہ شروع
ہوتا ہے،
اطلس تاؤنی
شری کشن جی مہراج ، جو کہ تاؤنی راجپوتوں کے، بھٹی راجپوتوں
کے اور منج راجپوتوں کے اور وٹو راجپوتوں کے جد امجد تھے-
اُن کی 26 ویں پُشت میں راجہ سالباہن تھے، جن کے پوتے رائے
تان، وہاں سے تاؤنی راجپوتوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔جو اطلس کا لفظ لگا ہے، جو کشن
جی مہراج کے دادا کا نام اطلس تھا۔جو کہ مہا بھارت کے اندر بھی درج ہے۔
چھت گاؤں
'360 دیہاتوں میں سے 12 دیہات کی اہمیت زیادہ تھی۔ آبادی ،
سیاسی اور سماجی لحاظ سے بھی ان گاؤں کی حیثیت ممتاز تھی۔
مکان گاؤں
'24 گاؤں کا ان کے بعد دوسرا درجہ تھا۔
تاؤنی پاکستان کے کن علاقوں میں کژت سے آباد ہیں۔
فیصل آباد ڈویژن،
مظفر گڑھ، ملتان ڈویژن، گوجرنوالہ اور لاہور ڈویژن اور ساہیوال ڈویژن
تاؤنی انڈیاکے کن علاقوں میں کژت سے آباد تھے۔
ضلع امبالہ شمال میں دامن پہاڑ کی وادی میں ریاست کلسیا اور
مُلحقہ آبادی میں تقریباً 1800 سالوں سے تاؤنی راجپوت قابض تھے۔
ریاست سرمور، ریاست نگن اور دیگر کئی چھوٹی پہاڑی ریاستیں
جو کہ کوہ ہمالیہ کے دامن میں موجود ہیں، یہاں پر تاؤنی راجپوتوں کی حکومت تھی۔
راجہ تان سے آٹھویں پشت میں گوپال نامی کثیر اولاد ایک شخص ہوا ، جس کے 15
بیٹے تھے، ان 15 بیٹوں کے ناموں پر 15 دیہات کو آباد کیا گیا۔
دیہاتوں کے نام |
گوپال کی اولاد |
نمبر شمار |
کھڑڑ اور
خانپور بسایا |
دھیر |
1. |
امبالہ کی بنیاد رکھی |
امبا |
2. |
پتو ں اور پبالہ کی بنیاد رکھی۔ |
بامبہ |
3. |
باسمہ بنیاد رکھی۔ |
بیرل |
4. |
بوہ بامن نگلہ بنیاد رکھی۔ |
بوگل |
5. |
ببیال بنیاد رکھی۔ |
بہوگل |
6. |
لالکو بنیاد رکھی۔ |
لال چند |
7. |
رائے ولی کھیڑا ، کھیڑا غنی، کھیڑا مانک پور، غازی پور بنیاد رکھی۔ |
چھوڑ چند |
8. |
بریلی ، دورالہ ، سگولی فتح پور بنیاد رکھی۔ |
بھیرم پال |
9. |
مرنڈا بڑا گاؤں ، محمود پور،
مُلا پور، ماچھی پور ، سبیل پور، سمپلہ، جھانسلہ، پیر سوہانہ بنیاد رکھی۔ |
جیکسی |
10. |
چھوٹی مچھلی ، مجاق مچھلی بنیاد
رکھی۔ |
بھیم چند |
11. |
مانک پور، چُڑایلہ ، گزٹ پور،
سید پور بنیاد رکھی۔ |
مانک چند |
12. |
براس، بھاگن پور بنیاد رکھی۔ |
آتمہ چند |
13. |
کولی بنوٹ ، بنواڑی، فتح جنگ،
فتح پور کھڈا، گنور، نوال بنیاد رکھی۔ |
کول چند |
14. |
چھت گاؤں
تین امبالہ سے ، جن میں کھیر ، مُکھنڈا اور سید پور
کچھ پٹیالہ سے تھے
پتو ، وبالہ ، اجاور، کولی ، شاندو
تاؤنی راجپوتوں کے پارٹیشن سے قبل متحدہ ہندوستا ن کے انبالہ اور پٹیالہ میں 360 گاؤں تھے جن میں سے اڑھائی سو کے قریب مندرجہ ذیل ہیں۔
****************************************************
تاؤنی راجپوتوں کی نوجوان نسل کو اپنے ماضی سے اگاہی کے لئے کچھ اہم سوالات اور جوابات
تاؤنی راجپوت شعبہ جات
تاؤنی راجپوت ایڈووکیٹس
تاؤنی راجپوت پولیس
تاؤنی راجپوت ڈاکٹرز
تاؤنی راجپوت شعبہ تعلیم
تاؤنی راجپوت علماء، قراء و حفاظ
Created By: Rana Imran Siddique 03134318149
****************************************************
تاؤنی راجپوت فیس بک پیجز
Taoni Rajpoot تاؤنی راجپوت
Taoni Rajpoot Brothers تاؤنی راجپوت
https://www.facebook.com/groups/324281548576981
https://www.facebook.com/groups/3175047736056969
****************************************************
تاؤنی یوٹیوب چینل
Youtube Channel: Taoni Rajpoot Brothers
Created: 15 Nov 2021
****************************************************
حاجی صوبیدار بھوپو خان صاحب تاؤنی راجپوت
شیرپور گاؤں میں صاحباں والے محلے کے گھروں کی تفصیلات
گاؤں محی کلابابا
فقیر چن تاؤنی راجپوت ولد محمد رشید ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
2- چوہان راجپوت
https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%86%D9%88%DB%81%D8%A7%D9%86
چوہان خود کو ایک راجپوت اگنی ونشی (آگ سے پیدا) قوم بتاتے ہیں۔
چوہان قوم بھارت اور پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ تاریخ میں انکو پرتھوی راج چوہان کی
سلطنت کی وجہ سے خاص طور پہ یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخی، ثقافتی اور تعداد کے لحاظ سے
انکو بھارت اور پاکستان میں (لیکن خاص طور پہ بھارتی ریاست راجستھان میں) بہت اہمیت
دی جاتی ہے۔
تاریخ
ہندو کتب ویدوں (Vedas) میں
چوہانوں کا خاص ذکر موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اگنی ونشی ہیں یعنی کہ انکو آگ سے
منسوب کیا گیا تھا۔ انکو پیدا اس لیے کیا گیا تاکہ یہ اسوروں یعنی بُری بلاؤں سے
لڑ کر انکو ختم کر دیں۔ ان کی ابتدا اس آگ سے ہوئی تھی جو کوہ ابو سے نکلی تھی۔
چوہانوں کے علاوہ دیگر خاندانوں کو جنمیں سوریہ " چندرا " یادوونشی میں
گجرارا پرتی ہار، پرمار اورسولنکی شامل ہیں۔ ان کے بارے میں بھی معلوم نہیں ہو سکا
کہ کب ان کی حکومت وجود میں آئیں کیوں قدیم لوگ ہیں۔ چوہان پنڈی گھیب ،گُجرات،
راول پنڈی، جہلم کی ڈھوکوں ، ہریپورہزارہ اور چکوال میں موجود ہیں۔[1]
پرتھوی راج چوہان
تفصیل کے لیے دیکھیے پرتھوی راج چوہان۔
پرتھوی راج چوہان اجمیر کا راجا تھا ۔جس کو رائے پتھورہ کے نام سے
بھی جانا جاتا ہے
۔
انھوں نے محمد غوری کے خلاف تین جنگیں لڑیں، جن میں سے دو جنگوں میں غوری کو شکست
ہوئی اور پریتھوی راج نے اسے معاف کر کے ازادی دے دی ۔۔ یا تیسری جنگ جو کے ترین کی
جنگ (The Battle of Tarain) میں شکست کے بعد قیدی بن گ۔۔۔اوراس طرح گجروں کے اخری خاندان چوہان سلطنت
کا خاتمہ ہوا۔۔یو غوریوں کے بعد مغلوں نے سلطنت سنھبالی ۔۔پرتھوی کی اولاد اور ان
کے بھائی ہریا راج چوہان کی اولاد میں چوہان 38 الگ الگ گوت میں تقسیم ہو گئے
۔۔۔جن میں مشہور گوتیں کالس کلشان ۔کلسیہ ۔وغیرہ شامل ہیں۔۔۔ پرتھوی راج کا دور
سلطنت باتفصیل ایک کتاب پرتھوی راج چوراس میں لکھی گئی، جس میں ان کی زندگی اور ان
کے مزاج پہ شاہ بروئی نے نظر ڈالی ہے۔
چوہان قوم کہاں سے شروع ہوئی؟
چوہان راجپوت ،گجر ہیں یا جاٹ ؟
چوہانوں کی حکومتیں اور کامیابیاں ؟
پرتھوی راج چوہان کون تھا؟
چوہانوں اور اجمیر شریف میں کیا رشتہ ہے؟
پرتھوی راج چوہان اور شہاب الدین غوری کی ترائن کی جنگوں کا نتیجہ
کیا رہا؟
چوہان کہاں کہاں آباد ہیں ؟
-دیکھیے
اس ویڈیو میں
https://www.youtube.com/c/SajidBhattiOfficial
برگیڈئیر جنرل (ر) جمال عبدالصمد رانگھڑ راجپوت چوہان پچھلا ضلع کرنال گام ہابڑی پانا پوستی کا
****************************************************
3- طور /تنور / تنوار راجپوت
تنوار
****************************************************
تنوار/طور رنگڑھ راجپوتوں کی 23 گوتھوں میں سے ایک گوتھ ہے اور یہ راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں یہ شامل ہیں ۔ یہ خاندان بھی یادو کی ایک شاخ ہے ۔ اندرپست جو ویران پڑا تھا اسے اننگ پال تنوار نے آباد کیا تھا ۔ اس خاندان کا سب سے مشہور راجا اننگ پال تھا ۔ جس نے دہلی کی بنیاد رکھی اس خاندان کا آخری راجا بھی اننگ پال تھا ، جس کا کوئی بیٹا نہیں تھا ۔ اس لیے اس نے اپنے نواسے پڑتھوی راج چوہان کو تخت پر بیٹھایا تھا ۔ پر;180;تھوی راج چوہان نے محمد غوری سے شکست کھائی تھی اور خود بھی مارا گیا۔
تحریر :راجہ آفتاب بھٹی 03003984096
رانگھڑ راجپوت شخصیت جاٹو گوت تنور طور تومر گوت ہی کی گوت ہے میری گوت بھی جاٹو ہے
بریگیڈیئر ( ریٹائرڈ ) رانگھڑ راجپوت گوت جاٹو راؤ محمّد صدیق خاں مرحوم ، جاٹو راجپوت۔ آپ کی پیدائش ضلع حصار انڈیا کی تھی، پاکستان ہجرت کے بعد آپ کا خاندان پاکپتن شہر میں آباد ہوا تھا۔ آپ نے 1940ء میں برٹش انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا اور دوسری جنگِ عظیم میں برما فرنٹ پر بھی خدمات سرانجام دیں۔ قیامِ پاکستان کے اعلان کے بعد آپ نے پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور بلوچ رجمنٹ میں شامل کیئے گئے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں آپ کو ایک بار پھر اپنے جوہر دیکھانے کا موقع ملا تو چمب سیکٹر میں آپ نے دشمن کے دانت کھٹے کئے اور دشمن کی فوج کو پسپاہ کر دیا۔ جنگ کے اختتام پر آپ کو ستارہِ جرات سے نوازا گیا۔ ایک شاندار اور کامیاب ملٹری کیریئر کے بعد آپ فوج سے ریٹائر هوئے۔ آپاپنی رجمنٹ کی ہردل عزیز شخصیت تھے، پوری رجمنٹ میں آپ احتراماً بابا صدیق کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے آرمی ویلفیر ٹرسٹ ، آرمی فارمز ، فوجی فاؤنڈیشن اور لائل پور ٹیکسٹاہیل ملز میں بہترین انداز میں خدمات سرانجام دیں۔ آپ جس محکمے میں بھی جاتے وہاں آپ کا صرف ایک نسب العین ہوتا تھا اور وہ تھا کہ راجپوت برداری کے لیے عملی طور پر کام کرنا اور اپنی قوم کے لئے بڑھ چڑھ کر کچھ کرنا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جب لائل پور کاٹن ملز میں زیرِملازمت تھے تو آپ نے مختلف اداروں میں اتنے راجپوت بھرتی کروے کہ یہ بات اس وقت کے وزیرِ اعظم ذولفقار علی بھٹو تک بھی پہنچ گئی۔ کسی موقعہ پر جب آپ کی ملاقات بھٹو صاحب سے ہوئی تو بھٹو نے آپ سے کہا کہ راؤ صاحب! آپ نے تو لائل پور ٹیکسٹاہیل ملز کو راجپوتانہ بنا دیا ہے۔ ماضی قریب تک راجپوت برادری میں بریگیڈیئر راؤ محمّد صدیق خاں جسے بہت سے افراد ملتے تھے جن کے دل میں اپنی برادری کے لئے درد تھا اور وہ برادری کے لئے عملی طور پر زیادہ سے زیادہ کام کرتے تھے مگر آج کل بریگیڈیئر راو محمّد صدیق خاں جیسے افراد ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ چیلنجوں سے بھرپور ایک کامیاب زندگی گزار کر آپ نے 2005ء میں راول پنڈی کے مقام پر وفات پائی اور پاکپتن میں آسودہ خاک ہیں۔ دعا ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، آمین۔
تصویر میں آپ جنرل موسیٰ خان کمانڈر اِن چیف سے 1965 کی جنگ میں شاندار خدمات سرانجام دینے پر ستارہ جرات وصول کر رہے ہیں
جاٹوں نامی شاخ تنور ( تومار ) راجپوتوں کی ایک ذیلی شاخ ہے جو تنوروں میں سب سے بڑی شاخ ہے اور بہت بڑی لاکھوں کی تعداد میں تنور راجپوت اپنی بڑی ہی شاخ جاٹو سے زیادہ تر تعلق رکھتے ہیں
باقی اگر کوئی کہے کے میں جاٹ ( جٹ ) راجپوت ہوں تو وہ قصا ہی الگ ہیں ، میں اب ایک مضمون لکھ رہا ہو جس میں لفظ جاٹ کے بارے میں اصل حقیقتیں سامنے لا رہا ہوں کے ہم راجپوتوں نے ہی اپنے راجپوتوں کو جنہوں نے راجپوتی اصول توڑ کر کسی غیر راجپوت عورت سے شادی کی یا اصول توڑ کر جاکے کھیتی باڑی کی یا اور کوئی ایسا کام جو راجپوتی شان کے خلاف ہو تو راجپوتوں نے ہی اسے راجپوتیت سے نکال باہر کیا اور اسے جاٹ کہنے لگے جسے اب جٹ بھی کہتے ہیں پھر انہی سابقا راجپوتوں نے یہ لفظ جاٹ ( جٹ ) اپنا لیا جنہیں اپنے راجپوتوں نے راجپوت ورن یعنی طبقے سے نکال دیا وہ ہی آج تک کہتے آرہے ہیں کے ہم جاٹ ہیں ہم جاٹ راجپوت ہیں پھر آج کل کہتے ہیں کے ہم اصلی جاٹ راجپوت ہیں پھر لوگوں نے سمجھا کے شاید یہ کھیتی باڑی کرنے والوں کا نام جاٹ ہے پر ایسے نہیں تھا کھیتی باڑی کرنے والوں کو تو تیسرا طبقا بنایا گیا تھا یعنی ویش جن کا کام تھا کھیتی باڑی کرنا اور بیوپار کرنا انکا رنگ پیلا تھا یعنی وہ لوگ پیلے رنگ کی پگڑیاں اپنے سر پر باندھ تے تھے جس سے ان کا ویش ہونا ظاہر ہوتا تھا ، برہمنوں یعنی پروہت کرنے والوں کا رنگ سفید ہوتا تھا ، اور کشتری یعنی راجپوتوں کا رنگ لال تھا آج بھی اگر کوئی ہندوستان میں لال پگڑی پہنے تو اسے راجپوت ہی سمجھا جاتا ہے ۔
****************************************************
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
4- مڈاڈ راجپوت
https://www.youtube.com/watch?v=abPC5ktnTog
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
5-جنجوعہ راجپوت
جنجوعہ پنجاب میں بسنے والے راجپوتوں کی ایک ذات جنجوعہ ہے۔یہ
پاکستان بھر میں آباد ہیں ان کا آبائی علاقہ ضلع جہلم ہے یا اسے پوٹھوہار بھی کہا
جا سکتا ہے، جنجوعہ راجپوت، گلگت،بلتستان،اور آزادکشمیر میں بھی آباد ہے۔بعض
جنجوعہ راجپوتوں نے ذریعہ معاش کے لیے مختلف پیشے اختیار کیے اور وقت گزرنے کے
ساتھ یہ پیشے ان کی پہچان بن گئے اس لیے آج جنجوعہ قبیلہ کے لوگ مختلف برادریوں میں
نظر آتے ہیں ۔
فہرست
تاریخی حیثیت
جنجوعہ راجپوت ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﺍﺟﭙﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ " ﭼﻨﺪﺭﺑﻨﺴﯽ " ﻗﺒﯿﻠﮯ ﺳﮯ ہے- راجا ﺩﯾﻮﭘﺎﻝ جنجوعہ ﮐﯽ ﺳﺎﺗﻮﯾﮟ ﭘﺸﺖ ﺳﮯ"ﺭﺍﺟﮧ ﺳﺮﯼ ﭘﺖ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ "ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ - ﺭﺍﺟﮧ ﺳﺮﯼ ﭘﺖ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺩﻭ ﺑﯿﭩﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ "ﺭﺍﺟﮧ ﻣﺠﭙﺎﻝ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ "، "ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ " ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﻧﺠﻮﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﻦ ﮔﻮﺋﯽ ﺗﻬﯽ ﮐﮧ ﺭﺍﺟﮧ ﺳﺮﯼ ﭘﺖ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺟﻮ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ- ﺭﺍﺟﮧ ﻣﺠﭙﺎﻝ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮨﻨﺪﻭ ﻣﺬﮨﺐ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮨﺎ- ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ " ﻗﻨﻮﺝ " ، " ﺟﻮﺩﻫﭙﻮﺭ " ﺍﻭﺭ
" ﮐﻮﮦ ﺷﻮﺍﻟﮏ " ﭘﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﻫﮯ - ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ " ﺍﺳﻼﻡ
" ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖ ﺳﮯ ﻣﺎﻻ ﻣﺎﻝ ﮨﻮﺋﮯ- ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﻭﺍﻟﯿﺌﮯ " ﻣﺘﻬﺮﺍ " "ﺭﺍﺟﮧ ﺑﺸﻦ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ " ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ- ﺭﺍﺟﮧ ﺑﺸﻦ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﺮﯾﻨﮧ ﻧﮧ ﺗﻬﯽ- ﺭﺍﺟﮧ ﻧﮯ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮐﻮ ﻣﺘﻬﺮﺍ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ- ﺑﺮﮨﻤﻨﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﮮ "ﺭﺍﺟﮩﺴﺘﺎﻥ " ﻣﯿﮟ ﺷﻮﺭﻭﻏﻞ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ- ﻭﮦ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻧﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ "ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ
" ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ- ﻧﺘﯿﺠﺘﺎً ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﮐﻮ ﻣﺘﻬﺮﺍ ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ ﭼﮭﻮﮌﻧﯽ ﭘﮍﯼ- ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﻧﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﺮﮐﺰﯼ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ " ﮐﻮﮦ ﺷﻮﺍﻟﮏ " ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﻮﭺ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﻠﻌﮧ " ﺭﺍﺟﮕﮍﻫﻪ " ﺑﻨﻮﺍﯾﺎ ﺑﺮﮨﻤﻦ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﻧﮯ ﮐﻮﮦ ﺷﻮﺍﻟﮏ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ- 998 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﻧﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺷﻤﺎﻝ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﺳﻠﺴﻠﮧ "ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ " ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺟﺪﺍﺩ "ﭘﺎﻧﮉﻭ " ﺭﮦ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ- ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﻗﻠﻌﮧ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ " ﻣﻠﻮﭦ " ﺭﮐﮭﺎ ﺟﻮ ﺗﺎ ﺣﺎﻝ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ- ﺭﺍﺟﮧ ﻣﻞ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﯿﭩﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ- " ﺭﺍﺟﮧ ﻭﯾﺮ " ، "ﺭﺍﺟﮧ ﺟﻮﮨﺪ " "ﺭﺍﺟﮧ ﮐﻬﮑﻪ " ، "ﺭﺍﺟﮧ ﺗﺮﻧﻮﻟﯽ " ، " ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ " ﺭﺍﺟﮧ ﻭﯾﺮ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺟﮧ ﺟﻮﮨﺪ ﻧﮯ ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺳﮑﻮﻧﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ - ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ ﺟﻮ ﻣﺸﺮﻕ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺟﮩﻠﻢ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺳﻨﺪﮪ ﺗﮏ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ- ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﺟﮩﻠﻢ ، ﭼﮑﻮﺍﻝ ، ﮔﺠﺮﺍﺕ ، ﺧﻮﺷﺎﺏ ، ﺳﺮﮔﻮﺩﻫﺎ ، ﮐﮯ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺟﮧ ﻭﯾﺮ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺟﮧ ﺟﻮﮨﺪ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﮯ- ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ ﭘﺮ ﺟﻨﺠﻮﻋﮧ ﺭﺍﺟﭙﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻗﻠﻌﮯ - " ﻗﻠﻌﮧ ﻣﻠﻮﭦ " " ﻗﻠﻌﮧ ﻣﮑﻬﯿﺎﻟﮧ " ، " ﻗﻠﻌﮧ ﮔﺮﺟﺎﮒ " " ﻗﻠﻌﮧ ﮐﺴﮏ " " ﻗﻠﻌﮧ ﻭﭨﻠﯽ " ﺭﺍﺟﮧ ﮐﻬﮑﻪ ﻧﮯ " ﮐﺸﻤﯿﺮ
" ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﯾﻠﻐﺎﺭ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻈﻔﺮﺁﺑﺎﺩ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ- " ﻗﻠﻌﮧ ﭼﺎﻻﺱ " ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﺍﯾﺎ . ﺭﺍﺟﮧ ﺗﺮﻧﻮﻟﯽ ﻧﮯ " ﮨﺰﺍﺭﮦ
" ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﯾﻠﻐﺎﺭ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﺎﺳﺖ " ﺍﻧﻤﺐ ﺩﺭﺑﻨﺪ " ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ ﺟﻮ 84 ﺩﯾﮩﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﺗﻬﯽ -
ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﭘﺮ ﯾﻠﻐﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺳﮯ ﮐﻮﮨﺴﺘﺎﻥ ﻧﻤﮏ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻮﺝ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ - ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ ﺳﮯ ﻣﺸﺮﻕ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﯾﺎﺳﺖ " ﮐﺎﮨﺮﻭ
" ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﭘﮍﺍﻭ ﮐﯿﺎ - ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﯾﮏ " ﭼﻨﺪﺭﺑﻨﺴﯽ
" ﺭﺍﺟﭙﻮﺕ ﮨﮯ- ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ "ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﭧ " ﮨﮯ - ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺭﺍﺟﭙﻮﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﮨﻢ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮨﻮﺍ - ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﭧ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﺮﯾﻨﮧ ﻧﮧ ﺗﻬﯽ - ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﯽ ﺗﻬﯽ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ " ﺭﺍﻧﯽ ﮐﺎﮨﻮ " ﺗﻬﺎ- ﺭﺍﻧﯽ ﮐﺎﮨﻮ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ " ﮐﺎﮨﺮﻭ " ﺗﻬﺎ -
" ﺭﺍﻧﯽ ﮐﺎﮨﻮ " ﮐﺎ ﻧﮑﺎﺡ "ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ " ﺳﮯ ﮨﻮﺍ - ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﭧ ﻧﮯ " ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎﮨﺮﻭ " ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺟﮩﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﺩﮮ ﺩﯼ - "ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ " ﻭﺍﻟﯿﺌﮯ " ﮐﺎﮨﺮﻭ
" ﺑﻨﮯ - ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎﮨﺮﻭ ﮐﺎ ﻣﺤﻞ ﻭﻗﻮﻉ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺗﻬﺎ - ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎﮨﺮﻭ ﮐﮯ ﻣﺸﺮﻕ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺟﮩﻠﻢ ﺑﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺳﻮﺍﮞ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﺗﻬﺎ- ﺷﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﮩﻮﭨﮧ ﮐﯽ ﭘﮩﺎﮌﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺗﻬﺎ ﺟﻮ ﻣﺮﯼ ﺗﮏ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﻮﺏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﻮﭨﮭﻮﮨﺎﺭ ﮐﺎ ﻭﺳﯿﻊ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺗﻬﺎ ﺟﻮ ﺳﻮﮨﺎﻭﮦ ﮐﯽ ﭘﮩﺎﮌﯾﻮﮞ ﺗﮏ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ - ﺍﺱ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﻣﻠﮑﯿﺖ 84 ﺩﯾﮩﺎﺕ ﺗﮭﮯ - ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ " ﻣﭩﻮﺭ"
ﺗﻬﺎ ﺟﻮ ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﭧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﻫﮯ - ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎﮨﺮﻭ ﮐﺎ ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ " ﻣﭩﻮﺭ
" ﺟﻐﺮﺍﻓﯿﺎﺋﯽ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﺑﻠﻨﺪ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺳﮯ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﻬﺮﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻗﻠﻌﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ - ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﭘﺮ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﻮﺳﭩﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ - ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺩﻭ ﺑﯿﭩﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ - "ﺟﺲ ﺭﺍﺋﮯ " ، " ﭘﺖ ﺭﺍﺋﮯ " ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﻣﻮﺭ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ - ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﺣﺼﮧ " ﭘﺖ ﺭﺍﺋﮯ " ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﯿﺎ - ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺣﺼﮧ " ﺟﺲ ﺭﺍﺋﮯ " ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ - ﺧﻮﺩ ﯾﺎﺩ ﺧﺪﺍ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺟﮕﮧ ﺑﺴﯿﺮﺍ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ - "ﻋﺎﻟﻢ ﺗﺼﻮﻑ " ﻣﯿﮟ "ﻭﻻﯾﺖ
" ﮐﮯ ﻣﻨﺼﺐ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮨﻮﺋﮯ - ﺍﺳﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﺍﺏ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺰﺍﺭ ﻫﮯ - ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺟﮕﮧ "ﺩﺍﺩﺍ ﭘﯿﺮ ﮐﺎﻻ " ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻫﮯ - "ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﭧ " ﺍﻭﺭ " ﺭﺍﻧﯽ ﮐﺎﮨﻮ " ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻫﮯ - ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻻﻧﮧ ﻋﺮﺱ ﮐﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺑﺎ ﻗﺎﻋﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﻫﮯ - "ﺭﺍﺟﮧ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﮐﺎﻻ ﺧﺎﮞ " ، "ﺭﺍﻧﯽ ﮐﺎﮨﻮ " ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ " ﮐﺎﮨﺮﻭﺍﻝ
" ﮐﮩﻼﺋﯽ - ﺁﮔﮯ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺩﺭﺝ ﺫﯾﻞ ﻗﺒﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮨﻮﺋﮯ - " ﮐﺎﮨﺮﻭﺍﻝ " " ﺳﻨﮕﺎﻝ " "ﮐﮉﺍﻝ " " ﺩﻭﻻﻝ " ﺭﯾﺎﺳﺖ
" ﮐﺎﮨﺮﻭ " ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻗﺪﯾﻢ ﺷﮩﺮ " ﮐﻨﮉﯾﺎﺭﯼ
" ﺗﻬﺎ ﺟﻮ ﺍﺏ ﺻﺮﻑ ﭼﻨﺪ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﻫﮯ - ﮐﺎﮨﺮﻭ ﮐﮯ ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ " ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ
" ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ - ﺍﻥ ﻧﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ( ﭦ، ﮈ، ﮌ، ) ﮐﯽ ﮐﺜﺮﺕ ﻫﮯ - ﺍﺭﺩﻭ ﺭﺳﻢ ﺍﻟﺨﻂ ﻣﯿﮟ ( ﭦ، ﮈ، ﮌ، ) ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ . ﻋﻼﻗﮧ ﮐﺎﮨﺮﻭ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺠﻮﻋﮧ ﺭﺍﺟﭙﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺩﯾﮩﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻗﺼﺒﮯ یہ ہیں : ﻣﭩﻮﺭ، ﻣﯿﺮﺍ ، ﻣﻮﺍﮌﮦ ، ﮔﮍﻫﯿﭧ ، ﺟﻨﺠﻮﺭ ، ﮔﮕﺎﮌﯼ ، ﺑﻤﻠﻮﭦ، ﮐﮩﻮﭨﮧ ، ﺩﺭﯾﻮﭦ ، ﺳﺮﻭﭦ ، ﭨﭙﯿﺎﻟﯽ ، ﻣﻮﮌﯼ ، ﻣﺎﮐﮍﺍ ، ﺩﮐﻬﺎﻟﯽ ، ﻧﻮﮔﺮﺍﮞ ،سلجور، جمبا کرپال ، ﮐﻼﮨﻨﮧ ، ﮔﺎﮌ ، ﮐﺮﭘﺎﻝ ، ﺗﻬﻠﮧ ، ﮐﻮﭦ ، ﺑﻬﻮﺭﮦ ، ﺳﺮﻫﺎﭨﯽ ، ﮐﻠﻮﭦ، ﺗﻬﻮﮨﺎ ، ﻣﮩﺮﮦ ﺳﻨﮕﺎﻝ ، ﮔﻒ ، ﺳﻠﺠﻮﺭ، ﭘﻨﮉ ﺑﻬﯿﻨﺴﻮ ، ﺑﻨﺎﮨﻞ ، ﮐﻬﮉ ، ﺳﮩﺮ، ﻟﮩﮍﯼ ، ﻧﺎﺭﮦ ، ﭘﻨﺠﻮﺍﮌ ، ﮐﺎﻧﮕﮍﻫﻪ ، ﮔﻮﮌﮦ ، ﮐﺮﻭﭦ ، ﺑﻬﮕﻮﻥ ، ﺳﻨﺒﻞ ، ﺑﮕﮩﺎﺭ ﺷﺮﯾﻒ ، ﻣﻤﯿﺎﻡ ، ﺑﮕﻠﮧ ﺭﺍﺟﮕﺎﻥ ، ﮔﻬﻮﺋﯽ ، ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺧﯿﻞ ، ﮐﻨﮉﯾﺎﺭﯼ ، ﭘﮍﻭﭨﻬﮧ ، ﺁﺋﻞ ، ﮐﯿﻨﺘﻬﻞ ، ﺁﮌﮦ ﺳﻨﮕﺎﻝ ، ﮔﻠﻮﺭ ﺭﺍﺟﮕﺎﻥ ، ﺳﺎﻋﺊ ﮐﻮﭦ ، ﭼﮭﻨﯽ اور ﮈﻫﻮﭦ۔
قبول اسلام
ان راجاؤں میں رائے دھروپت دیو کے بیٹے رائے اجمل جنجوعہ نے بارہویں
صدی میں اسلام قبول کیا، رائے مل یا راجا مل بھی اسی شاخ سے بتایا جاتا ہے۔ مسلمان
ہونے کے بعد اس کا نام راجا مل خان پڑا۔ اسلام اس نے شہاب الدین غوری کی آمد پر کم
سنی میں قبول کیا تھا، صوفیا سے بہت متاثر تھا، بعد میں اس نے کوہ جُودہ پر راج
قائم کیا جس کی راج دہانی راج گڑھ یا شاہ گڑھ تھی، اس کا نام بعد میں ملوٹ پڑا۔
راجا اجمل دیو کے تعلقات سلطنت دہلی کے ساتھ کبھی اچھے نہیں رہے، اسے باغی راجا بھی
قرار دیا جاتاہے۔ کوہستانِ نمک سے نمک نکالنے کا تجارتی آغاز راجا مل ہی نے کیا۔
اس کے پانچ لڑکے تھے ان میں سے راجا تنولی نے ہزارے (ریاست امب) پر، راجا جودھ نے
جہلم، راجا کھکھا نے کشمیر، راجا بھیر نے راج گڑھ (چکوال) اور راجا کالا خان نے
کہوٹہ پر راج کیا، یہ پورا رجواڑا ’’ملوکی کی دہانی‘‘ بھی کہلاتا ہے۔
جنجوعہ کا لفظی مطلب
"
ﺟﻨﺠﻮﻋﮧ " ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﻫﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ جنگجو، ﺑﮩﺎﺩﺭ، ﺩﻟﯿﺮ، ﺍﻭﺭ ﻟﮍﺍﮐﺎ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ -" ﺟﻨﺠﻮﻋﮧ ﺭﺍﺟﭙﻮﺕ " ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻮﺭﺙ ﺍﻋﻠﯽ " ﺭﺍﺟﮧﺩﯾﻮﭘﺎﻝ
جنجوعہ " ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ " ﺟﻨﺠﻮﻋﮧ " ﮐﮩﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ - "ﺭﺍﺟﮧ ﺩﯾﻮ ﭘﺎﻝ جنجوعہ " ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﻗﺪﯾﻢ ﺭﯾﺎﺳﺖ " ﮨﺴﺘﻨﺎﭘﻮﺭ " ﮐﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﺗﺎﺟﺪﺍﺭ ﺗﻬﺎ- ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻟﯿﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ "ﺟﻨﺠﻮﻋﮧ " ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ-
Major General Shahnawaz Janjua
Major General Shahnawaz Janjua. Born on 24th January 1914 in a Rajput Janjua Family in Rawalpindi district, village Matore. He served in Indian National Army during WWII. He was influenced by Subhash Chandra Bose's speeches and followed him till his death. He successfully contested in Lok sabha 1951, 62 and 71. Lost in 66 and 77. He held the following ministries with the Gov of India. Food and agriculture, labour, employment and rehabilitation, petroleum and chemicals, agriculture and irrigation.
Interesting facts.
- He chooses India over Pakistan while most of his family Stayed in Rawalpindi.
-He had six children
-At time of independence it was Shahnawaz who took down British Flag at Red fort Delhi.
-During 1965 war between India and Pakistan his son Col Mahmood Nawaz Khan was serving in Pakistan army while Shahanawaz was health minister in India. Opposition parties in lok sabha made a big deal about it and asked pm to dismiss shahanawaz. PM at the time didn't even bother to entertain such thoughts as they know how patriotic shahnawaz was.
-Shahanawaz had an adopted daughter Lateef Fatima Khanum. He gave her hand to Mir Taj Muhammad Khan from Peshawar. They both had a son named Shahrukh Khan the Bollywood star of today.
Shahnawaz died on 9 December 1983.
He was well respected Muslim Rajput of India.
جنرل شاہ نواز خان جنجوعہ
طویل راجپوت تاریخ اپنے عہد اور انا کے لئے جان کی بازی سے عبارت ہے۔۔۔ تلوار کی پیکار ہی راجپوتوں کے لیے ساز کی جھنکار ہے۔۔۔ ان کے خمیر میں دلاوری کا ست شامل ہے۔۔۔ شہسواری اور شمشیر زنی ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔۔۔ اسی لیے بیرونی لشکر کشوں نے راجپوتوں کے اس بے پناہ جنگی جذبے سے فائدہ اٹھایا اور ان سے اپنے لشکروں کی شان و شوکت بڑھائی۔۔۔
عالمگیر جنگوں کا ڈنکا بجا تو جنجوعہ راجپوت خون نے جوش مارا۔۔۔ راجپوتوں کے تقریباً ہر گھر سے فوجی اہلیت کا حامل ہر مرد فوج میں بھرتی ہو گیا۔۔۔ مٹور سے 80 کے قریب تو صرف کمیشنڈ آفیسر تھے۔۔۔ انہی میں سے ایک شاہ نواز خان جنجوعہ تھے۔۔۔ شاہ نواز خان جنجوعہ 1914 ء میں مٹور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خان صاحب کیپٹن ٹکا خان جنجوعہ مٹور کے ذیلدار تھے۔۔۔ 30 سال فوج میں سروس کی۔۔۔ شاہ نواز جنجوعہ کی عمر 9 سال تھی کہ وہ چل بسے۔۔۔ ان کی پرورش ان کے چچا K.S رسالدار نور خان جنجوعہ (MLC) نے کی۔۔۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سکول مٹور میں حاصل کی اور 1926 ء میں پرنس آف ویلز رائل انڈین کالج ڈیرہ دون میں داخل ہو گئے۔۔۔ 1932ء میں کمیشن کا امتحان پاس کیا۔۔۔ 1936 ء میں کمیشن حاصل کیا۔۔۔ دوسری عالمگیر جنگ کے دوران 29 جنوری 1942ء کو سنگاپورمیں جاپانیوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔۔۔ جہاں ہندوستان کی آزادی کے لیے سرگرم عمل ترقی پسند انقلابی راہنما سبھاش چندر بوس کی تقاریر نے راجہ شاہ نواز خان جنجوعہ کی آنکھیں کھول دیں اور انھوں نے پہلی مرتبہ اپنے وطن کو اپنی نظر سے دیکھا۔۔۔سامراج کو مضبوط بنانے کے بجائے سامراج کے خلاف لڑنا ایک رومان انگیز احساس تھا۔۔۔ ایک روایتی سپہ گر کے اندر ایک نظریاتی مجاہد نے کروٹ لی۔۔۔ لیکن برٹش انڈین آرمی چھوڑ کر انڈین نیشنل آرمی میں جانے کا فیصلہ ایک پشتینی سپہ گر کے لیے اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔ اسے رہ رہ کر اپنے اجداد کی عالی روایات کا عہد یاد آ رہا تھا۔۔۔ کئی ہفتوں کی ذہنی کشمکش کے بعد اس نے اغیار کا فوجی بیلٹ اتار پھینکا اور اپنے خون سے اپنی مظلوم اور پیاسی دھرتی کو سیراب کرنے کا عہد کیا۔۔۔ اور پھر برما اور ملائشیا کے پہاڑوں اور اور جنگلوں میں جدوجہد آزادی کا شاندار باب رقم کیا۔۔۔ اس کا کریڈٹ نیتا جی سبھاش چندر بوس کو جاتا ہے۔۔۔ جن کا شمار ہندوستان کے ذہین ترین لوگوں میں کیا جاتا ہے۔۔۔ سبھاش جی فلسفے کے طالب علم تھے۔۔۔ مقابلے کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا لیکن جلیانوالہ باغ امرتسر میں تین سو انہتر نہتے ہندوستانیوں کی ہلاکت اور ایک ہزار سے زائد زخمیوں سے اظہارِ ہمدردی کے طور پر احتجاجاً مستفعی ہو گئے اور سامراج کے خلاف تحریک شروع کر دی۔۔۔ ان کا سیاسی سفر جلاوطنی سے عبارت رہا۔۔۔ سبھاش آزاد ہند فوج کھڑی کرنے براستہ افغانستان جرمنی ، جاپان رنگون پہنچے۔۔۔ بہادر شاہ ظفر کے مزار کو پہلی بار سلامی دی۔۔۔ جاپانیوں کے ساتھ معاہدے کے تحت آپ قیدیوں کی بارکوں میں جا کر تقاریر کرتے اور استعمار کے فریب کا شکار ذہنوں میں قومی شعور کی جوت جگاتے۔۔۔اکتوبر 1943ء آزاد ہند حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔۔۔ شاہ نواز جنجوعہ وزیر مقرر ہوئے۔۔۔ اس فوج کے لیے جو جھنڈا بنایا گیا اس پر ٹیپو شہید کی نسبت سے شیرنمایاں تھا۔۔۔ اس کا قومی ترانہ سارے جہاں سے اچھا ہے ہندوستان ہمارا تھا۔ ستمبر 1943ء میں انڈین نیشنل آرمی کا گوریلا یونٹ تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور شاہ نواز خان جنجوعہ کو اس کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔۔۔ جنرل شاہ نواز نے ائی این اے (انڈین نیشنل آرمی) کی تنظیم سازی اور پھیلاو میں کلیدی کردارادا کیا۔۔۔ مختلف محاذوں پر ان کے بے مثال کارنامے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا اہم باب ہیں۔۔۔ ہندوستانی جنتا میں آزادی کی جوت جگانے اوربرٹش انڈین فوجیوں کو بغاوت پر ابھارنے اور نوجوانوں کو انقلاب کا رومان انگیز تصور دینے پر انہیں سن پینتالیس میں گرفتار کر لیا گیا۔۔۔ جنرل شاہ نواز خان جنجوعہ اور آزاد ہند فوج کے انیس ہزار پانچ سو فوجیوں کو لال قلعہ دہلی لایا گیا۔۔۔ سلطان ٹیپو اور اٹھار سو ستاون کی یاد تازہ ہو گئی۔۔۔ شاہ نواز کو بہادر شاہ ظفر کی طرح بغاوت کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔ شہنشاہ معظم کے خلاف بغاوت کا یہ مقدمہ ریڈ فورٹ ٹرائلز 1945ء کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔۔جنرل شاہ نواز جنجوعہ اور ان کے ساتھیوں کرنل پریم سہگل اور کرنل گر بخش سنگھ ڈھلون اور کرنل حبیب الرحمن پر الزام تھا کہ انہوں نے برطانیہ عظمٰی کے خلاف بغاوت کی ہے۔۔۔ مدعاعلیہان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑ رہے تھے۔۔۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے سر تیغ بہادر سپرو، جواہر لعل نہرو، بھولا بھائی ڈیسائی اور اسی قد کاٹھ کے دیگر وکلا کا پینل دفاع کر رہا تھا۔۔۔ اس کے باوجود انہیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔۔۔ اس سزا پر شدید عوامی احتجاج دیکھنے میں آیا۔۔۔ کمانڈران چیف نے شاہ نواز جنجوعہ کی عوامی پذیرائی کے پیشِ نظر ان کی سزا معاف کر دی۔۔۔ لیکن جنرل شاہ نواز خان جنجوعہ ہیرو بن چکے تھے۔۔۔ دوسری عالمگیر جنگ کے دوران گریٹ برٹش امپائر کا سورج تیزی سے ڈھلنے لگا۔۔۔ بیالیس میں کرپس مشن، چھیالیس میں کابینہ مشن آیا اور سن سنتالیس کے اوائل میں اقتدار کی منتقلی کے لیے عارضی حکومت قائم کر دی گئی۔۔۔ 14 مارچ کو عبوری حکومت کے نو منتخب نائب وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے علاقے کا دورہ کیا۔۔۔ شاہ نوازخان جنجوعہ نے تحفظ فراہم کرنے کی یقین دھانی کرائی۔۔۔ مٹور کے اطرف نارہ اور تھوہا خالصہ میں حالات زیادہ خراب تھے۔۔۔ لیکن مٹور میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا اور یہاں سے ہندووں اور سکھوں کا پرامن انخلا میں شاہ نواز خان جنجوعہ کی شخصیت نے مرکزی کردار ادا کیا۔۔۔ 14 اور 15 اگست 1947ء کو آئی این اے کا خواب تو پورا ہو گیا ۔لیکن ہندوستان آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ تقسیم ہو گیا۔۔۔ شاہ نواز خان جنجوعہ کو ہند و پاک سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔۔۔
منقسم انڈیا میں شاہ نواز خان جنجوعہ عام آدمی کی بہتری، طبقاتی تفریق کے خاتمہ، زرعی اصلاحات اور دولت کی مساویانہ تقسیم کے ادرش لئے سیاست میں جرنیلی کرنے لگے۔۔۔ سیاست ان کے لیے نئی نہیں تھی۔۔۔ ان کے چچا سردار نور خان دو مرتبہ مری کے حلقے سے قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہو چکے تھے۔۔۔ سبھاش چندربوس کا خواب تو پورا ہو گیا۔۔۔ لیکن انہیں پراسرار طور پر غائب کر دیا گیا تھا۔۔۔ طرح طرح کی افواہیں گرمِ رہیں۔۔۔ آخر 1956 ء میں ان کی پراسرار گمشدگی کا کھوج لگانے کے لیے ایک تین رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا اس کی صدارت جنرل شاہ نواز خان جنجوعہ کر رہے تھے اور یہ شاہ نواز کمیشن کے نام سے مشہور ہوا۔۔۔ آزادی کے بعد بھارت کے پہلے عام انتخابات میں میرٹھ سے چھتیس ہزار کے مقابلے میں سوا لاکھ ووٹ لے کر لوک سبھا کے ممبر بنے۔۔۔ پہلی وزارت میں وزیر مملکت برائے ریلوے تھے۔۔۔ اس کے بعد پٹرولیم کی وزارت میں رہے۔۔۔ چار مرتبہ لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوئے۔۔۔ اپنے اگلے تیس سالہ سیاسی کیرئیر میں ریلوے، پٹرولیم، خوراک، لیبر، سٹیل اور زراعت کے منسٹر رہے۔۔۔ 1965ء میں شاہ نواز خان جنجوعہ نے خوراک و زراعت کا محاذ سنبھالا ہوا تھا۔۔۔ بیٹا کرنل محمود نواز خان جنجوعہ بھارت کے خلاف پاک فوج کی طرف سے 1965 کی جنگ لڑ رہا تھا۔ حزب اختلاف نے وزارت واپس لینے کا مطالبہ کیا لیکن وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی نےآزادی ہند کے لیے آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔۔۔ محمود نواز خاں جنجوعہ کے علاوہ جنرل شاہ نواز کے دو بیٹے اکبر نواز خاں جنجوعہ اور اجمل نواز خاں جنجوعہ اور تین بیٹیاں ممتاز، فہمیدہ اور لے پالک لطیف فاطمہ ( بالی ووڈ سٹار شاہ رخ خان کی والدہ ) تھیں۔۔۔ اسی وجہ سے بعض احباب جنرل شاہ نواز خان جنجوعہ کو ایکٹر شاہ رخ خان کا نانا سمجھتے ہیں۔۔۔ جب کہ شاہ رخ کی والدہ جنرل شاہ نواز کے منشی کی بیٹی تھی۔۔۔ منشی کی ناگہانی وفات کے بعد جنرل شاہ نواز خان جنجوعہ نے فاطمہ خاتون کو اپنی کفالت میں لے لیا اور اپنی سرپرستی میں اس کی شادی کی۔۔۔
1965 کی جنگ پہلا موقع نہیں تھا کہ جنرل شاہ نواز خان جنجوعہ کو اپنے عشق کی قیمت ادا کرنی پڑی ہو۔۔۔ آزاد ہند فوج کا ممبر بننے کے فوری بعد انہیں اپنے بھائی کرنل محمد نواز جنجوعہ اور کزن کے خلاف دو بدو جنگ کرنی پڑی۔۔۔ انہیں پاکستان میں غداری کے طعنے سہنے پڑے۔۔۔ ان کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔۔۔ نواسے شاہ رخ خان کا تعلق آپ کے بھتیجے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر السلام جنجوعہ سے جوڑ کر انہیں پریشان رکھا گیا۔۔۔ پوتے عادل نواز جنجوعہ کی باکسر عامر خان جنجوعہ کے ساتھ تصویر کو متعصب ذہن نے عادل نواز جنجوعہ کے والد اجمل نواز جنجوعہ (جنرل شاہ نواز کے بھائی) کی انتخابی مہم میں ان کے خلاف استعمال کیا۔.. ہندوستان سے سامراجی بساط لپیٹنے کے لیے جو تحریکیں چلیں ان میں جنگِ عظیم اول میں بننے والی غدر پارٹی اور جنگ عظیم دوم میں بننے والی آئی این اے بہت اہم تھیں۔۔۔ ان دونوں تنظیموں میں جنجوعہ راجپوتوں کی شمولیت مثالی رہی۔۔۔ آزاد ہند فوج میں جنرل شاہ نواز خان جنجوعہ نے شمولیت اختیار کی۔۔۔ ہندوستان جانے کے بعد بھی جنرل شاہ نواز خان جنجوعہ پاکستان آتے رہے۔۔۔ پر چھاچھی تلوار کی چمک پرعصری شعور کی چمک غالب آ گئی۔۔۔ سب کچھ چھوٹ گیا لیکن تازی گھوڑوں اور گھڑ سواری سے محبت آخری دم تک قائم رہی۔۔۔ زندگی کا مصروف شیڈول بھی اس محبت میں حائل نہ ہو سکا۔۔۔ رنگون میں سبھاش چندر بوس اور شاہ نواز خان نے بہادر شاہ ظفر کے مزار پر انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے اور ان کی قبر کو لال قلعہ دہلی منتقل کرنے کا عہد کیا تھا۔۔۔ قبر تو منتقل نہ ہو سکی کیوں کہ سامراج اور اس کے مقامی ایجنٹوں نے سبھاش چندر بوس کو پراسرار طور پر غائب کر دیا تھا۔۔۔ لیکن اسی جگہ لال قلعہ دہلی میں جنرل شاہ نواز خان جنجوعہ کا مزار بنا۔۔۔ 9 دسمبر 1983 ء کو تحریک چ پہ مختلف زبانوں میں اب تک بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔۔۔
1843
ء میں جب سکھ فوجوں نے قلعہ سوکہ پر حملہ کیا تو چکری رجگان (چکری دھمن خان) اور قلعہ سوکہ کے جنجوعہ راجگان نے مل کر سکھوں کے حملے کو ناکام بنایا۔ جنجوعہ قلعہ کے پاس شیو دیوتا کا مندر ہندو برھمنوں کی یادگار ہے۔ شیوا کا پنڈ سے یہ پنڈ سوکہ (و کے نیچے زیر) بن گیا۔
سوکہ کو "سوے کا" پڑھتے بولتے ہیں
بھائی چندر بنسی راجہ چندر دیو اج سے کتنے سوں سال پہلے ہوا؟
مورث اعلیٰ چندر ونشی راجپوت راجہ چندر کی پیدائش 1221 قبل مسیح میں ہوئی۔ مہابھارت کے راجہ کرشن راجہ ارجن سے عمر میں چھ ماہ بڑے تھے۔ راجہ ارجن کی پیدائش 891 قبل مسیح میں ہوئی۔ جنگ مہابھارت 836 قبل مسیح میں ہوئی۔ جنگ مہابھارت کے وقت راجہ ارجن کی عمر 55 سال تھی۔ اسی جنگ میں کروکشیتر کے میدان میں راجہ ارجن اور رانی سبھدرا کا نوجوان بیٹا راجہ ابھیمنیو قتل ہوا۔ جنجوعہ راجپوت خاندان کا نسب راجہ ابھیمنیو بن راجہ ارجن سے چلتا ہے۔
891-836=55
قبل مسیح میں بڑی تاریخ پہلے آۓ گی
جنجوعہ مشاہیر
مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت
الطاف گوہر صحافی، سول سرونٹ
صوبیدار عبد الخالق کھلاڑی ایتھلیٹ لقب (پرندہ ایشیا)
کامران اعظم سوہدروی ادیب و مورخ
مشرف جنجوعہ کبڈی پلیر
آصف نواز جنجوعہ سابقہ سربراہ پاک آرمی
سعد جنجوعہ کرکٹ کھلاڑی
تہمینہ جنجوعہ سیکرٹری خارجہ
ناصر جنجوعہ مشیر قومی سلامتی
عامر خان (مکے باز) پاکستانی نژاد برطانوی شہری
سوار محمد حسین نشان حیدر
سیف علی خان اولین ہلال کشمیر
ن م راشد اردو شاعر
امیر
گلستان جنجوعہ سابقہ گورنر کے پی کے
کینیڈا کیلئے پاکستان کے نئے ہائی کمشنر ظہیر اسلم جنجوعہ نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں
Fri, 20 May 2022
کینیڈا کیلئے پاکستان کے نئے ہائی کمشنر ظہیر اسلم جنجوعہ نے اپنی سفارتی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ پاکستان ہائی کمیشن اٹاوا کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق نئے ہائی کمشنر نے اپنی سفارتی ذمہ داریاں باقاعدہ طور پر سنبھال لی ہیں۔
ظہیر اسلم جنجوعہ کینیڈا میں سفارتی ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل برسلز میں یورپین یونین، بیلجیئم اور لکسمبرگ کیلئے پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ ظہیر اسلم جنجوعہ اس سے قبل وزارت خارجہ میں ایڈیشنل سیکرٹری برائے یورپ کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام چکے ہیں۔
بیرون ملک سفارتی ذمہ داریوں کے طور پر وہ رشین فیڈریشن اور ریپبلک آف بیلاروس میں بھی پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ اٹاوا میں اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ظہیر اسلم جنجوعہ نے پاکستان اور کینیڈا کے درمیان باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ نئے سفیر نے کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں اور پاکستان نژاد کینیڈینز کی خدمت کو اپنا مشن قرار دیا ہے۔
"جنجوعہ" سنسکرت زبان کا لفظ هے جس کے معنی بہادر، دلیر، اور لڑاکا کے ہیں-
"جنجوعہ راجپوت" اپنے مورث اعلی "راجہ جنجوعہ دیو پال" کی نسبت سے "جنجوعہ" کہلاتے ہیں -
"راجہ جنجوعہ دیو پال" ہندوستان کی قدیم ریاست "ہستناپور" کا آخری تاجدار تها- بہادری اور دلیری میں بے مثال ہونے کی وجہ سے انہیں "جنجوعہ" کہا گیا-
ان کا تعلق راجپوتوں کے "چندربنسی" قبیلے سے تھا-
راجہ جنجوعہ دیو پال کی ساتویں پشت سے "راجہ سری پت دیو پال" پیدا ہوئے -
راجہ سری پت دیو پال کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے
"راجہ مجپال دیو پال" "راجہ مل دیو پال"
بیٹوں کی پیدائش سے قبل نجومیوں کی پیشن گوئی تهی کہ راجہ سری پت دیو پال کے ہاں ایک بچہ پیدا ہو گا جو بعد میں مسلمان ہو جائے گا-
راجہ مجپال دیو پال ہندو مذہب پر قائم رہا -اس کی اولاد "قنوج" "جودهپور" اور "کوہ شوالک" پر آباد هے-
راجہ مل دیو پال اپنے علم یا کسی درویش کی تبلیغ سے متاثر ہو کر "اسلام" کی دولت سے مالا مال ہوئے -
راجہ مل دیو پال کی شادی اپنے ماموں والیئے "متهرا" "راجہ بشن دیو پال" کی بیٹی سے ہوئی- راجہ بشن دیو پال کی اولاد نرینہ نہ تهی- راجہ نے دستار بندی کر کے راجہ مل دیو پال کو متهرا کا بادشاہ بنا دیا-
برہمنوں نے شدید مخالفت کی اور پورے "راجہستان" میں شوروغل شروع کر دیا- وہ ہندوستانی ریاست پر ایک "مسلمان" بادشاہ کا وجود کیسے برداشت کر سکتے تھے- نتیجتاً راجہ مل دیو کو متهرا کی بادشاہت چھوڑنی پڑی-
راجہ مل دیو پال نے ہندوستان کے مرکزی علاقوں سے دور "کوہ شوالک" کی طرف کوچ کیا اور قلعہ "راجگڑهه" بنوایا برہمن کی مخالفت نے کوہ شوالک کو بھی چھوڑنے پر مجبور کر دیا-
980 ء میں راجہ مل دیو پال نے ہندوستان کے شمال مغربی پہاڑی سلسلہ "کوہستان نمک" کا رخ کیا جہاں اس سے قبل اس کے اجداد "پانڈو" رہ چکے تھے اور کوہستان نمک پر قابض ہو گئے- یہاں ایک قلعہ تعمیر کرایا اور اس کا نام "ملوٹ" رکھا جو تا حال موجود ہے- راجہ مل دیو پال کے ہاں پانچ بیٹے پیدا ہوئے-
"راجہ ویر" "راجہ جوہد" "راجہ کهکه" "راجہ ترنولی" "راجہ سلطان محمود کالا خاں"
راجہ ویر اور راجہ جوہد نے کوہستان نمک پر ہی سکونت اختیار کی- کوہستان نمک جو مشرق میں دریائے جہلم سے شروع ہوتا ہے اور مغرب میں دریائے سندھ تک چلا جاتا ہے- اس پر اور کوہستان نمک کے اردگرد کے علاقوں جہلم، چکوال، گجرات، خوشاب، سرگودها، کے علاقوں میں راجہ ویر اور راجہ جوہد کی اولاد صدیوں سے آباد ہے- کوہستان نمک پر جنجوعہ راجپوتوں کے چند مشہور قلعے-
"قلعہ ملوٹ" "قلعہ مکهیالہ" "قلعہ گرجاگ" "قلعہ کسک" "قلعہ وٹلی"
راجہ کهکه نے "کشمیر" کی طرف یلغار کی اور مظفرآباد کے علاقے پر قابض ہو گئے- "قلعہ چالاس" تعمیر کرایا.
راجہ ترنولی نے "ہزارہ" کی طرف یلغار کی اور ریاست "انمب دربند" کی بنیاد رکھی جو 84 دیہات پر مشتمل تهی-
راجہ سلطان محمود المعروف کالا خاں کشمیر پر یلغار کے ارادے سے کوہستان نمک سے اپنی فوج لے کر روانہ ہوئے-
راستے میں راولپنڈی سے مشرق کی جانب ریاست "کاہرو" کی حدود میں آرام کی غرض سے پڑاو کیا-
معلومات کرنے سے پتا چلا کہ اس ریاست کا بادشاہ ایک "چندربنسی" راجپوت ہے- اور اس کا نام "راجہ سلطان احمد مٹ" ہے- دونوں راجپوتوں کا باہم تعارف ہوا -
راجہ سلطان احمد مٹ کی اولاد نرینہ نہ تهی - صرف ایک بیٹی تهی جس کا نام "رانی کاہو" تها- رانی کاہو کے نام کی نسبت سے اس ریاست کا نام "کاہرو" تها-
"رانی کاہو" کا نکاح "راجہ سلطان محمود کالا خاں" سے ہوا - راجہ سلطان احمد مٹ نے "ریاست کاہرو" بیٹی کو جہیز میں دے دی-
"راجہ سلطان محمود المعروف کالا خاں" والیئے "کاہرو" بنے-
ریاست کاہرو کا محل وقوع اس طرح تها -
ریاست کاہرو کے مشرق کی جانب دریائے جہلم بہتا تھا مغرب کی جانب دریائے سواں اور راولپنڈی کا علاقہ تها- شمال کی طرف کہوٹہ کی پہاڑیوں کا سلسلہ تها جو مری تک چلا جاتا هے اور جنوب کی طرف پوٹھوہار کا وسیع میدان تها جو سوہاوہ کی پہاڑیوں تک چلا جاتا هے-
اس ریاست کی ملکیت 84 دیہات تھے - دارالحکومت "مٹور" تها جو راجہ سلطان احمد مٹ کے نام سے منسوب هے -
ریاست کاہرو کا دارالحکومت "مٹور" جغرافیائی اعتبار سے بلند جگہ پر ہونے اور چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گهرا ہونے کی وجہ سے یہاں قلعے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی- چاروں طرف پہاڑوں پر فوج کے لیے پوسٹیں تھیں-
راجہ سلطان محمود کالا خاں کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے-
"جس رائے" "پت رائے"
بیٹوں کے جوان ہونے پر راجہ سلطان محمود کالا خاں نے امور ریاست دونوں بیٹوں کے حوالے کر دیئے-
ریاست کا مشرقی حصہ "پت رائے" کے حوالے کیا-
مغربی حصہ "جس رائے" کے حوالے کر دیا-
خود یاد خدا میں جنگل کے اندر اونچی جگہ بسیرا کر لیا- "عالم تصوف" میں "ولایت" کے منصب پر فائز ہوئے- اسی جگہ پر اب ان کا مزار هے- اور یہ جگہ "دادا پیر کالا" کے نام سے مشہور هے-
"راجہ سلطان احمد مٹ" اور "رانی کاہو" کی قبر بھی مزار کے اندر هے- ماضی میں راجہ سلطان محمود المعروف کالا خاں کے سالانہ عرس کی تقریب با قاعدگی سے ہوتی رہی هے-
"راجہ سلطان محمود المعروف کالا خاں"، "رانی کاہو" کی اولاد بنیادی طور پر "کاہروال" کہلائی-
آگے چل کر درج ذیل قبائل میں تقسیم ہوئے-
"کاہروال" "سنگال" "کڈال" "دولال"
ریاست کاہرو کا سب سے قدیم شہر "کنڈیاری" تها جو اب صرف چند گھروں پر مشتمل هے -
کاہرو کے دیہاتوں کے نام "سنسکرت" زبان میں ہیں - ان ناموں میں ( ٹ، ڈ، ڑ،) کی کثرت هے- اردو رسم الخط میں ( ٹ، ڈ، ڑ، ) سنسکرت زبان سے لئے گئے ہیں.
علاقہ کاہرو میں جنجوعہ راجپوتوں کے چند مشہور دیہات اور قصبے-
مٹور،میرا، مواڑہ، گڑهیٹ، جنجور، گگاڑی، بملوٹ، کہوٹہ، دریوٹ، سروٹ، ٹپیالی، موڑی،ماکڑا، دکهالی، نوگراں، کلاہنہ، گاڑ، کرپال، تهلہ،کوٹ، بهورہ، سرهاٹی، کلوٹ، تهوہا، مہرہ سنگال، گف، سلجور، پنڈ بهینسو، بناہل، کهڈ، سہر، لہڑی، نارہ، پنجواڑ، کانگڑهه، گوڑہ، کروٹ، بهگون، سنبل، بگہار شریف، ممیام، بگلہ راجگان، گهوئی، سلطان خیل، کنڈیاری، پڑوٹهہ، آئل، کینتهل، آڑہ سنگال، گلور راجگان، ساعئ کوٹ، چھنی، ڈھٹ. کلریاں. بند.
تحریر: راجہ محمد سدھیر جنجوعہ
چندر ونشی اور سوریا ونشی راجپوتوں کا نسب
راجپوت بنی اسرائیل سے نہیں بنی عیص علیہ السلام ہیں۔۔۔ بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔۔۔
علی منصور ایک بنگالی ریسرچ اسکالر ھیں۔۔ علی منصور کی کتاب "ذوالقرنین اور سامی النسل آرین کا باہمی تعلق" راجپوت ہسٹری پہ ریسرچ کرنے والوں کے لئے تحقیق کے بہت اہم زاویے روشن کرتی ھے۔۔۔
میرے لئے اس میں دلچسپی کا ایک پہلو یہ بھی ھے راجپوتوں کے اولاد ذوالقرنین ہونے اور سامی النسل ھونے کہ حوالے سے راقم راجہ محمد سدھیر جنجوعہ۔۔ جناب علی منصور بنگالی سے بہت پہلے تاریخی حقائق تک رسائی حاصل کر چکا تھا۔۔۔ اگرچہ اس تحقیق میں علی منصور سے چند قدم آگے چل رہا ہوں پھر بھی اپنی تحقیق کے اثبات پہ تیقن میں استحکام آیا۔۔۔ علی منصور کا کام 'ورک ان پراگریس' ھے۔۔۔
"تواریخ حافظ رحمت خانی" کے اصل ایڈیشن کے صفحہ 57 پہ راجپوتوں کو حضرت عیص بن حضرت اسحاق بن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے دکھایا گیا ھے۔۔۔ اس کتاب کے نئے ایڈیشن سے اس پیج میں تحریف کر دی گئی ہے اور پرانا ایڈیشن اب انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں ہے۔۔۔ لیکن میرے پاس اصل پیج کا سکرین شاٹ موجود ہے۔۔۔
قرآن مجید میں جس ذوالقرنین کا ذکر ھے۔۔ وہ سائرس(کوروش) ہر گز نہیں۔۔ سکندر مقدونی یا سائرس ذوالقرنین نہیں ہیں۔۔۔ بک آف ازیکائیل (ذو الکفل علیہ السلام کا صحیفہ 600 BC) میں آیت موجود ھے کہ ان سے پہلے یاجوج ماجوج کو دیوار کے پیچھے قید کر دیا گیا تھا۔۔۔ حضرت ذو الکفل سائرس اعظم سے پہلے ہیں۔۔۔ سائرس مسلم نہیں تھا۔۔۔ اگرچہ سائرس خود آرین تھا۔۔۔ کوروش اعظم (سائرس) کو ٹائن بی نے کوروں کی ایک شاخ قرار دیا۔۔۔ طبری میں ھے کہ ذوالقرنین نے حضرت ابرہیم علیہ السلام کے ساتھ حج کیا تھا۔۔۔ ذوالقرنین حضرت ابرہیم علیہ السلام کی پانچویں پشت (پوتے کا پوتا) میں تھے۔۔۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام نے آخری حج ذوالقرنین کے ساتھ کیا تھا۔۔۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی عمر مبارک تقریباً 182 سال تھی۔۔۔
آپ کا شجرہ درج ذیل ہے۔۔۔ ذوالقرنین بن فیلقوس بن روم بن عیص علیہ السلام بن اسحاق علیہ السلام بن ابراہیم۔۔۔ اور یہی راجپوت آرین کا ابتدائی شجرہ ھے۔۔۔ طبری 902 عیسوی کی کتاب ہے یعنی آج سے 1118 سال قدیم۔۔۔
آرین نے مردوں کو جلانا تب شروع کیا تھا جب ان کے مذہب میں تغیر واقع ہوا تھا۔۔۔ یہ تغیر پہلی بار ذوالقرنین کی چوتھی پشت میں اور دوسری بار جنگ مہا بھارت (836 BC) کے دور سے آٹھ پشت بعد ہوا تھا۔۔۔ مہا بھارت سے سات پشت تک سب موحد تھے۔۔۔
ذوالقرنین کے حوالے سے پبلش ھونے والی ہر میسر تحریر مجھے پڑھنے کا موقعہ ملا۔۔۔ یہاں صرف سائرس اعظم اور ذوالقرنین کے حوالے سے چند اہم نکات پر بات کروں گا۔۔
1- سائرس اعظم کا دور 530-600 قبل مسیح ھے۔۔
جبکہ
ذوالکفل نبی (Ezekiel) کا دور 570-622 قبل مسیح ھے۔۔
ان دونوں میں تیس سال کا اوورلیپ ھے۔۔ یعنی جب سائرس تیس سال کا تھا تو ذوالکفل نبی کا انتقال ھو گیا۔۔
سائرس نے ذوالکفل نبی کے دور نبوت کے صرف بارہ سال پاۓ۔۔۔
سب سے اہم بات یہ ھے کہ Book of Ezekiel میں واضح طور پر لکھا کہ (اور کتاب ذوالکفل کا یہ باب تحریف شدہ بھی نہیں ھیں۔۔۔ اس پہ الگ سے مدلل بحث موجود ھے) ذوالکفل نبی نے فرمایا کہ ان کی پیدائش سے کئی صدیاں پہلے یاجوج ماجوج کے فتنے کا سدباب ھو چکا اور ان کو پس دیوار قید کر دیا گیا ھے۔۔۔
اب سائرس اعظم کو ذوالقرنین قرار دینا ناممکن ھے۔۔ قران مجید کے مطابق ذوالقرنین تو وہ ھیں جنہوں نے یاجوج ماجوج کو دیوار کے پیچھے قید کیا۔۔ اور ذوالکفل نبی کے فرمان کے مطابق ذوالقرنین سائرس اعظم سے کئی صدیاں قبل ھو گزرے۔۔
2- آرنلڈ جے ٹائن بی نے سائرس کو (kuru dynasty) سے ضرور قرار دیا۔۔ یہ بہت تفصیل طلب بات ھے۔۔ سادہ لفظوں میں ھم کہہ سکتے ھیں کہ راجپوتوں کی طرح سائرس خود بھی وارثان ذوالقرنین میں سے ایک ھے۔۔ اس پہ بہت سے تاریخی شواہد موجود ھیں۔۔
(ارجن نے ڈرون اچاریہ کے رچانے چکر وویو کو توڑا تھا۔۔ یہ چکر وویو سب سے پہلے ذوالقرنین نے ہی متعارف کرایا تھا۔۔ ذوالقرنین کے چکر وویو کے آثار اور ذوالقرنین کا مزار اب بھی قائم ھیں۔۔ )
3- امام بخاری رحمۃ اللّٰہ اور دیگر بہت سے اس پایہ کے لوگوں نے ذوالقرنین کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کا انسان قرار دیا۔۔ کچھ لوگوں نے محض اس لیے اس بات کو رد کیا کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعات میں ذوالقرنین کا ذکر نہیں ملتا تو اس بات کا جواب یہ ھے کہ جب ذوالقرنین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ فریضہ حج ادا کیا۔۔ نہ تو اس وقت ان کو بادشاہی عطا ھوئی تھی اور نہ یہ یاجوج ماجوج کا واقعہ پیش آیا تھا۔۔ یہ سب دور ابراہیمی کے بعد کے واقعات ھیں۔۔۔
واضح رہے کہ جن علماء نے حضرت ذوالقرنین کو یافث بن نوح کی اولاد قرار دیا انھوں نے ایک دوسرے شخص مرزبان بن مرزبہ کو ذوالقرنین قرار دے کر اسے یافث بن نوح علیہ السلام کی اولاد لکھا ہے۔۔۔ جن علماء نے اس موقف کو رد کیا اور ذوالقرنین کو سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد سے لکھا ان میں ابن اسحاق، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، امام شیرازی، الالقاب، ابو الشیخ، وہب بن منبہ، امام بغوی، قاضی مظہری شامل ہیں۔۔۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امام ازرقی اور حافظ ابن کثیر نے ذوالقرنین اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملاقات کا زکر کیا۔۔۔ ذوالقرنین حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پانچویں پشت میں ہیں۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر مبارک 182 سال کے لگ بھگ تھی۔۔۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تو ذوالقرنین کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کا انسان قرار دیں اور کتب بنی اسرائیلیات کا حوالہ دے بخاری شریف کی تشریح میں کتاب احادیث انبیاء کے باب میں مصنف موصوف ذوالقرنین کو یافث بن نوح کی اولاد قرار دیں۔۔۔
4- ربانی (صفحہ 39) نے بھی دیگر حوالہ جات کے پیش کرتے ھوۓ ذوالقرنین کا شجرہ لکھا جو کہ ہو بہو وہی ھے جو راجپوتوں کا قدیمی تاریخی شجرہ ھے۔۔ اس میں مزید لکھا ھے کہ حضرت ذوالقرنین۔۔ حضرت عیص بن حضرت اسحاق بن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔۔
1-راجپوت سام بن نوح علیہ السلام کی نسل سے ھیں۔۔ اس پہ بے شمار مستند قدیمی تاریخی حوالہ جات موجود ھیں۔۔
مراثیوں کے لکھے خود ساختہ شجروں میں راجپوتوں کو حام بن نوح کی نسل سے لکھا گیا ھے۔۔ جو کہ سراسر غلط ھے۔۔۔
2- سام بن نوح علیہ السلام کی نویں پشت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ھیں۔۔
راجپوت حضرت ذوالقرنین بن فیلقوس بن حضرت عیص بن حضرت اسحاق بن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ھیں۔۔۔
(حوالہ جات: ابن اسحاق، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، امام شیرازی، الالقاب، ابو الشیخ، وہب بن منبہ، امام بغوی، قاضی مظہری )
حضرت ذوالقرنین کی نویں پشت میں نوچہتر ھے۔۔۔ جو تمام راجپوتوں کا مورث اعلیٰ/جد امجد ھے۔۔۔ نوچہتر چندر بنسی اور سورج بنسی راجپوتوں کا پروجینیٹر ھے۔۔۔ یہی لوگ بعد میں آرین (عالی نسب) شتریہ (جنگجو) کہلاۓ۔۔۔ اردو میں لکھنے والے اکثر شتریہ کو چھتری، اکھشتری، اکشتری یا کشتری تحریر کر دیتے ھیں۔۔۔
آدم، شیث، مہلائیل، ادریس اور نوح یہ سب انبیا و رسل تو موجود ساری انسانیت کے مشترکہ اور متفقہ پروجینیٹر ہیں۔۔۔ کیونکہ نوح آدم ثانی ہیں۔۔۔ جہاں تک آدم علیہ السلام تک شجرے کی بات ھے تو اگر یہ بالفرض محال ھے تو یقیناً اس میں جو بھی احتمالات ہیں وہ ساری انسانیت (ہر قوم بشمول سادات) کے لئے مشترکات ہیں۔۔۔ تالیف قلب کے لئے مختصر عرض ھے کہ ایک مرتبہ امام شافعی علیہ الرحمہ نے ایک کتاب تحریر کی۔۔۔ کتاب کی تکمیل کے بعد اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ وہ یہ کتاب امام صاحب کو پڑھ کے سناۓ۔۔۔ شاگرد کتاب پڑھ کے سناتا گیا اور امام صاحب ساتھ ساتھ غلطیوں کی اصلاح کراتے گئے۔۔۔ جب شاگرد نے ساری کتاب پڑھ کے سنا دی اور سب غلطیوں کی اصلاح ہو گئی تو امام صاحب نے ایک مرتبہ پھر کتاب سنانے کی فرمائش کی۔۔۔ شاگرد نے ایک مرتبہ پھر کتاب پڑھ کے سنائی اور امام صاحب ساتھ ساتھ اغلاط کی درستگی کراتے گئے۔۔۔ حتی کہ امام شافعی علیہ الرحمہ نے 80 دفعہ اس کتاب کی سماعت کی اور اغلاط کی تصحیح کی۔۔۔ پھر آپ نے کتاب کی کتابت کا حکم دیا تو شاگرد نے امام صاحب سے پوچھا کہ کیا تمام اغلاط کی تصحیح ہو گئی۔۔۔ امام صاحب نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں ھے۔۔۔ البتہ میں اس کتاب میں مزید اغلاط تلاش نہیں کر پایا۔۔۔ قرآن مجید فرقان حمید کا یہ امتیاز ھے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے الہامی کتاب ہونے کی دلیل یہ دی کہ یہ "لاریب" ھے۔۔۔ لاریب کا شرف کتب میں صرف قرآن کریم کو ہی حاصل ھے۔۔۔ بہت سے صحابہ کرام اور فقہاء نے سکندر ذوالقرنین کو دور ابرہیم علیہ السلام کا انسان قرار دیا۔۔۔ ذوالقرنین کے نام سکندر کو بہت سے دیگر بادشاہوں نے اختیار کیا۔۔۔ خواہ وہ سکندر مقدونی ہو، سکندر لودھی ہو، یا خلجی یا کوئی اور۔۔۔ ذوالقرنین کی یاد میں انھیں کے بساۓ شہروں کو بھی ان لوگوں نے بسایا۔۔۔ مثلآ سکندر مقدونی نے اسکندریہ کو آباد گیا۔۔۔ اسکندریہ کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے مطابق یہ شہر پہلی بار 1800 قبل مسیح میں ہی آباد ہوا۔۔۔ اسی طرح سد سکندری کی یاد میں اولاد یافث نے دیواریں بھی بنائی۔۔۔ باقی میں نہ مانوں کی ضد کا کوئی علاج تو نہیں۔۔۔۔ ساری دنیا آدم کی اولاد ھے اور ہند کے کچھ احباب اپنی شجروں کی کتابوں میں آدم اور نوح کا نام لکھنے کے لئے ثبوت ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔ یورپ نے ہٹلر کی قوم پرستی کے خلاف خوب اینٹی آرین پروپیگنڈہ گیا اور آریاؤں کو متھ ثابت کرنے کے لئے بہت زور لگایا۔۔۔ ستم ظریفی یہ کہ ہٹلر نے مطلب کے لئے گدھے کو باپ بنانے سے گریز نہیں کیا اور جاپانیوں کو آنریری آریئنز کا خطاب دے دیا۔۔۔ ہمارے کچھ لوگ اس پروپیگنڈہ میں بہہ گئے۔۔۔ پھر زور لگایا گیا کہ راجپوت کوئی قوم نہیں۔۔۔ پرش اپنشید 1000 قبل مسیح کی دستاویز ھے جس میں راجپوت کا لفظ موجود ھے۔۔۔ آج کچھ نام نہاد رائٹرز ہمیں بتا رہے ہوتے ہیں کہ راجپوت کا لفظ ساتویں صدی یا اس کے بعد استعمال ہوا۔۔۔
آدم علیہ السلام کی اولاد "آدمی" کہلائی کیونکہ آدم مٹی سے بنے تھے۔۔۔
آدم علیہ السلام کی دسویں پشت میں حضرت نوح علیہ السلام "آدم ثانی" کہلاۓ۔۔۔
نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی اولاد سے "سامی النسل" قوموں کا ظہور ہوا۔۔۔
سام بن نوح سے حضرت نوح علیہ السلام کی دسویں پشت میں حضرت ابرہیم علیہ السلام کا ظہور ہوا۔۔۔
حضرت ذوالقرنین جناب "روم بن عیص بن اسحاق بن حضرت ابرہیم علیہ السلام" کے پوتے تھے۔۔۔
حضرت ذوالقرنین کی ساتویں پشت میں جمشید نے قبائل کو (ریاست کے چار ستونوں) شتریہ، برھمن، ویش اور شودر میں تقسیم کیا۔۔۔
جمشید آریا شتریہ کا سرتاج ھے۔۔۔ شتریہ جو آرین بمعنی سریشٹھ/شریف النسب کہلاۓ۔۔۔ جمشید نے قبائل کو شتریہ، برھمن، ویش اور شودر میں تقسیم کیا۔۔۔
بحوالہ تاریخ طبری، آثار عجم، بہار عجم از سید احمد شیرازی، حسب تحقیقات ضیاء الدین اکمل مصنف قدیم تاریخ، وقائع راجپوتانہ وغیرھم
جمشید کی تیسری پشت میں نوچہتر راجپوتوں کا مورث اعلیٰ ہے۔۔۔ نوچہتر کے بیٹے راج سے راج ونش کا آغاز ہوا۔۔۔ یوں جمشید کی چھٹی پشت میں آرین شتریہ۔۔ راجپوت کہلاۓ اور دو بڑے جدی گروہوں میں تقسیم ہوۓ۔۔۔ راج کے بیٹے راجہ چندر/سوم کی اولاد جدی مناسبت سے چندر ونش/سوم ونش کہلائی اور راجہ سوریا کی اولاد سوریا ونش کہلائی۔۔۔ پھر یہ دونوں گروہ مزید دو دو شاخوں میں تقسیم ہوۓ۔۔۔ واضح رہے کہ ونش سے مراد نسبی اولاد ہے جنھیں ونشج بولا جاتا ہے۔۔۔ جو احباب ونش کا معنی عبادت و پوجا کرنے والے کرتے ہیں انھیں رجوع کرنا چاہیے۔۔۔ تاریخ نویسی حقائق کھوجنے کا عمل ہے نا کہ مکھی پر مکھی مارتے چلے جانے کا۔۔۔
ہندو میتھالوجی یا اسطورے میں پہلی چندر ونش ڈائینسٹی پرو ونش اور دوسرے یادو ونش کہلائی۔۔۔
پہلی چندر ونش ڈائینسٹی میں راجہ بھرت کی اولاد بھرت ونش کہلائی۔۔۔
بھرت ونشیوں میں راجہ پانڈو کی اولاد پانڈو ونش کہلائی۔۔۔
راجہ ارجن بن راجہ پانڈو کی تیس پشتوں نے ہندوستان پہ راج کیا۔۔۔
راجہ کہمین پال کی پانچویں پشت میں راجہ پرشوتم پال کا دور حکومت 570 عیسوی ھے۔۔۔
راجہ پرشوتم پال کی تیرھویں پشت میں راجہ جنجوعہ بن راجہ دلیپ چند (930 عیسوی) آتا ھے۔۔۔
راجہ جنجوعہ (چندر ونشی، بھرت ونشی، پانڈو ونشی) کی اولاد جنجوعہ راجپوت کہلائی۔۔۔ راجہ جنجوعہ کی نویں پشت میں مسلم جنجوعہ راجپوتوں کے جد امجد راجہ مل رحمتہ اللہ علیہ آتے ہیں۔۔۔ راجہ مل رحمتہ اللہ علیہ سے آج تک اوسطاً 28 پشتیں ہیں۔۔۔
راجہ مل رحمتہ اللہ علیہ کی دونوں رانیاں راجپوت تھی۔۔۔ راجہ جوہد اور راجہ ویر کی والدہ ہندو راجپوت رانی تھی۔۔۔ جنھیں بعد میں اسلام کی سعادت حاصل ہوئی۔۔۔ راجہ جوہد کی راجپوت والدہ کے حسب نسب کی مکمل تفصیلات قارئین میری کتاب میں ملاحظہ فرمائیں گے۔۔۔
جنجوعہ چندر ونشی راجپوت (First Lunar Dynasty) ہیں۔۔۔ ہستینا پور کے راجاؤں کو راٹھ (Rath of Histinapur) کہا جاتا تھا۔۔۔ سو کچھ لکھاریوں نے جنجوعہ کو (غلط العام میں) راٹھور تحریر کر دیا۔۔۔ جو کے قطعی طور پر غلط ھے۔۔۔ راٹھور سوریا ونشی راجپوت ہیں۔۔۔ جب کہ جنجوعہ چندر ونشی راجپوت ہیں۔۔۔
شجرہ مکھیالہ ہی جنجوعہ راجپوت قوم کا اصل شجرہ ھے جس کی تصدیق کم و بیش چودہ مستند قدیمی تاریخی ماخذات سے ہوتی ھے۔۔۔
شجرہ مشائخ سادات اور جنجوعہ راجپوت شجرہ میں آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک پشتوں کی تعداد بالکل برابر ھے۔۔۔ مشائخ سادات کے شجرے تمام شجروں کا گولڈ اسٹینڈرڈ ہیں۔۔۔ اس موضوع پہ راقم راجہ محمد سدھیر جنجوعہ کی بہت سی تفصیلی تحاریر موجود ہیں۔۔۔ شجرہ مکھیالہ کی سلاطین مکھیالہ سے مصدقہ صرف چار دستاویزات موجود ہیں۔۔۔ جن میں سے دو مکھیالہ میں، ایک جناب راجہ مشتاق احمد جنجوعہ صاحب کے پاس اور تیسری راقم راجہ محمد سدھیر جنجوعہ کے خاندان کے پاس گزشتہ 95 سال سے موجود ھے۔۔۔ شجرہ قلعہ مکھیالہ کی اصل قدیمی دستاویز ایک ہزار ایک سو بارہ سال قدیم موجود ہے۔۔۔ (جاری ہے)
جنرل شاہ نواز خان جنجوعہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
6-بھٹی راجپوت
بھٹی لفظ پنجابی زبان و لہجہ میں ہے اسکا اصل نام راجھستانی (راجپوتانہ) لہجہ و سنسکرت لفظ بھاٹی ہے جو ایک مشہور ہندو راجہ بھاٹی راۓ کے نام سے منسوب ہے ۔ اسی راجہ بھاٹی راۓ کےنام سے بھٹی(بھاٹی)قبیلہ وجود میں آیا۔بھٹی راجپوتوں کی سب سے بڑی شاخ اورقدیم قبیلہ ہے۔بھٹی راجپوت یادوونشی (Yaduvanshi)اور چندرونشی سے مشہورہیں۔بھٹی راجپوت کرشن جی کی اولاد مانے جاتے ہیں۔اس قبیلہ کے مشہور ہندو راجاٶں میں راجہ کرشن جی مہاراج,راجہ باہوبلی , راجہ گج سنگھ,راجہ سالباہن,راجہ بلند,راجہ رسالو,راجہ بھاٹی راۓ, راجہ بھونی سنگھ المعروف بجےراۓ ,راول جیسل سنگھ والئی ریاست جیسلمیر ,رانا کپور سنگھ بانئ ریاست کپورتھلہ مشہور ہیں اور مسلمانوں میں راۓ اچت سنگھ جو کہ بہاٶالدین ذکریا ملتانی کےپڑپوتے کےہاتھ پر مسلمان ہوۓ اور نام راۓ اللہ دتہ خاں بھٹیؒ رکھا گیا,راۓ بھوۓ خاں بھٹی بانئ بھوۓ دی تلونڈی اٹھارہ سو مربع جاگیر موجودہ ننکانہ صاحب وگردونواح , راۓ بلار خاں بھٹی ؒ (بابا گرونانک کو ساڑھے سات سو مربع زمین وقف کی )ننکانہ صاحب , راۓ محبوب خاں بھٹی ؒ المعروف بوبے خاں ننکانوی و کپورتھلوی,راۓ عبدللہ خاں بھٹی المعروف دُلا بھٹی شہیدؒ پنڈی بھٹیاں,مشرقی پنجاب کے عظیم صوفی بزرگ حضرت بابا شاہ کمال الدین خاں ؒ والی ء حمیرا جاگیر کپورتھلہ ,بابا بڈھے خاںؒ بانی بڈھا تھیہہ جاگیر کپورتھلہ قابل ذکرہیں۔راجپوت بھٹیوں کی مشہور ریاست و قلعہ بھٹنیر راجھستان تھا جس کو1398ءمیں امیر تیمور کے حملوں نے مسخ کیا جس سے بھٹی راجپوت بھٹنیر چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں بکھر گۓ۔ایک زمانے میں راجپوت بھٹی ہستناپور سے لے کر کاشغر تک حکمران رہے ہیں جس کو بھٹسر سے یاد کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں غزنی، جسکا پرانا نام گجنی تھا اسی قبیلے کے ایک راجہ گج سنگھ کے نام پر ہے۔۔ راجپوت بھٹیوں کی گوتوں میں بارہ پال قابل زکر ہیں جن میں گورپال بھٹی,مین پال بھٹی,لکھن پال بھٹی,سانس پال بھٹی,ہرپال بھٹی وغیرہ مشہورہیں۔[1]
_____________________________________________
لفظ بھٹی کوئی خطاب نہیں ہے اور نہ ہی یہ آگ کی بھٹی سے ماخوذ ہے بلکہ راجہ بھٹی 250 عیسوی کا راجہ ہے جو کہ راجہ بل بند کا بیٹا اور راجہ سالباھن (بانی سیالکوٹ) کا پوتا ہے۔راجہ بھٹی نے تقریباً 16 سال حکومت کی اسکے بعد اسکا بیٹا راجہ بھوپت تخت پر بیٹھا اور بھٹنیر کا قلعہ تعمیر کروایا جو کہ ہندوستان کے پرانے قلعوں میں سے ایک ہے اور 1800 سال سے اس راجہ کی اولاد بھٹی کہلاتی ہے۔
دوسرا آپ نے قلعہ دراوڑ کے راجہ ججہ کی بات کی وہ بھٹی راجپوت نہیں تھا بلکہ بھٹہ راجپوت تھا اور یہ راجہ راول دیوراج بھٹی کا ماموں تھا قلعہ دراوڑ کی جگہ راجہ ججہ بھٹہ نے دی اور جب وہاں پر راول دیوراج قلعہ تعمیر کر رہا تھا تو راجہ ججہ بھٹہ نے قلعہ کی تعمیر رکوا دی جو بعد میں راجہ کی بہن کی مداخلت پر دوبارہ شروع ہوئی۔
تیسرا آپ نے بھاٹی گیٹ لاہور کی بات کی جب داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے لاہور کے بھٹی راجپوتوں کو کلمہ پڑھایا تو بھٹی راجپوتوں نے اس دروازے کا نام تبدیل کرنا چاہا تو داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے بھاٹی دروازے کا نام تبدیل کرنے سے منع کر دیا اور آپ نے کہا کہ اس دروازے کا یہی نام ٹھیک ہے بھٹی قوم کا اس دروازے پر سب سے زیادہ حق ہے۔
تحریر:
راجہ وقاص بھٹی
راجپوت بھٹیوں کی چند ذیلی شاخیں
01 بھٹی:
راجہ چلند کے بڑے بیٹے کا نام "راجہ بھاٹی" تھا. اپنے باپ کے بعد راجہ بھاٹی تخت نشین ہوا. وہ مشہور زمانہ نامور جنگجو اور بڑا بہادر تھا.
اسی کے نام سے اس کی اولاد "بھٹی راجپوت"
کے نام سے مشہور ہوئی.
جب اس قبیلے کے افراد مسلمان ہوئے تو انہوں نے اپنی شناخت اور اسلامی پہچان کے لئے "بھاٹی" کی بجائے "بھٹی" کہلانا شروع کر دیا.
ایک تحقیق کے مطابق لاہور شہر بھی بھٹی راجپوتوں نے آباد کیا.
بھاٹی قوم کے نام پر لاہور کا "بھاٹی گیٹ" جو کہ قدیم لاہور میں داخل ہونے کے لئے مین دروازہ تھا بھٹی راجپوت قوم کے نام پر "بھاٹی گیٹ" کے نام سے مشہور ہوا.
ان بھٹی راجپوتوں نے حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا.
راجہ بھاٹی سے پہلے یہ قوم جادو بنسی /یادو بنسی کے نام سے مشہور ہوئی اور بائیس پشت تک جادو بنسی /یادو بنسی کے نام سے پکاری جاتی رہی. مگر راجہ بھٹی کے بعد یہ قوم بھاٹی راجپوت (ہندو) اور بھٹی راجپوت (مسلمان) کے نام سے مشہور ہوئی.
یہی راجہ بھٹی، بھٹی راجپوت قوم کا جد امجد ہے
جس نے اپنے اردگرد کے راجاؤں کو شکست دے کر ایک مضبوط حکومت قائم کی.
پنجاب اور افغانستان پر بھی بھٹی راجپوتوں نے کافی عرصہ حکومت کی.
جس کی وجہ سے بھٹی قبیلہ کے نام سے اس خطہ کا نام بھٹ سر تھا.
جب یہ خطہ سکڑ کر پانچ دریاؤں تک محدود ہو گیا تو یہ پنجاب کہلانے لگا.
جادو خاندان نے تین ہزار سال تک حکمرانی کی ہے.
جادو خاندان نے 32 راجپوت قوموں کو مغلوب کیا ہے.
راجہ بلند کی شادی راجہ جے پور (والی دہلی) کی بیٹی سے ہوئی اور راجہ نیل اوتار پنو راجہ بھٹی کا نانا تھا.
اس طرح پنجاب اور افغانستان پر راجہ بھٹی کی حکومت تھی اور دہلی پر راجہ بھٹی کے نانا کی حکومت تھی.
کرنل جیمس ٹاڈ کے مطابق :
'راجہ بھٹی نے اپنے باپ کے بعد تخت نشین ہو کر 14 راجوں کو شکست دی ان کا مال خزانہ میں شامل کیا جو کہ
20000 ہزار خچر
60000 ہزار سوار اور بے شمار پیادہ فوج پر مشتمل تھا.
جب راجہ بھٹی تخت نشین ہوا تو اس نے اپنی فوج سے لاہور پر حملہ کیا.
راجہ گنگ پور "بیربھان بکھیل" قتل ہوا راجہ بھٹی کو فتح حاصل ہوئی اور راجہ بھٹی کا لاہور پر قبضہ ہو گیا. "
راجہ بھٹی اس کا بیٹا" راجہ منگل راؤ " تخت نشین ہوا جس پر غزنی کی طرف سے حملہ ہوا اور زبردست لڑائی ہوئی منگل راؤ کو شکست ہوئی لیکن منگل راؤ کا بھائی میسور راو راجہ کے خاندان کو لے کر" لاگھی جنگل "میں پہنچ گیا. یہ جنگل دریائے ستلج (جنوب) کے کنارے ایک نیم آباد جنگل تھا.
دریائے گھنگھر سے متصل گھنے درخت اور کانٹے دار جھاڑیاں تھیں جن میں بے شمار خونخوار درندے تھے. باقی علاقہ ایک سطحی میدان تھا. اس وقت وہاں گھاس اور جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ تھا، جگہ جگہ ریت کے اونچے اونچے ٹیلے تھے یہ علاقہ
" لاکھی پالکھی جنگل "کے نام سے مشہور ہوا.
اس وقت اس جنگل میں بھٹہ، جنا، بگاھا، لنگاھا، سولنگھی، سوڑھا، پنوار خاندان کے کھشتری آباد تھے.
جب ان کو راجہ منگل راؤ کے متعلق اصل صورت حال کا پتہ چلا تو انہوں نے ان کی بڑی عزت کی.
راجہ منگل راؤ کے بیٹے مغلم راؤ کو راجہ بنایا جس کی شادی امر کوٹ کے سوڈھوں کے ہاں ہوئی.
ان کی اولاد میں سے راجہ کہیر نے 731ء میں تنوٹ بسایا. دیوراج نے 932ء میں دیوگر بسایا اور راول کا لقب اختیار کیا.
راجہ جیسل نے 1156ء میں جیسلمیر بسایا. یہی لکھی یا لاکھی جنگل بعد میں" بھٹیانہ" کے نام سے مشہور ہوا. کیونکہ اسے بھٹی راجپوت قبیلے نے آباد کیا تھا اس میں سرسہ اور حصار شامل تھے.
بھٹیانہ اب حدود پٹیالہ میں ہے.
"بھٹی راجپوت قوم کے آباؤاجداد میں راجہ چندر عرف سوم، سری کرشن مہاراج، راجہ سالباہن، راجہ بلند، راجہ بھٹی، راجہ جیسل، راجہ دوسل، رائے میر، راجہ ساندل، راجہ فرید خان اور دلّا بھٹی جیسی نامور شخصیات گزری ہیں
بھٹیوں کو سری کرشن جی
کی اولاد مانا جاتا ہے بھٹیوں کا مکمل شجرہ سری کرشن جی سے بھی اوپر ١٩ ویں پشت سے شروع ہوتا ہے پھر سری کرشن جی سے لے کر راجہ امیر پرکاش سابقہ والئ سرمورناھن تک موجود ہے جو ان کی سرموریہ شاخ کہلاتی ہے سری کرشن جی گیارہویں پشت میں مہاراجہ سالباہن اول ہوا ہے جس نے جیسلمیر کی ریاست قائم کی بھٹیانہ کا علاقہ بھٹی کے نام سے موسوم ہے جہاں سے یہ قوم سارے پاکستان اور کشمیر میں پھیلی ہوئی ہے اس طرح ہندوستان کے چندر بنسی خاندان سے تعلق ہے یہ لوگ راجپوتانہ سے پنجاب کی طرف آئے تھے ان کا شمار راجپوتوں کے شاہی خاندانوں میں ہوتا ہے جادو بنسی خاندان کے افراد بھٹی راجپوت کہلاتے ہیں. چندر بنسی اور کرشنا کی اولاد ہیں. ان کو بہت عرصہ قبل دریائے سندھ سے پار جانے پر مجبور کر دیا انہوں نے آٹھ سو سال قبل جوہیئہ اور لنگاہ اقوام کو سرنگوں کر کے ستلج کے گردونواح پر قبضہ کر لیا تھا انہوں نے جیسلمیر کی بنیاد رکھی بیکانیر کے راٹھور راجپوت ان کے حریف تھے کچھ عرصہ تک سرسہ اور حصار تک ان کا عروج رہا ان کے نام پر ایک علاقہ آج تک بھٹیانہ کہلاتا ہے.
جب بھٹی راجپوت اپنے رہنما "بھٹی" کی سرکردگی میں دریائے سندھ سے پار چلے گئے اور وہاں سکونت پذیر ہو گئے
بھٹی کے دو بیٹے دوسل اور جیسل تھے
دوسل نے بھٹیانہ اور
جیسل نے جیسلمیر آباد کیا دوسل سے سدھو اور برڑ جٹ خاندان شروع ہوئے جبکہ ان کا پوتا راجپال وٹو خاندان کا جد امجد تھا
بھٹی راجپوت کوہستان نمک اور کشمیر میں مقیم تھے ان کا دارالحکومت گجنی پور (غزنی پور راولپنڈی) تھا دوسری صدی عیسوی سے قبل انڈوسیتھین قبیلے نے بھٹی راجپوتوں کو علاقہ جہلم سے نکل جانے پر مجبور کر دیا اور بھٹی راجپوت دریائے جہلم سے پار چلے گئے ان کے رہنما اور سردار راجا رسالو نے سیالکوٹ کی بنیاد رکھی مگر انڈوسیتھین حملہ آوروں نے ان کا تعاقب یہاں تک کیا اور انہوں اس علاقہ سے دریائے ستلج سے پار دھکیل دیا تاہم بھٹی راجپوتوں کا کشمیر پر اقتدار 1839ء تک برقرار رہا.
کشمیر میں ایک قوم بھٹ یا بھاٹ بھی ہے جو بھٹی راجپوتوں سے مختلف ہے
ساہیوال کے بھٹی وٹو اپنا سلسلہ راجہ رسالو کے والد راجہ سلواہن سے ظاہر کرتے ہیں. ملتان کے نون بھٹی بھی اپنا تعلق دہلی سے ظاہر کرتے ہیں.
روھتاس میں بھی بھٹی راجپوتوں کی قوم بکثرت آباد ہے ضلع گوجرانوالہ میں بھی ان کی ایک تعداد موجود ہے وزیر آباد کے نزدیک بھی بھٹی موجود ہیں ضلع شیخوپورہ میں اعوان بھٹیاں، ضلع حافظ آباد میں پنڈی بھٹیاں مشہور علاقے ہیں.
بھٹی تقریباً سارے پاکستان میں موجود ہیں. مگر راولپنڈی، گوجرانوالہ، گجرات، لاہور، ننکانہ اور ملتان میں بھٹی راجپوتوں کی اکثریت ہے
جادو بنسی/یادو بنسی گوت سے تعلق رکھتے ہیں
ان بھٹی راجپوتوں کا اعزازی لقب رائے، راجا اور رانا ہے............
02 بنگیال:
بھٹی کی شاخ ہے.
03 بھورچہ:
سورج بنسی بھٹی ہیں.
04 پروے:
بھٹی راجپوت ہیں.
05 توڑ:
راجپوت بھٹی، مورث ان کا توڑ تھا.
06 دھمال:
راجپوت بھٹی ہیں، مورث ان کا دھم ہے.
07 ڈھالے:
راجپوت بھٹی ہیں اس خاندان نے اکبر بادشاہ غازی کے حضور میں ڈھال پیش کی. اس لئے ان کا نام ڈھالے ہو گیا.
08 رندھاوہ:
بھٹی راجپوتوں کی شاخ ہے راجا رسالو کے بیٹے کا نام راجا بلند تھا. راجا بلند کے دو لڑکے راج پال اور بھاگ پال تھے راجا بھاگ پال کی اولاد میں سے راجا کرن چند تھا جس کے لڑکے کا نام ہاؤچند تھا. راجا ہاؤ کی اولاد نے اپنے دادا رن اور باپ ہاؤ کے ناموں کو ملا کر رندہاوا کہلانا شروع کر دیا.
09 سہوترہ:
راجپوت بھٹی ہیں مورث ان کا سہوترہ تھا.
10 سویہ:
راجپوت بھٹی مورث ان کا سویہ تھا.
11 سُراے:
بھٹی راجپوت ہیں مورث ان کا سُرا تھا.
12 کلوال:
راجپوت بھٹی ہیں.
13 کھیر :
راجپوت بھٹی ہیں مورث ان کا کھیر تھا.
14 کورڑا:
راجپوت بھٹی ہیں اور سلسلہ نسب جٹ دریاہ سے ملاتے ہیں.
15 کوروٹانہ :
راجپوت بھٹی کی شاخ ہے.
16 گہلو :
بھٹی راجپوت ہیں لنگاہ، بھوٹہ، ڈہڑ، نایت یا نائچ، سچراے ان کے بھائی بند ہیں.
17 گدہو :
راجپوت بھٹی ہیں مورث ان کا گدہو تھا.
18 گجرال :
بھٹی راجپوت ہیں مورث ان کا کنو تھا اور چونکہ وہ یتیم رہ گیا تھا اور اس کی پرورش ایک گوجر خاندان میں ہوئی تھی اس لئے گوجرال کے نام سے مشہور ہوا.
19 لدر :
راجپوت بھٹی مسمی سنگواپسر بھٹہ کی اولاد کی اولاد سے ہیں لدر ان کا مورث تھا.
20 مہر :
راجپوت بھٹی مورث ان کا مہر تھا باپ اس کا رائے جسر اکبر بادشاہ غازی کا ملازم تھا.
21 مٹو :
جٹ دریاہ کی شاخ ہیں اور بھٹی راجپوت کہلاتے ہیں ان کے مورث کا نام مٹو تھا.
22 مہوٹہ :
بھٹی راجپوت ہیں بعض کہتے ہیں کہ ہوت قوم بلوچ کی نسل سے ہیں.
23 ملتانی :
دراصل راجپوت بھٹی ہیں چونکہ یہ قوم ملتان سے آئی تھی اس لئے ان کا نام ملتانی ہوا.
24 نجرہ :
اپنے آپ کو بھٹی راجپوت کی نسل سے بیان کرتے ہیں.
25 ہونجن :
راجپوت بھٹی ہیں مورث ان کا ہونجن تھا.
26 ہتیار :
راجپوت بھٹی ہیں ان کا بزرگ دختر کش ظالم تھا جس کی وجہ سے قوم کا نام ہتیار ہوا ہتیار کے معنی ظالم جفا کش ہیں.
27 سندرانہ بھٹی :
سندرانہ بھٹی راجپوت بھٹی کی ایک بارسوخ شاخ ہے.
28 سنگرا :
سنگرا بھی اصل میں بھٹی راجپوت ہیں ان کے جد امجد کا نام سنگرا تھا جو بھٹہ کا بیٹا تھا اس سنگرا کی اولاد اپنے جد کے نام سے مشہور ہوئی سنگرا کے ایک بیٹے کا نام لدر تھا جس سے لدر قوم ظہور پذیر ہوئی.
29 سلہامیہ :
بیکانیر کے بھٹی راجپوتوں کی شاخ ہے اس قبیلہ کے مورث کا نام اکبر سین تھا جس نے ہل چلایا تھا ان کو ہل چلانے کے باعث سلہامیہ کہا گیا ہے اس قبیلہ کو سلہامیہ اور اکہرہ دونوں کہا جاتا ہے.
30 سرموریہ :
بھٹی راجپوتوں کی شاخ ہے ریاست سرموریہ پر حکومت کرنے کے باعث سرموریہ کہلائے ریاست مذکورہ کا پایہ تخت ناھن تھا اور اس کے مورث کا نام راول سین تھا جو جیسلمیر سے ہجرت کر کے سرموریہ آیا یہاں کے حکمران خاندان جبل کو شکست دے کر اپنی حکومت قائم کر لی.
31 جو :
رانا بھونی جو کی اولاد جو بھٹی کہلاتی ہے ان کا سلسلہ سیالکوٹ کے راجا سالباہن سے ملتا ہے جو بھٹی زیادہ تر جہلم، سیالکوٹ اور گجرات میں پائے جاتے ہیں ان کا تعلق اسی شاخ سے ہے.
32 جج بھٹی :
راجا جاج چند کی اولاد جج بھٹی کہلاتی ہے راجا جاج کے مورث کا نام راجا چینی تھا جس کی پانچویں پشت پر راجا جاج تھا جاج بھٹی زیادہ تر ضلع راولپنڈی میں پائے جاتے ہیں اور سکھو کے نزدیک ان کا ججہ نامی گاؤں ہے.
33 تاونی :
بھٹیوں کی بڑی معروف گوت ہے راجا سالباہن کے پوتے ناہم کی اولاد ہونے کے باعث تاونی بھٹی کہلائے. راجا تاہن جیسلمیر سے جالندھر آیا اور اس کے لڑکے راجا انبر نے کچھ علاقہ فتح کر کے خود مختار حکومت کی بنیاد رکھی اور اپنے نام پر انبالہ کا شہر بسا کر اس کو راجدھانی کا درجہ دیا تاون یا تاونی راجپوت ہیں اور ان کا سلسلہ راجہ سلواہن سے شروع ہوتا ہے راجہ سلواہن کا پوتا راجہ تان ان کا مورث اعلیٰ ہے اور اس کی اولاد میں ایک راجا امبا بھی تھا جس نے انبالہ کی بنیاد رکھی تھی.
34 ترگڑ :
ترگڑ بھٹی الاصل راجپوت ہیں لیکن اب جٹ کہلواتے ہیں.
35 پھٹیال :
راجہ بھٹی کی اولاد ہیں راجا ہربیر کے ایک لڑکے کا نام بھٹی چند تھا جو ہجرت کر کے پہلے جالندھر اور پھر ہوشیار پور چلا گیا جہاں حکومت قائم کر لی راجا بھٹی کی اولاد میں سے کچھ لوگ گوندل پھٹیال کہلاتے ہیں.
36 بریاہ :
راجہ کرن کی اولاد میں سے ہیں
37 بھوچرہ :
ان کا تعلق سورج بنسی راجپوتوں کی گوت بھٹی سے ہے ان کے جد امجد کا نام بھورچہ تھا اور بھورچہ کی اولاد بھوچرہ کہلاتی ہے.
38 بجنیال :
راجہ گنج کی اولاد میں سے ایک راجا بجے پال تھا جس کی اولاد بجنیال بھٹی کہلاتی ہے ان کا قصبہ مندرہ کے قریب بجنیال واقع ہے.
39 رانجھا :
رانجھا بھٹیوں کی ذیلی گوتیں کھب، گدگور، اور بھوک ہیں.
40 دھاریوال یا دھلوال :
ان کا قدیم وطن دھارانگر تھا. یہ بھٹی راجپوتوں کی اہم شاخ ہے اس کی ایک ذیلی شاخ "سدھ" ہے سدھ سدو ان کے مورث اعلیٰ کا نام تھا.
41 ویرک بھٹی :
ویرک بھٹی ایک شخص دھیر کی اولاد سے ہیں جن کو یہاں آئے ١١٩ پشت گزری ہیں اور ضلع ٨٤ گاؤں پر قابضین میں سالباہن کی اولاد پر فخر کرتے ہیں ریاست کپور تھلہ اور پٹیالہ میں ان کی کثیر تعداد ہے ایک روایت کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ راجہ سری کرشن کی گیارہویں پشت میں راجہ سالباہن اول ہوتے تھے جن کے سات بیٹے تھے سب سے بڑے لڑکے کا نام راجہ بھٹی تھا اس کی گیارہویں پشت میں سے راؤ جیسل تھا جس نے ریاست جیسلمیر کی بنیاد رکھی تھی اس کے چار فرزند تھے ان میں سے ایک کا نام جیم تھا اس کی نسل سے مہاراجہ آف پٹیالہ تھا پٹیالہ، سرسہ اور حصار راجہ بھٹی کے آباد کیے ہوئے ہیں جو کہ رفتہ رفتہ کشمیر پونچھ جہلم اور راولپنڈی میں کثرت سے پائے جاتے ہیں. قبیلہ ویرک راجہ ویراک سین کی اولاد ہے راجا ویرک کے باپ کے نام دھیر سین اور دادا کا نام کبیر سین تھا ان کا اصل وطن بیکانیر تھا وہاں سے راجا ویرک گوجرانوالہ آیا اور پھر سیالکوٹ چلا گیا ورک جموال منہاس کی شاخ ہے جب کہ ویرک بھٹی ہیں ویرک اپنے آپ کو جاٹ کہتے ہیں اور رشتے بھی جاٹوں سے کرتے ہیں.
42 کھینگر :
کھینگر بھٹی راجپوت ہیں اور یہ پوٹھوہار میں زندہ شاہ مدار، کھورکہ، بھت مست، بڑی لس، ڈھیری دھمیال اور لدوالہ میں آباد ہیں.
43 پنج :
یہ بھٹی راجپوتوں کی مشہور شاخ ہے یہ لوگ گھلوبھوٹہ اور ڈیٹرا قوم کے بھائی بند ہیں یہ اچھی وضع کے لوگ ہیں شاہ پور سرگودھا میں زیادہ تر آباد ہیں.
44 وٹو :
یہ بھی بھٹی راجپوتوں کی شاخ ہے.
45 نون :
نون بھٹی راجپوتوں کی ایک مشہور گوت ہے.
46 لدھو :
یہ بھٹیوں کی گوت ہے اور یہ کلیجی شاخ سے جدا ہو کر منج بھٹیوں سے جا ملتے ہیں.
47 کلیجی :
یہ بھی بھٹی راجپوت ہیں ان کا شجرہ نسب بھٹیوں کی منج شاخ سے جدا ہو جاتا ہے.
48 گونگل :
بھٹی راجپوت ہیں راولپنڈی اور اسلام آباد میں آباد ہیں چوہدری نام کے ساتھ لکھتے ہیں.
49 منج :
جالندھر و لدھیانہ کے علاوہ ضلع راولپنڈی میں آباد ہیں منج خود کو بھٹی راجپوت اور سیالکوٹ کے راجا رسالو کے باپ راجا سلواھن کی نسل سے کہتے ہیں اور ٦٠٠ سال قبل جالندھر میں آباد ہوئے.
50 مترو :
درحقیقت مترو خاندان کے راجپوت بھٹی راجپوت قبیلے سے ہی تعلق رکھتے ہیں.
51 مڑالی بھٹی :
راؤ مڑل کی اولاد مڑالی بھٹی کہلاتی ہے.
52 نیپال :
یہ بھٹی راجپوتوں کی گوت ہے اور فیروز پور میں آباد ہیں.
53 وڑائچ :
بھٹی راجپوتوں کی شاخ ہے. قبیلہ وڑائچ چندر بنسی راجپوتوں میں شمار ہوتے ہیں اور بھٹی راجپوتوں کی شاخ مانی جاتی ہے وڑائچ اپنا شمار جاٹوں میں بھی کرتے ہیں البتہ گوجروں سے بھی رشتے ناطے کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے........
54 وہینوال بھٹی :
راجہ واہن دھج ایک بھٹی راجپوت راجہ تھا جس کے نام پر واہن گڑھ کا قلعہ ہے اس راجہ کی پچیسویں پشت میں راجہ سندر پال نامی تھا جس نے ریاست وہنی وال سے کسی وجہ سے خروج کیا اور ملتان کی سرزمین میں آگیا اس راجہ نے کچھ عرصہ حکومت کی جس کے لڑکے نے ہڑپہ کے نزدیک دریائے راوی کے کنارے ایک شہر کی بنیاد ڈالی اور اس کا نام وہنی وال آباد رکھا اس قبیلہ کی زیادہ تر آبادی ملتان، بہاولپور اور ساہیوال میں کثرت سے آباد ہیں.
55 کلیار :
(سوم بنسی راجپوت) بھٹی راجپوتوں کی شاخ ہے راجہ سالباہن کی اولاد میں سے ایک راجا کلیال تھا جو پہلے کالا باغ (میانوالی) جا کر آباد ہوا پھر وہاں سے سرگودھا آکر آباد ہو گیا راولپنڈی ضلع میں کلیال نامی گاؤں بھی ہے.
56 کلال :
بھٹی قبیلہ کی شاخ ہے ان کے مورث کا نام کل پال تھا جس نے ریاست آہلو پر حکومت کی تھی ریاست کپور تھلہ پر بھی ان کی حکومت رہی اس قبیلہ کو کلال اور آہلو والیہ بھی کہا جاتا ہے.
راجہ کرشن سے پانچ پشت پہلے راجہ اندھک کے بیٹے راجہ بجھمن سے بھٹی ۔جاریجہ۔شورسینی۔جدون۔خانزادہ راجپوتوں کا شجرہ چلتا ہے۔جبکہ اسی راجہ اندھک کے بیٹے راجہ کوکر سے کھوکھر راجپوتوں کا شجرہ چلتا ہے۔اگر آپ اس راجہ کوکر سے تھوڑا نیچے دیکھیں تو آپ کو راجہ اگرسیین نظر آئے گا جو کہ راجہ کرشن کا نانا ہے اور اسی اگرسین کے بیٹے راجہ کنس کو کرشن نے مار دیا تھا ۔جسکا ذکر کھوکھر اپنی تحریروں میں کرتے ہیں۔
بھٹی علاقے
جلال پور
بھٹیاں (ضلع حافظ آباد)
پنڈی بھٹیاں
(ضلع حافظ آباد)
سالار بھٹیاں
(ضلع شیخوپورہ)
اعوان بھٹیاں
(ضلع شیخوپورہ)
بھٹی کے
(وزیر آباد)
چاہ پکا
بھٹیاں (ضلع ننکانہ صاحب)
میر پور بھٹیاں
(ضلع ننکانہ صاحب)
خیر پور
بھٹیاں (ضلع ننکانہ صاحب)
بھاکا بھٹیاں
(ضلع حافظ آباد)
کلیاں بھٹیاں
(ضلع حافظ آباد)
مہدی بھٹیاں
، ضلع حافظ آباد
بھٹی
منصور (تحصیل وزیر آباد)
گوٹھ
صوفان بھٹی (سندھ)
بھٹی گوٹھ
(حیدرآباد)
چک ابراہیم
بھٹی ریلوے اسٹیشن
دریا خان
بھٹی گوٹھ ، سندھ
گوٹھ حاجی
اللہ بچایو بھٹی ، سندھ
گوٹھ حاجی
بھٹی حیدرآباد
قلندر بخش
بھٹی (ضلع شیخوپورہ)
گوٹھ محمد
رمضان بھٹی ، سندھ
احمد بخش
بھٹی ، ملتان
چک بھٹی
(ضلع حافظ آباد)
کوٹ زاہد
بھٹی شہید
بھٹیاں ،
ضلع راولپنڈی
عنایت پور
بھٹیاں ، (لالیاں)
قلعہ بھٹیاں
والا
بھٹیاں
چباں ، تحصیل کھاریاں
کوٹ بھٹیاں
، کھوئی رٹہ
گوٹھ حسن
بھٹی ، (سندھ)
گوٹھ علی
نواز بھٹی ، (سندھ)
محلہ بھٹیاں
والا ، دنیا پور
محلہ بھٹیاں
والا ، بھکر
بھٹی نگر
، تحصیل اٹھارہ ہزاری
بھٹی نگر
، حیدرآباد
عزیز بھٹی
ٹاؤن ، ضلع لاہور
بھٹی
کالونی ، وہاڑی
بھٹی
کالونی ، خان پور ، ضلع رحیم یار خان
بھٹی
کالونی ، لاہور
عزیز بھٹی
ٹاؤن ، ضلع سرگودھا
قلعہ بھٹیاں
، مریدکے
دھمیال
بھٹی
مختلف نام
ان کے نام
پر مختلف علاقہ جات مثلاً "بھٹیانہ"، "بھٹیورہ" اور مختلف
مقامات جیسا کہ"بھٹینڈہ"، "بھٹنیر" اور "پنڈی بھٹیاں"
موسوم ہیں۔ بھٹی روایات کے مطابق وہ "شری کرشن جی مہاراج" کی اولاد میں
سے ہیں اور اسی واسطہ سے راجپوتوں کی "چندر ونشی" شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔
روایات کے مطابق ازمنہ قدیم میں انہیں سندھ سے پار دھکیل دیا گیا تھا لیکن انہوں
نے اپنا علاقہ واپس لے کر جوئیہ،لنگاہ اور دوسرے قبا ئل کو ستلج کے پار دھکیل دیا
جیسلمیر اور بھٹیانہ رياستون کی بنیاد رکھی۔ راجپوت جاٹ اور گجر قبائل کی اکثر شاخیں
مثلا وٹو، نارو، نون، وگن، سدھو،ڈوگر کچھی باجوہ، باجو، گھمن اپنا نسب بھٹی
راجپوتوں سے جوڑتی ہیں۔ ایک وقت میں بھٹی راجپوتوں کی سلطنت میں تمام سرسہ ضلع اور
ضلع حصار کے ملحقہ علاقہ جات شامل تھے جو آج بھی بھٹیانہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
جنرل کننگہم کے مطابق ابتدائی ایام میں بھٹی راجپوتوں کی سلطنت سالٹ رینج اور کشمیر
پرمشتمل تھی اور ان کا دار الحکومت گجنی پور موجودہ راولپنڈی تھا۔ غالباً دوسری صدی
قبل مسیح میں ہندوساسانی قبائل نے انہیں جہلم کے پار دھکیل دیا اور ان کے راجہ
رسالو، بھٹی راجپوت نے سیالکوٹ کاشہرآباد کیا تاہم قابض قبائل نے انھیں مزید پرے
دھکیل دیا، البتہ کشمیر میں ان کا اقتدار 1339ء تک قائم رہا۔ اگرہم بھٹی قبیلہ سے
نکلنے والی ذیلی شاخوں کو بھی بھٹی شمار کریں تو پنجاب کا کوئی ایسا علاقہ ایسانہیں
ہو گا جس میں بھٹی غالب اکثریت میں نہ ہوں۔ تاہم تقریباً بھٹی روایات اپنا تعلق
بھٹنیر کے قدیم شہر اور بھٹیانہ کے علاقہ سے جوڑتے جو عرصہ دراز سے خشک ہوئے دریائے
گھاگرا کے کنارے پرآباد ہیں اور ان دونوں علاقوں کا بھٹی قوم سے کوئی ناتانہ ہونا
ناممکن ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یا تو دریائے گھاگھرا کے خشک ہونے سے یا پھر راٹھوروں سے
شکست کھانے کے بعد بھٹی قبائل پنجاب میں آ کر آباد ہوئے۔ جہاں سے ہندوساسانی قبائل
نے انہیں پھر واپس بھٹیانہ کے علاقوں میں دھکیل دیا۔ بھٹی قبیلہ راجپوتوں کی چندرا
ونشی شاخ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بھٹیوں کی 40 سے زائد ذیلی شاخیں ہیں۔
پھلر
" پھلر " گوت بھٹی راجپوتوں کی شاخ ہے اور جہاں پر وہ آباد ہیں اس علاقے کو " پھلرواں " کہتے ہیں سلطنت یعنی ملک " دلے دی بار " کے حکمران سردار محمد عبد اللّٰه خان بھٹی راجپوت شہید رح المشہور سردار دلا بھٹی راجپوت شہید رح کی دو بیویاں تھیں ایک بڑی رانی اسکے ماموں جان کی بیٹی تھی ، اور دوسری راجپوت بھٹیوں کی گوت " بھلر " سے تھی اس لئے اسے چھوٹی " رانی پھلراں " کہتے تھے ۔
وہنیوال بھٹی راجپوتوں کی عظیم باوقار شاخ ۔
بھٹی مشاہیر
نذیر بھٹی
شہناز بھٹی
دلا بھٹی
تارڈ
تارڑ قبیلہ کا تعلق چندر ونشی بھٹی راجپوت سے ہے جٹ قبیلہ میں شادی کرنے کی وجہ سے ان کو راجپوت سے جٹ بنا دیا گیا۔راجپوتوں کی اکثر شاخیں آپ کو جٹوں میں نظر آتی ہیں اسکے پیچھے زیادہ یہی کہانی ہے۔ جب راجپوتوں نے اپنے ہم نسب بھائیوں کو ماننے سے انکار کر دیا تو انھوں نے بھی پھر راجپوت کو جٹ بنا دیا اور اس سے جو اوریجنل جٹ قبائل تھے وہ بھی اس میں مکس ہو گئے۔اور اب تفریق کرنی پڑ رہی ہے۔
سہتو یا بھٹو خاندان
7-راٹھور راجپوت
سک، پہلو یون اور ترشک جو وسط ایشیا کی مشہور قومیں تھیں اور وہ ہند پر حملہ آور ہوکر ہندو مذہب میں داخل کر راجپوت کہلائیں۔ ولسن کا کہنا ہے کہ راجپوت قبائل راٹھور، پوار اور گہلوٹ وغیرہ یہاں پہلے سے آباد تھے۔ یہ چاروں قبائل اصل میں جاٹ ہیں جنہیں بعد میں راجپوت کہا جانے لگا ہے۔ کیوں کے یہ اس وقت حکمران تھے۔
****************************************************
8-گھوڑے وا راجپوت
قبول اسلام
****************************************************
گڑھ شنکر
کی دیگر معلومات
مشہور گھوڑے واہ شخصیات
محمد محی الدین(ابو العلاء محمد محی الدین جہانگیر)ساہیوال.
افتخار محمّد چودھری ، سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان .
رانا محمّد حنیف خاں ، سابقہ فنانس منسٹر .
سردار بہادر ایس ایم نیاز احمد خاں .
رائے دولت خاں ، گھڑھ شنکر اسٹٹ کے آخری رئیس .
رائے عبدل رزاق ، سابقہ صوبائی وزیر .
رانا شبّیر احمد خاں ، صنعت کار اور جاگیردار .
راجا عبدلحمید سینئر ایڈووکیٹ .
جسٹس خالد محمود .
رانا محمّد طاہر خاں .
رانا ایم اے رشید ، ایس ایس پی .
رانا عبدالشکور خاں .
ایم اے لطیف رانا .
رانا فائق علی خاں ساہیوال .
رائے مسعود احمد خاں ساہیوال
رانا محمود علی ملتان
رانا حاجی محمد صدیق مظفرگڑھ
https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%AF%DA%BE%D9%88%DA%91%DB%92_%D9%88%D8%A7%DB%81
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
Ghorewaha of Garhshankar || History &
Personalities || Garhshankar Hoshiarpur To Pakistan Part-1 https://www.youtube.com/watch?v=NL3lkbW7pdY
Professor Ghulam Sarwar Khan Rana S/O Abdul Majeed Khan Rana
CSS Examiner
برادری: گھوڑے واہ راجپوت
شجرہ
پروفیسر غلام سرور خاں ولد
عبدالمجید خاں ولد
عبدلرومان خاں ولد
فتح خاں ولد
صوبے خاں ولد
آغا خاں ولد
غلامی خاں ولد
نعمت خاں ولد
سدے خاں ولد
عیسے خاں ولد
فتح جنگ ولد
رائے روف چند عرف شیخ عابد جے پور جود پور کے رہنے والے۔
تین بھائی تھے، ایک بھائی فوت ہو گیا
باقی دو بھائی کچوھا اور کنوھا دونوں بھائی
جے پور، جود پور سے چلے، دہلی آئے اور بادشاہ شہاب الدین غوری کا دور تھا۔
شہاب الدین غوری کوشوالک کی پہاڑیاں جو کہ ہوشیارپور کے گردہ نواح میں تھیں،
وہاں پُہنچا ہوا تھا۔
دونوں بھائیوں کے پاس ایک دریائی
گھوڑا تھا۔ اس پر سوار ہو کر دونوں بھائی شہاب الدین غوری کے پاس آئے۔
بادشاہ کو گھوڑا بہت پسند آیا اور ہر قیمت پر گھوڑا خریدنا
چاہا مگر دونوں بھائیوں نے یہ دریائی گھوڑا بادشاہ کو تحفہ میں دے دیا۔
بادشاہ نے اس کی قیمت دینے کا بہت اسرار کیا مگر دونوں
بھائی نہیں مانے۔
بادشاہ نے ان دونوں بھائیوں کو گھوڑے کے بدلے میں کچھ دینے
کے لیے ان دونوں بھائیوں کو صبح سورج نکلنے پر مخالف سمت میں سفر کرنے کو کہا اور
سورج غروب ہونے پر ایک بھائی کے ہاتھ میں کنگن تھا، اس نے وہا ں پھینکا تو اس گاؤں
کا نام کنگن پور پڑ گیا۔
دوسرے بھائی نے کوئی دوسری چیز پھینکی اور اس طرح اس کا نام
اس چیز سے منصوب ہو گیا۔
اس طرح ان دونوں بھائیوں کومختلف سمت سفر کرنے پر درمیانی
زمین مل گئی۔
ان نے اپنی راج دھانی روپڑ رکھی
تھی۔
مگر بعد میں اکبر کے
دور میں یہ روپڑ سے گڑھ شنکر آ کر آباد ہو
گیے۔ اور اس طرح اپنی راج دھانی گڑھ شنکر میں آ کر آباد کر لی۔
گڑھ شنکر میں 85 فیصد راجپوت تھے۔ باقی 10 فی صد
ہندو تھے، باقی کچھ نائی، کچھ پرائی، دھوبی، چھینبہ وغیرہ تھے۔
یوں اکبر کے دور میں راجپوتوں کی راج دھانی روپڑ سے منتقل
ہو کر گڑھ شنکرآ گئی۔
گڑھ شنکر کے سو فیصد مکانات اور دوکانیں راجپوتوں کی ملکیت
تھیں۔ جن میں سے کچھ
ہندوں کو کرائے پر دی ہوئی تھیں۔
پہلی پتی رائے کاسی تھی،
اس میں سرپراہ کو ٹکا پہنایا جاتا تھا۔ چاروں پتیاں
اور گرد و نواح کے سارے پنڈ اس میں شامل ہوتے تھے۔ جب سربراہ کو ٹکا دیا جاتا تھا۔
پتی رائیکا کے سربراہ رائے پمبو خاں صاحب تھے۔
رائےپمبو خاں کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے رائے دولت خاں سربراہ بنے۔ رائے دولت کے دیگر بھائیوں میں رائے فضل احمد خاں، رائے چراغ محمد خاں اور رئے عمید علی خاں۔ ان کے پاس 500 ایکڑ زمین اس لئے ہوتی تھی کہ انہوں نے اجتماعی خرچ وغیرہ کرنا ہوتا تھا۔ اس لئے ان کے پاس باقیوں سے زیادہ زمین ہوتی تھی۔
آپ علامہ اقبال کے پاس گئے اور کہا کہ میں نوجوان نسل کی
خدمت کرنا چاہتا ہوں، مجھے کوئی تجویز دیں۔
علامہ اقبال کے پاس اس وقت مولانا موددی صاحب تھے، علامہ
اقبال صاحب نے کہا کہ سردست آپ مولانا موددی صاحب کو لے جائیں۔
چوہدری نیاز علی خاں کی سرنہ کے پاس کافی زمین تھی
وہ چاہتے تھے کہ مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تین چار سوطالب علم ان کے پاس
وہاں آ کر رہیں اور اساتذہ کرام جن کا وژن بہت اعلیٰ پائے کا ہو وہ ان کو پڑھائیں۔
اس طرح نوجوان نسل کی اسلامی تربیت ہو۔
اس طرح ان کے مکمل اخراجات وہ خود برداشت کریں۔
یوں مولانا موددی صاحب اسلامیہ پارک چوبرجی لاہور سے جمال
پور کے قریب اسٹیشن کے قریب جہاں چوہدری نیاز علی خاں صاحب کا بہت بڑا قلعہ تھا
وہاں مستقل منتقل ہو گئے تھے۔
وہاں سے ہی جماعت اسلامی کا ترجمان القران رسالہ نکلتا تھا۔
چوہدری نیاز علی خاں پروفیسر غلام سرور خاں کے خالو تھے۔
علامہ اقبال جب بھی ڈلہوزی جاتے تھے اکثر نیاز علی خاں کے
پاس آتے جاتے قیام کرتے تھے۔
چوہدری نیاز علی خاں نے پہلے پارے کی تفسیر بھی لکھی اور
دیگر کتابیں بھی لکھیں۔
میاں امیر الدین لاہور کے بڑے نمایاں نام تھے ان کے ساتھ
چوہدری نیا ز علی خاں کے ذاتی تعلقات تھے۔
میاں محمد عمرالدین طالب جو 52 کتابوں کے مصنف ہیں، اور ان
کا تعلق چشتیہ سلسلے کے ساتھ تھا۔ ان کا احاطہ 15-16 ایکڑ پر محیط تھا۔ اور آج ان
کا احاطہ میں گورنمنٹ ایلمینٹری سکول بن چکا ہے۔
میاں عمر الدین طالب بنیادی طور پر خرچوکی ضلع گوجرنوالہ کے
رہنے والے تھے۔ یہ گڑھ شنکر جا کر ہیڈ ماسٹر تعینات ہوئےتھے۔ 1901 میں وہ خود ریٹائر ہو گئے تھے۔
اور بعد میں ان کا بیٹا خواجہ محمد علی وہاں کا ہیڈ ماسٹر
بنا۔ جو کہ 1901 تا 1926 تک ہیڈ ماسٹر رہا۔
ان کی کتابیں اردو، ہندی، سنسکرت، فارسی، عربی، پنجابی اور
پوٹھوہاری میں موجود ہیں۔
ان کا عرس 17 جیٹھ کو منایا جاتا ہے۔ اور بقول پرنسپل کالج
میں چھٹی ہوتی ہے۔
مساجد
گڑھ شنکر پتی رائیکا میں پانچ مساجد تھیں۔
میاں عمرالدین کی مسجد
بانگی شاہ کی مسجد
کومہ کی مسجد (پروفیسر سرور خاں کی نانی حکومت بی بی
المعروف کومہ کی مسجد)
شاہ چن بودلہ کی مسجد، جو کہ بہت روحانی شخصیت تھی۔ چوہدری
مولا بخش نے بنوائی تھی۔ ان کے فوت ہونے کے بعد پروفیسر سرور خاں کی تیں نانیوں نے
اس مسجد کو بنوایا، جن کے نام
حکومت بی بی – اس مسجد کا نام اب ان کے نام پر کومہ والی
مسجد مشہور ہے۔
نواب بیگم
برکت بی بی
اس مسجد کے اندر چھ صفیں تھیں، ہر صف میں 42-43 لوگ کھڑے ہو
سکتے تھے۔ اور صحن میں آٹھ صفیں بچھ سکتی تھیں۔
رائے دولت خاں آنریری مجسٹریٹ تھے، رائے دولت راجپوت برادری
کا جو بھی فیصلہ کر دیتے تھے اس فیصلے کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تسلیم کرتا تھا۔ یوں
رائے دولت خاں پنچائیتی سربراہ بھی تھے۔
ہندو سے مسلم
ان کا بڑا ہندو تھا جس کا پہلا نام رائے روپ چند تھا۔ جب اس
نے اسلام قبول کیا تو اس کا نام شیخ عابد رکھا گیا۔ ان کی ہندو بیوی چلی گئی تھی۔
رائے شام چوراسی کے چیف کی بیٹی کے ساتھ شیخ عابد کی دوبارہ شادی ہوئی۔
تھانہ پتی رائیکا میں تھا۔
اور گورنمنٹ مڈل سکول بھی پتی رائیکا میں تھا۔ جو 1926 تک
مڈل سکول رہا اور 1926 میں یہی سکول ہائی سکول بن گیا۔ پروفیسر غلام سرور خاں بھی چوتھی کلاس تک وہاں پڑھے، دینہ ناتھ ان کے
ٹیچر تھے۔ ایک ٹیچر کا نام ہری رام اور احمد
خاں ہیڈ ماسٹر تھے
میاں مہربان صاحب جو کہ میاں محمد عمر الدین طالب کے پڑپوٹے
تھے
ان کے بیٹے میاں محمد علی پاک سرکار جو ہیڈ ماسٹر تھے،
ان کے بیٹے میاں قربان علی صاحب
ان کے بیٹے میں سلطان علی صاحب
ان کے دوسری بھائی میاں مہربان علی صاحب (انھوں نے اپنا
سارا مال رکھ کر لوٹانا شروع کر دیا تقریباً تین چوتھائی لٹ چکا تھا۔ پروفیسر سرور
صاحب کے دادا جان چوہدری عبدالمان خاں نمبردار اور پتی جوڑا کے چوہدری چراغ محمد
خاں نے کہا کہ بعد میں ہم کیا کریں گے۔) ان کے بولنے پر میاں مہربان علی نے فرمایا
کہ جائیں پہلے تو میں نے یہ ضلع کھینچ کر پاکستان میں لے آنا تھا، اب یہ ضلع
پاکستان میں نہیں آ سکتا۔ خواہ کچھ بھی ہو جائے۔ انھوں نے کہا کہ میں پیارے نبی کی
بارگاہ میں اس ضلع کی منظوری لے چکا تھا۔ اب چونکہ آپ لوگ بیچ میں آڑے آئے ہیں، اب
ایسا نہیں ہو گا۔ لہذا اب پاکستان جانے کی تیاری کریں۔
ان کے تیسرے بھائی میاں عطاالدین صاحب
اور ان کے ایک سوتیلے بھائی میں مردان علی تھے۔
اور ایک بیٹی بھی تھی جس کا نام بی بی چش تھا۔
میاں مہربان علی کے جاننے والے ایک ہندو کرنل یا بریگیڈئر
تھے، انھوں نے کہا کہ میں ان کو بحفاظت پاکستان روانہ کر دوں گا۔ میاں مہربان علی
نے فرمایا کہ میں ایک لائن کھینچ دوں گا، اگر آپ لوگ اس لائن کے اندر رہے تو محفوظ
رہیں گے، اگر باہر نکلے تو پھر میں ذُمہ دار نہیں ہوں گا۔لہذا ان کا قافلہ بحفاظت
رہا۔
پروفیسر سرور اور کچھ رفقاء گڑھ شنکر سے صبح 10 بجے بس کے
زریعے چلے اور ہوشیارپور کراس کیا آگے نصروالے کا پل آیا جو کہ سکھوں نے اڑا دیا تھا۔
دو تین لوگوں کے پاس ماچس تھیں، ارد گرد مکئی کی فصل تھی۔
لوگ چھلیاں کھا کر وقت گزارنے لگے جب کہ ملٹری کانواے اس ٹوٹے ہوئے پل کو گھاس
پھوس کے ساتھ پُر کرنے میں لگ گئی جو کہ اگلے دن دس، گیارہ بجے تک اس کو کلیر کرنے
میں کامیاب ہو گئی۔
اگے جلندھر آیا،
آگے بیاس دریا آیا جو کے مکمل خون آلود ہو چُکا تھا۔ اور ہم
تین چار دنوں سے پیاسے اور بھوکے تھے۔
اس کے بعد فوجی کانوائے امرتسر پہنچی۔
وہاں ہندو ملٹری اور ہندو ڈرائیور واپس بھاگ گئے تھے اور
بچاری عورتیں گاڑیوں کو دھکا لگا رہی تھیں۔ مگر وہاں مسلمان ملٹری نے بڑا تعاون
اور کام کیا۔
اس کے بعد اٹاری کراس کیا۔
پاکستان داخلے کے بعد سب نے اللہ کے حضور دو دو نفل ادا
کئے۔
اس کے بعد لاہور والٹن پہنچے۔
وہاں کچھ قیام اور طعام کے بعد پتوکی روانہ ہو گئے
گڑھ شنکر میں کوئی بھی سکھ آباد نہیں تھا مگر انھوں نے
مسلمانوں کی تمام دوکانیں پٹرول اور مٹی کا تیل پھینک کر جلا دیں۔ ڈپٹی کمشنر آیا
مگر ہائی سکول سے ہی واپس چلا گیا۔ جو کہ ایک ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا۔ سکھوں نے
30-35 لوگ گرفتار کر لیے۔ ان گرفتار لوگوں میں رائے فضل خاں، رائے دولت خاں، رائے
حیات محمد خاں اور رائے محمد رفیق خاں اور مختلف پتیوں کے ذیلدار اور دیگر سرکردہ
لوگوں کو پکڑ لیا۔ اور سب کو ضلع مال پور پھر ہوشیارپور روانہ کر دیا۔
سرکردہ لوگوں میں سے صرف ایک آدمی احسان الحق گرفتار نہیں
ہو سکا۔ وہ پہلے اپنی گھوڑی پر سوار ہوکر پھر ٹرین کے زریعے وہاں سے پاکستان
پہنچا۔
سکھ بہت بڑا اورمنظم
حملہ کرنا چاپتے تھے مگر بزگوں کی اللہ سے دُعا کے بدولت نہیں کر سکے۔
چوہدری نیاز علی خاں کے والد مال پور مدرس تھے، تمام پڑھے
لکھے بچوں کو مزید تعلیم کے لیے اگے پڑھاتے تھے، ان کی فیس بھی خود ادا کرتے تھے۔
دوسری پتی جوڑا
صوبےدار میجر نیاز احمد خاں بہت بڑی شخصیت تھی۔ انہوں نے رائے
روپ چند کےمزار کی دیکھ بھال کی۔ وہ بہت متمول اور صاحب ثروت تھے۔ ان کا ایک بیٹا
سپریم کورٹ کا وکیل رہا ہے۔ ان کو ہائی کورٹ کے جج کی آفر ہوئی تھی مگر انھوں قبول
نہیں کی۔
ان کے دوسرے بھائی کا نام شبیر احمد خاں جو پرنسپل اسلامیہ
کالج آف کامرس رہے ہیں۔
جوڑا پتی کے سربراہ اوران کی بیوی دونوںمسلمان تھے ۔
پتی جوڑا میں جامع مسجد تھی اور اس کے علاوہ بھی ایک اور
مسجد تھی۔
تیسری پتی کا نام گموں خانیاں،
اس کے سربراہ خود اور ان کی بیوی دونوں مسلمان تھے۔
ڈاکٹر صندے خاں جو پارٹیشن کے بہت عرصہ پہلے جیل کے بھی
ڈاکٹر رہے ہیں۔
اور ان کے بیٹے تھے چوہدری احمد خاں جو گورنمنٹ ہائی سکول
گڑھ شنکر کے ہیڈ ماسٹر تھے۔
ڈاکخانہ اور شفا خانہ دونوں اسی پتی میں تھے۔
گموں خانیوں میں بھی دو مساجد تھیں۔
چوتھی پتی کا نام میانہ پتی تھا
راجہ حمید علی خاں ایڈووکیٹ جلندھر میں پریکٹس کرتے تھے، ان
کی کئی مربعے زمین تھی۔
شاہ نواز سکھ پور کے قریب شاہ نواز، رب نواز اور اللہ نواز
کی 70 مربعے زمین تھی۔
احسان الحق جو چوہدری افضل حق مرحوم کے فرسٹ کزن تھے۔ان کی
بھی 20 مربعے زمین تھی۔ جو کہ ڈپٹی والا، عارف والا کے قریب موجود ہے۔
اس پتی کا طرہ امتیاز پیر علی معظم سرکار کا مزار پُرانور
تھا۔ ان کا مزار بہت بڑا تھا اور 12 ایکڑ پر محیط تھا۔ ان کے عرس پر کافی دن روشنی
کی جاتی تھی۔ لاکھوں کا ہجوم اکٹھا ہوتا تھا۔ اس مزار کی مسجد، مسجد نبوی کے نمونے
پر بنائی گئی تھی۔
یہ مسجد آج بھی اسی طرح آباد ہے، ایک کینڈا کی سکھ عورت نے
ایک کروڑ کی زمین خرید کر اس مسجد کے ساتھ منسلک کر دی ہے۔ اب اس مسجد کا رقبہ
تقریباً آدھا مربعہ ہے۔
پتی میں ایک کالی مسجد تھی۔
ایک حضور قبلہ عالم علی معظم سرکار کی مسجد تھی جو اب بھی
آباد ہے۔
پیر علی معظم اور غلام صمدانی صاحب، غلام غوث صاحب اور اس
کے قرب وجوار میں قادر بخش کا بہت بڑا مزار تھا۔ جو بہت بڑے بزرگ تھے۔
پارٹیشن کے وقت لوگوں نے کہا کہ ہم جہاں چار پانچ سو سالوں
سے مقیم ہیں، ہم جہاں سے نہیں جائیں گے۔ اس وقت پیر معظم صاحب خواب میں آئے اور
انھوں نے کہا کے جہاں سے ہجرت کر لیں-
پتی میانہ کےبزرگ عطا محمد صاحب نے بھی اپنے پتی والوں کو
پارٹیشن کے وقت کہا کہ آپ لوگ جہاں سے پاکستان ہجرت کر لیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
Ghorewaha Rajput || Garhshankar, Hoshiarpur To Pakistan ||
Part-2
https://www.youtube.com/watch?v=v7Kl5QJiYTE
تحصیل گڑھ شنکر
ضلع ہوشیار پور
گڑھ شنکر کے گردو نواح میں گاؤں یا قصبے مندرجہ
ذیل تھے۔
گڑھ شنکر سے ہوشیار پور 17-18 میل کی مسافت پر
تھا۔
گڑھ شنکر میں ہائی سکول تھا۔
مسجدیں 10-11 تھیں
آرئیں برادری کے صرف ایک یا دو گھر گڑھ شنکر میں تھے۔
گڑھ شنکر کے زیادہ تر گھوڑے وا راجپوت اپنے نام کے ساتھ چوہدری لکھتے تھے البتہ
کچھ سرکردہ لوگ رائے بھی لکھتے تھے۔
رائے دولت خاں ولد رائے پمبو خاں 1760 پنڈوں کے
سرکردہ سربراہ تھے۔
ارائیں برادری کے کچھ سرکردہ لوگ بھی اپنے نام کے ساتھ
چوہدری لکھتے تھے، جب پارٹیشن کے بعد پاکستان آئے تو بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے
اپنے نام کا ساتھ چوہدری لکھنا شروع کر دیا، اس طرح گھوڑےوا راجپوتوں نے اپنا الگ
تشخص برقرار رکھنے کے لیے اپنے نام کے ساتھ رانا لکھنا شروع کر دیا۔
پارٹیشن سے پہلے ہوشیار پور کے قریب ہریانہ اور ریحانہ کے
لوگ اپنے نام کے ساتھ رانا لکھتے تھے۔
گڑھ شنکر کے غیر مسلم سرکردہ لوگوں میں دینہ ناتھ، ہری رام،
سری رام، کھیسو رام نمایاں تھے۔
گھوڑےوا ہندہ بھی تھی۔
مجلس احرار کا زیادہ تُعلق ہندوں کے ساتھ تھا اور کانگرس کو
سپورٹ کرتی تھی۔ پنڈر جواہر لعل نہرو نے حضرت عطااللہ شاہ بخاری سے دوسہا اور مکیریاں
میں جلسے بھی
کروائے۔
عطاللہ شاہ بخاری جب قران پڑھتے تھے تب انسان تو انسان
جانور بھی درختوں پرساکن بیٹھے رہتے تھے۔
ابولکلام آزاد اور عطااللہ شاہ بخاری پاکستان بننے سے پہلے
مختلف آرا رکھتے تھے مگر بعد میں انھوں نے پاکستان کے بارے میں کوئی متنازعہ بات
نہیں کی۔
گڑھ شنکر کے زیادہ تر لوگ پاکستان میں مندرجہ ذیل شہروں میں آباد ہیں-
افتخار محمد چوہدری ولد جان محمد چوہدری چیف جسٹس سپریم
کورٹ آف پاکستان۔ کی زمینیں 41 چک ڈگورا والا، ٹھکری والے کے قریب ہیں، ان کے والد
صاحب پارٹیشن سے پہلے ہی گڑھ شنکر سے کوئٹہ چلے گئے تھے۔
ڈاکٹر کیپٹن حاجی غلام مُصطفٰے خاں گھوڑے وا راجپوت
آپ
مہندی پور انڈیا سے پاکستان میں سمندری چک 139 گ ب رام پورہ میں آئے اور
بعداذاں ڈجکوٹ ضلع فیصل آباد منتقل ہو گئے۔
آپ
13 نومبر اور 14 نومبر کی درمیانی رات کو ساڑھے گیارہ سے پونے بارہ کے درمیان 63
سال کی عمر میں، دنیا فانی سے رخصت ہوگئے،
جب
آپ کا جنازہ گھر سے اٹھا، نانا جان کی بھینسوں کے آنکھوں میں بھی انسو تھے۔
محترم
نانا جان مرحوم کی وفات ہمارے خاندان کا سب سے بڑا صدمہ تھا۔ ان کا جنازہ ڈجکوٹ کی
تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔
مولوی
نیازاللہ خان جو کہ نانا جان مرحوم کے چچا زاد بھائی اور اس وقت امیر جماعت اسلامی
ضلع لائلپور تھے نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔
جیسے
ہی آپ کی تدفین کی گئی، آسمان سے ہلکی فوار نے بھی رحمت کے نزول کی گواہی دی۔
آپ
کی وفات کی اطلاع اسی دن لاہور پہنچ گئی تھی۔ اس وقت مولانا مودودی جماعت اسلامی کی
مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ اطلاع ملتے ہی مولانا مودودی
مرحوم نے اجلاس ملتوی کر کے نانا جان مرحوم کی مغفرت کے لئے خصوصی دعا کی۔
اس
بات کی جماعت اسلامی کے دوسرے امیر جناب طفیل محمد صاحب نے بھی تصدیق کی،
اہل
ڈجکوٹ نے آپ کی وفات پر پورا ہفتہ بھر گھر میں کھانا نہیں پکنے دیا اور گھر والوں
اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے رہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
9- پنوار راجپوت
****************************************************
پنوار راجپوتوں کی
36 ذیلی گوتیں
راؤ بچھتر سنگھ پنوار راجپوت
صوبیدار میجر راؤ محمد اختر پنوار راجپوت
صوبیدار میجر راٶ محمد اختر ولد بشیر احمد خاں 1942 کو ہندوستان کے ایک ضلع روہتک میں پیدا ہوئے، انکی گوتھ پنوار راجپوت اور گاؤںبڑا نگانہ تھا۔ انکے بھائیوں میں راٶ برکت علی اور راٶ معشوق علی شامل ہیں اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئے۔
اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے افواجِ پاکستان کو جوائن کیا، جہاں اپنی قابلیت کی بنا ٕ پر ترقی پاتے ہوئے صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ 19 سندھ رجمنٹ سے ان کا تعلق تھا جہاں انہوں نے تقریبا 32 سال عسکری خدمات سرانجام دیں اور معینہ مدت پر ریٹائر ہو گئے۔
ان کے ایک بہادر اور ہونہار بیٹے راٶ سبحان اختر شہید نے شہادت کا جام پیا جس پر اہلِ اسلام، اہلِ پاکستان، تمام راجپوت برادری اور اہلیانِ گاٶں کو فخر ہے۔
آپ 74 برس میں 9 فروری 2016 کو رات 08:15 فوت ہوئے-
جناب ذیشان خان راندو صاحب
03128741630
آپ کا تعلق پنوار راجپوت خاندان کی شاخ راندو قبیلہ سے ہے۔ آپ عظیم راجپوت لکھاری جناب مولانا نور محمد راندو (مرحوم) کے پوتے ہیں۔گلشن راجپوت۔نور التواریخ جیسی عظیم تاریخی کتب لکھنے کی سعادت آپ کو حاصل ہوئی۔
آپ پنوار ہسٹری ریسرچ کونسل۔
راندو اتحاد پنجاب کے بانی۔
پنوار راجپوت یونین انٹرنیشنل کے سینئر ممبر ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
10- منج
راجپوت کی تاریخ
https://www.facebook.com/rajpoot.bethak/posts/1436363949714830/
تمام
مسلمان منج راجپوتوں کے جدِ اعلیٰ تلسی داس ( یا تلسی رام ) اسلام قبول کرنے سے
پہلے ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کے اجداد راجپوتانہ موجودہ راجھستان کے
شہر جیسلمیر کے رہنے والے تھے . دسویں صدی کے آخر میں برِ صغیر پر بیرونی حملہ
آوروں کے حملوں کا سلسلہ شہاب الدین غوری سے شروع ہوا اور اٹھارویں صدی میں احمد
شاہ ابدالی تک جاری رہا . اُن حملہ آوروں کی برِ صغیر میں آمد سے بہت سے بزرگانِ
دین اور اولیاء کرام نے بھی تبلیغِ اسلام کے لیے وقتاً فوقتاً اس سرزمین کا سفر
کیا اور مختلف شہروں میں قیام فرماتے ھوے الله تعالیٰ کی وحدانیت کا پیغام پہنچایا
. یہ وہ وقت تھا جب تمام برِ صغیر کفر کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور اسلام کی
ابدی روشنی سے محروم تھا . اُس زمانے میں راجپوت چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں
میں بٹے ہوے تھے اور اپنی روایتی اکڑ ، انا ، وقار اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کبھی
بھی ان میں اتحاد واتفاق یا مرکزیت قائم نہ ہو سکی . ترک ، افغان اور مغل حکمران
کئی صدیوں تک اُن کی نا اتفاقی کا فائدہ اٹھاتے ہوے ایک ایک راجپوت راجہ سے جنگ
کرتے ، ہر راجپوت راجہ اور اس کی افواج ہمیشہ جرات ، بہادری اور بے جگری سے لڑتے ،
گاجر مولی کی طرح کٹتے اور جان دے دیتے مگر کبھی بھی میدان جنگ میں پیٹھ نہ دکھاتے
یا گرفتاری دیتے . مسلمان حملہ آوروں نے مخلتلف راجپوت راجوں کے خلاف مسلسل جنگ
دسویں صدی کے آخر میں شروح کی جو پندرہویں صدی تک جاری رہی . اس مسلسل جنگ وجدل
میں کئی نامور بہادر راجپوت راجے مارے گئے ، شاید ہی کوئی گرفتار ہوا ہو ، کچھ نے
تھک کر اطاعت قبول کر لی اور چند نے تبدیل ہوتی ہوئی جغرافیائی صورتِ حال کو
دیکھتے ہوے اسلام قبول کر لیا . اس لمبی چوڑی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ
منجوں کے جدِ اعلیٰ تلسی داس جیسلمیر کے راجہ راول جیسل سنگھ کی نسل سے تھے لہذا
ان کا تعلق بھی ایک حکمران خاندان سے تھا اور آپ نے اسلام بغیر کسی دنیاوی لالچ ،
دباو، ڈر ، خوف یا کسی اور وجہ سے قبول نہیں کیا تھا بلکہ ایک خوف ناک واقعہ کے
باعث با رضا و رغبت ، اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمان ہوے تھے . راوی
بتاتا ہے کہ یہ 1323ء کی بات ہے اُس زمانے میں تلسی داس" موکل ہر" (
موجودہ نام فرید کوٹ ) میں رہتے تھے اور آپ کو کسی نے زہر دے دیا تھا ، زہر کھانے
کی وجہ سے آپ شدید علیل ہو گئے اور آپ کے سارے جسم پر دانے اور پھوڑے نکل آے ، بہت
علاج کرایا مگر شفایاب نہ ہوے . اس زمانے میں ملتان کے جنوب میں واقع اُوچ شریف
ایک بڑا شہر تھا اور بہت سے اولیاء اکرم کا مسکن تھا جن میں حضرت جہانیاں جہاں گشت
ؒ سب سے نمایاں اور مشہور تھے . ہزاروں ہندو آپ کی تبلیغ سے متاثر ہو کر مشرف
بااسلام ہو چکے تھے . جو ہندو مسلمان نہیں بھی ہوے تھے وہ بھی اکثر آپؒ سے دعا کی
درخواست کرتے تو اور آپؒ ان کے لیے بھی دعا فرماتے . تلسی داس کی تکلیف دیکھ کر
کسی ھندو نے انھیں مشورہ دیا کہ آپ حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ کے پاس دعا کے لیے
جائیں شاید ان کی دعا سے آپ کے پھوڑے پھنسیاں ختم ہو جائیں . آخر آپ حضرت جہانیاں
جہاں گشتؒ کی خدمات میں حاضر ہوے اور دعا کی درخواست کی . حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ
نے آپ کی شفایابی کے لیے الله پاک سے دعا فرمائی اور ساتھ ہی دوا دارو بھی دیا اور
تلسی داس کو چند روز اپنے پاس ہی رکھا تا کہ کچھ روحانی علاج بھی ہوتا رہے . اس
دوران تلسی داس آپؒ کی حرکات و سکنات اور عادات کا بغور مشاہدہ کرتے رہے اور آپؒ
کےاندازِ کلام ، رویے ، اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کے طور طریقوں کو قریب سے
دیکھتے رہے . کچھ دنوں بعد حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ کے روحانی اور جسمانی علاج کے
باعث الله پاک کے فضل سے تلسی داس مکمل طور پر صحت یاب ہو گئے تو آپؒ نے فرمایا :
" جا ! الله نے تجے شفا دی " اب آپ واپس جا سکتے تھے مگر الله تعالیٰ نے
دورانِ علاج آپ کے دل میں حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ کی محبت پیدا کر دی اور آپ نے
بارضا و رغبت حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ کے دستِ مبارک پر بعمر 40 سال ، اسلام قبول
کر لیا . حضرتؒ نے آپ کا اسلامی نام سراج الدین تجویز فرمایا اور نام سے پہلے
احتراماً شیخ ( مطلب : جناب یا محترم ) کا اضافہ کر دیا اور آپ تلسی داس سے شیخ
سراج الدین بن گئے ( ایک ادھ روایت میں آپ کا نام کلیم الدین بھی بیان کیا گیا ہے
) . تلسی داس عمر میں حضرتؒ سے بڑے تھے ، حضرتؒ کو جب بھی کبھی آپ کو بلانا ہوتا
تو بڑے ہونے کے ناطے آپ کا نام تلسی داس یا سراج الدین نہ پکارتے بلکہ احتراماً
شیخ ( محترم / جناب ) چاچو ( چچا یا بڑے ) کہتے . اس طرح آپ پہلے تلسی داس ، پھر
سراج الدین اور آخیر میں شیخ چاچو بن گئے . حضرتؒ کی دیکھا دیکھی عام افراد نے بھی
آپ کو شیخ چاچو کہنا شروع کر دیا لہذا آپ تاریخ میں آپ اپنے اصل اسلامی نام کے
بجاے شیخ چاچو کے نام سے زیادہ مشہور ہوے .
شفاءیاب
ہونے کے بعد اصولی طور پر شیخ چاچو کو موکل ہر ( موجودہ نام فرید کوٹ ) اپنے
خاندان کے پاس واپس جلے جانا چاہئے تھا مگر الله پاک نے آپ کے قلب میں اسلام کی
ایسی شمع روشن کی کہ آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی . بجاے اس کے کہ آپ اپنے قبیلے
میں واپس جاتے آپ نے حضرتؒ کی صحبت میں رہ کر مزید رشد وہدایت حاصل کرنے کا فیصلہ
کیا اور اپنے اس فیصلے سے حضرتؒ کو آ گاہ کر دیا . پچھلے چند ہفتوں کی رفاقت سے
حضرتؒ بھی شیخ چاچو سے بڑی حد تک مانوس ہو چکے تھے لہذا آپ بھی شیخ چاچو کے اس
فاصلے سے خوش ہوے اور آپ کو لنگر کا مہتمم ( نگران ) بنا دیا گیا . الله پاک کے
فضل و کرم اور حضرتؒ کی تبلیغ سے آپ کے خاندان کے دیگر قریبی عزیز یعنی بیٹے اور
پوتے بھی مسلمان ہو گئے اور واپس" موکل ہر" ( موجودہ نام فرید کوٹ )
اپنے قبیلے میں چلے گئے . لیکن اسلام قبول کر لینے کی وجہ سے خاندان کے ہندو رشتے
دار اُن سے ناخوش تھے اور انہوں نے تمام نومسلم رشتے داروں کو علاقے سے بے دخل کر
دیا لہذا وہ تمام افراد مجبوراً حضرتؒ کے پاس اُوچ شریف واپس آ گئے اور ان سے تمام
صورتِ حال بیان کی . اس زمانے میں دہلی کے تخت پرغیاث الدین تغلق ( دورِ حکومت
1320-1325ء ) براجمان تھا اور وہ حضرتؒ کا بہت معتقد تھا اور آپ کا انتہائی احترام
کرتا تھا . آپؒ نے بادشاہِ وقت کے نام ایک خط لکھا اور شیخ چاچو کے خاندان کے
افراد کی مدد کی ہدایت / درخواست کی . گیارہ یا تیرہ افراد کا یہ گروپ بادشاہ کی
خدمات میں حاضر ہوا . حضرتؒ کے خط کی وجہ سے بادشاہ ان سے احترام سے پیش آیا اور
انھیں چند فوجوں کے ہمراہ مجودہ ضلح لدھیانہ کی تحصیل جگراوں کے علاقے روانہ کیا .
وہاں فوجوں نے آپ کے اولاد میں سے کسی کو گھوڑے پر بیٹھ کر پورے علاقے کا ایک چکر
لگانے کا کہا اور جتنا علاقہ اس چکر ( ضلح لدھیانہ کی تحصیل جگراوں ) میں آیا وہ
سرکاری اہلکاروں نے آپ کے نومسلم خاندان کو عطا کردیا . گھوڑے پر چکر لگانے کی وجہ
سے اس علاقے کا نام چکر پڑ گیا اور "چکر" نامی گاؤں آج بھی می منج تاریخ :
تمام
مسلمان منج راجپوتوں کے جدِ اعلیٰ تلسی داس ( یا تلسی رام ) اسلام قبول کرنے سے
پہلے ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کے اجداد راجپوتانہ موجودہ راجستھان کے
شہر جیسلمیر کے رہنے والے تھے . دسویں صدی کے آخر میں برِ صغیر پر بیرونی حملہ
آوروں کے حملوں کا سلسلہ شہاب الدین غوری سے شروع ہوا اور اٹھارویں صدی میں احمد
شاہ ابدالی تک جاری رہا . اُن حملہ آوروں کی برِ صغیر میں آمد سے بہت سے بزرگانِ
دین اور اولیاء کرام نے بھی تبلیغِ اسلام کے لیے وقتاً فوقتاً اس سرزمین کا سفر
کیا اور مختلف شہروں میں قیام فرماتے ھوے الله تعالیٰ کی وحدانیت کا پیغام پہنچایا
. یہ وہ وقت تھا جب تمام برِ صغیر کفر کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور اسلام کی
ابدی روشنی سے محروم تھا . اُس زمانے میں راجپوت چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں
میں بٹے ہوے تھے اور اپنی روایتی اکڑ ، انا ، وقار اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کبھی
بھی ان میں اتحاد واتفاق یا مرکزیت قائم نہ ہو سکی . ترک ، افغان اور مغل حکمران
کئی صدیوں تک اُن کی نا اتفاقی کا فائدہ اٹھاتے ہوے ایک ایک راجپوت راجہ سے جنگ
کرتے ، ہر راجپوت راجہ اور اس کی افواج ہمیشہ جرات ، بہادری اور بے جگری سے لڑتے ،
گاجر مولی کی طرح کٹتے اور جان دے دیتے مگر کبھی بھی میدان جنگ میں پیٹھ نہ دکھاتے
یا گرفتاری دیتے . مسلمان حملہ آوروں نے مخلتلف راجپوت راجوں کے خلاف مسلسل جنگ
دسویں صدی کے آخر میں شروح کی جو پندرہویں صدی تک جاری رہی . اس مسلسل جنگ وجدل
میں کئی نامور بہادر راجپوت راجے مارے گئے ، شاید ہی کوئی گرفتار ہوا ہو ، کچھ نے
تھک کر اطاعت قبول کر لی اور چند نے تبدیل ہوتی ہوئی جغرافیائی صورتِ حال کو
دیکھتے ہوے اسلام قبول کر لیا . اس لمبی چوڑی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ
ہمارے جدِ اعلیٰ تلسی داس جیسلمیر کے راجہ راول جیسل سنگھ کی نسل سے تھے لہذا ان
کا تعلق بھی ایک حکمران خاندان سے تھا اور آپ نے اسلام بغیر کسی دنیاوی لالچ ،
دباو، ڈر ، خوف یا کسی اور وجہ سے قبول نہیں کیا تھا بلکہ ایک خوف ناک واقعہ کے
باعث با رضا و رغبت ، اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمان ہوے تھے . راوی
بتاتا ہے کہ یہ 1323ء کی بات ہے اُس زمانے میں تلسی داس" موکل ہر" (
موجودہ نام فرید کوٹ ) میں رہتے تھے اور آپ کو کسی نے زہر دے دیا تھا ، زہر کھانے
کی وجہ سے آپ شدید علیل ہو گئے اور آپ کے سارے جسم پر دانے اور پھوڑے نکل آے ، بہت
علاج کرایا مگر شفایاب نہ ہوے . اس زمانے میں ملتان کے جنوب میں واقع اُوچ شریف
ایک بڑا شہر تھا اور بہت سے اولیاء اکرم کا مسکن تھا جن میں حضرت جہانیاں جہاں گشت
ؒ سب سے نمایاں اور مشہور تھے . ہزاروں ہندو آپ کی تبلیغ سے متاثر ہو کر مشرف
بااسلام ہو چکے تھے . جو ہندو مسلمان نہیں بھی ہوے تھے وہ بھی اکثر آپؒ سے دعا کی
درخواست کرتے تو اور آپؒ ان کے لیے بھی دعا فرماتے . تلسی داس کی تکلیف دیکھ کر
کسی ھندو نے انھیں مشورہ دیا کہ آپ حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ کے پاس دعا کے لیے
جائیں شاید ان کی دعا سے آپ کے پھوڑے پھنسیاں ختم ہو جائیں . آخر آپ حضرت جہانیاں
جہاں گشتؒ کی خدمات میں حاضر ہوے اور دعا کی درخواست کی . حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ
نے آپ کی شفایابی کے لیے الله پاک سے دعا فرمائی اور ساتھ ہی دوا دارو بھی دیا اور
تلسی داس کو چند روز اپنے پاس ہی رکھا تا کہ کچھ روحانی علاج بھی ہوتا رہے . اس
دوران تلسی داس آپؒ کی حرکات و سکنات اور عادات کا بغور مشاہدہ کرتے رہے اور آپؒ
کےاندازِ کلام ، رویے ، اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کے طور طریقوں کو قریب سے
دیکھتے رہے . کچھ دنوں بعد حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ کے روحانی اور جسمانی علاج کے
باعث الله پاک کے فضل سے تلسی داس مکمل طور پر صحت یاب ہو گئے تو آپؒ نے فرمایا :
" جا ! الله نے تجے شفا دی " اب آپ واپس جا سکتے تھے مگر الله تعالیٰ نے
دورانِ علاج آپ کے دل میں حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ کی محبت پیدا کر دی اور آپ نے
بارضا و رغبت حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ کے دستِ مبارک پر بعمر 40 سال ، اسلام قبول
کر لیا . حضرتؒ نے آپ کا اسلامی نام سراج الدین تجویز فرمایا اور نام سے پہلے
احتراماً شیخ ( مطلب : جناب یا محترم ) کا اضافہ کر دیا اور آپ تلسی داس سے شیخ
سراج الدین بن گئے ( ایک ادھ روایت میں آپ کا نام کلیم الدین بھی بیان کیا گیا ہے
) . تلسی داس عمر میں حضرتؒ سے بڑے تھے ، حضرتؒ کو جب بھی کبھی آپ کو بولانا ہوتا
تو بڑے ہونے کے ناطے آپ کا نام تلسی داس یا سراج الدین نہ پکارتے بلکہ احتراماً
شیخ ( محترم / جناب ) چاچو ( چچا یا بڑے ) کہتے . اس طرح آپ پہلے تلسی داس ، پھر
سراج الدین اور آخیر میں شیخ چاچو بن گئے . حضرتؒ کی دیکھا دیکھی عام افراد نے بھی
آپ کو شیخ چاچو کہنا شروح کر دیا لہذا آپ تاریخ میں آپ اپنے اصل اسلامی نام کے
بجاے شیخ چاچو کے نام سے زیادہ مشہور ہوے .
شفاءیاب
ہونے کے بعد اصولی طور پر شیخ چاچو کو موکل ہر ( موجودہ نام فرید کوٹ ) اپنے
خاندان کے پاس واپس جلے جانا جاہے تھا مگر الله پاک نے آپ کے قلب میں اسلام کی
ایسی شمع روشن کی کہ آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی . بجاے اس کے کہ آپ اپنے قبیلے
میں واپس جاتے آپ نے حضرتؒ کی صحبت میں رہ کر مزید رشد وہدایت حاصل کرنے کا فیصلہ
کیا اور اپنے اس فیصلے سے حضرتؒ کو آ گھاہ کر دیا . پچھلے چند ہفتوں کی رفاقت سے
حضرتؒ بھی شیخ چاچو سے بڑی حد تک مانوس ہو چکے تھے لہذا آپ بھی شیخ چاچو کے اس
فاصلے سے خوش ہوے اور آپ کو لنگر کا مہتمم ( نگران ) بنا دیا گیا . الله پاک کے
فضل و کرم اور حضرتؒ کی تبلیغ سے آپ کے خاندان کے دیگر قریبی عزیز یعنی بیٹے اور
پوتے بھی مسلمان ہو گئے اور واپس" موکل ہر" ( موجودہ نام فرید کوٹ )
اپنے قبیلے میں چلے گئے . لیکن اسلام قبول کر لینے کی وجہ سے خاندان کے ہندو رشتے
دار اُن سے ناخوش تھے اور انہوں نے تمام نومسلم رشتے داروں کو علاقے سے بے دخل کر
دیا لہذا وہ تمام افراد مجبوراً حضرتؒ کے پاس اُوچ شریف واپس آ گئے اور ان سے تمام
صورتِ حال بیان کی . اس زمانے میں دہلی کے تخت پرغیاث الدین تغلق ( دورِ حکومت
1320-1325ء ) براجمان تھا اور وہ حضرتؒ کا بہت معتقد تھا اور آپ کا انتہائی احترام
کرتا تھا . آپؒ نے بادشاہِ وقت کے نام ایک خط لکھا اور شیخ چاچو کے خاندان کے
افراد کی مدد کی ہدایت / درخواست کی . گیارہ یا تیرہ افراد کا یہ گروپ بادشاہ کی
خدمات میں حاضر ہوا . حضرتؒ کے خط کی وجہ سے بادشاہ ان سے احترام سے پیش آیا اور
انھیں چند فوجوں کے ہمراہ مجودہ ضلح لدھیھانہ کی تحصیل جگراوں کے علاقے روانہ کیا
. وہاں فوجوں نے آپ کے اولاد میں سے کسی کو گھوڑے پر بیٹھ کر پورے علاقے کا ایک
چکر لگانے کا کہا اور جتنا علاقہ اس چکر ( ضلح لدھیھانہ کی تحصیل جگراوں ) میں آیا
وہ سرکاری اہلکاروں نے آپ کے نومسلم خاندان کو عطا کردیا . گھوڑے پر چکر لگانے کی
وجہ سے اس علاقے کا نام چکر پڑ گیا اور "چکر" نامی گاؤں آج بھی وہاں آباد
ہے . قصبہ چکر موجودہ فرید کوٹ کے مشرق میں 77 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے .
تلسی
داس / سراج الدین یا شیخ چاچو کے بیٹے اور پوتے نئے قصبے چکر میں از سرِ نو آباد
تو ہو گئے مگر کچھ ہی عرصے بعد خاندان میں دو بھائیوں کے درمیان کسی بات پر جھگڑا
ہوا ، بات بڑھی تو ایک بھائی نے دوسرے کو قتل کر دیا اور خود شدید زخمی ہو گیا اور
وہ بھی جلد زخموں کی تاب نہ لاتے ھوے مر گیا . دو بھائیوں کی اس طرح موت سارے
خاندان کے لئے صدمے ، دکھ اور افسوس کا باعث تھی . تلسی داس / سراج الدین کے
خاندان کے افراد ابھی نئے نئے ہندو دھرم چھوڑ کر مسلمان ھوے تھے لیکن ان میں ابھی
بھی کچھ ہندوانا سوچ باقی تھی اس لئے خاندان کے سرکردہ افراد نے اس واقعے کو نیک
شگون نہ جانا اور کہا کے قصبہ چکر ان کے لئے منحوس ثابت ہوا ہے چنانچے یہاں آباد
نہ ہوا جاے . لہذا آپ کے خاندان نے شمال ، شمال مشرق اور جنوب کی طرف پیش قدمی کی
اور اُس زمانے میں اِن علاقوں میں آباد اودھے سنگھ پنور کو شکست دی اور وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ رائے کوٹ ، داود ہر ، حلوارہ ، جگراوں ، رائے سر، قطبہ ، شاہجہانپور
،دھنیر ،دہلیز ، بجدکے قصبہ بورال ، فوجے وال ضلح فیروز پور ، جلال آباد ، کوٹ
عیسیٰ اور دوسرے کئی چھوٹے قصبات آباد کیے . مغل بادشاہ اکبر کے دورِ حکومت میں
دریاے ستلج کے زیادہ تر جنوبی علاقوں میں منجوں کی عملداری قائم ہو چکی تھی اور
بلخصوص رائے کوٹ ، تلونڈی رائے اور حلوارہ کے تمام علاقوں پر ان کو مکمل کنٹرول
حاصل ہو گیا تھا .
اسلام
قبول کرنے کے بعد شیخ چاچو کے دل کی دنیا روشن ہو چُکی تھی اور اب آپ تقریباً
تاریک الدنیا ہو گئے اور آپ نے اپنی بقیہ زندگی اُوچ شریف میں ہی حضرتؒ کی صحبت
میں گزاردی . آپ کا وصال تقریباً 80 سال کی عمر میں 1363ء کے قریب ہوا . آپ نے
مرنے کے بعد بھی اپنے مرشد کے پاس ہی رہنا پسند کیا اور آپ کو ایسی جگہ پر دفنایا
گیا جہاں سے حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ کا مزار مبارک ( اُوچ شریف ) نزدیک ہی واقع ہے .
مولانا رانا معاویہ اعظم
Provencial Minister of Relegious Affairs, Punjab.
Manj and Bhatti Rajputs Family Tree / Shajra-E-Nasb
1-Hazrat Aadam (علیہ
السلام)
2-Hazrat Shees / Sheth (علیہ
السلام)
3-Aanoosh / Anusha
4-Kinan / Qainan
5-Malhan,ne / Mahla,il
6-Yaar / Yarid
7-Hazrat Idrees / Enoch AS (علیہ
السلام)
8-Matushaalah / Matulsalk / Mutwashlack
9-Lamik
10-Hazrat Noah / Nuh (علیہ
السلام)
11-Saam
12-Arqafshaar / Arfakhshad
13-Shalikh / Salah
14-Hazrat Hud (Aadir / Abir) (علیہ
السلام)
15-Fahish / Falikh
16-Ra,oor / Ra,u
17-Saroosh / Saru
18-Nahoor
19-Azar / Tarih
20-Hazrat Ibraheem (علیہ
السلام)
21-Hazrat Ishaq / Isac (علیہ
السلام)
22-Hazrat Aas / Esau ( علیہ
السلام)
According to a Rajput historian Raja Mushtaq Ahmed Janjua "
All the Rajputs are descendents of Hazrat Ishaq( علیہ
السلام),
Book:Tareekh-e-Rajput o Janjua page No 46 .The remaining lineage is as under ;
Sri Narayan OR Vishnu ji
1. Brahma
2. Atri
3. Samundra
4. Chandra OR Soma
5. Vrishpat
6. Budha
7. Pururava
8. Aayu
9. Nahush
10. Yayati
11. Yadu
12. Kroshtu
13. Vrujjinvanta
14. Swahi
15. Swati
16. Rasadu /Vishadgu
17. Chitrarath
18. Shashabindu
19. Pruthusravas
20. Antar
21. Suyajna
22. Ushanas
23. Shineyu
24. Maruta
25. Kambalbarhis
26. Rukmakavach
27. Paravrushta
28. Jayamadh
29. Vidarbh
30. Kray
31. Kunti
32. Dhashti
33. Nivrutti
34. Dashai
35. Vyom
36. Jimut
37. Vikruti
38. Bhimrath
39. Rathvar
40. Navrath
41. Dashrath
42. Ekadashrath
43. Shakuni
44. Kurambhi
45. Devrat
46. Devkshetra
47. Devan
48. Madhu
49. Puruvash
50. Puruhotra
51. Anshu
52. Satvat
53. Bhim
54. Bhajman
55. Chitrarath
56. Vidurath
57. Shoor
58. Sharman
59. Pratikshatra
60. Swayambhoj
61. Hridik
62. Devbhithush
63. Shoor
64. Vasudev
65. KRISHNA
66. Pradyumna
67. Aniruddha
68. Vajranabha
69. Pratibahu
70. Bahubal
71. Subahu
72. Rajh
73. Gaj
74.Salivahan I [Real name Raja Shakbharan 129AD ]
75. Baland
76. Bhati
77. Mangal Rao
78. Majam Rao
79. Kehar / Ehar I
80. Tano
81. Bijairai I
82. Deoraj / Devraj
83. Mund / Mundh
84. Bachera / Bachharajat / Bijairaj II
85. Dusaj
86. Bijairaj II
87. Rawal Jaisal [ died in 1168 AD ]
88. Shalivahan II
89. Achal
90. Jagpal [ other son of Jagpal was Dhan and his son was BHATTI
]
91. Chun
92. MANJ
93. 94. 95. 3 generations are missing [ if anybody knows pl help
me ]
96. Mohkal
97. Wairsi
98. Tulsi Das [ or Sheikh Chacho , Islamic name Sirajuddin RA,
became muslim in 1323 AD on the hand of Hazrat Jahania Jahan Ghast of Uch
Sharif .]
References:
1-qureshifamily.info/tree.aspx?q=71
2-www.pndwarka.com/generation-lord-dwarkadheesh.html
http://4-www.academia.edu/.../Deeper_Roots_Of_The_Gill......
6-www.bhattirajputs.com/noble-bhatti-rajputs/
7-Old family tree of Manjs of village Wariana Teh. and Distt.
Jalandhar.
8-Tareekh Rajput wa Janjua by Raja Mushtaq Ahmed Janjua
حوالہ
جات :
1 - راوی رائے امتیاز احمد خاں
آف کمالیہ شہر .
2 - کتاب راجپوت نامہ ، مصنف :
جمیل احمد رانا ، مضمون تلونڈی رائے صفحات 101 تا 102 .
3 - گوگل میپس : https://www.google.co.in/maps/@30.6251082,75.3967797,13z…
4 - Charles Francis Massy by The Punjab Chiefs کتاب
: " روسائےِ بَا اختیار و نامی خاندان " ترجمہ : اے - ایس - شاہ . صفحات
95 تا 99 .
5 - https://en.wikipedia.org/wiki/Chakar,_Punjab
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
11- ڈھڈی راجپوت کی تاریخ
****************************************************
https://m.facebook.com/groups/344025649105474/posts/1836786036496087/
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
12-کھرل راجپوت کی تاریخ
****************************************************
کھرل ایک
راجپوت قبیلہ اور کئی شاخوں میں تقسیم ہے
اس قبیلے
کے زیادہ تر افراد نے خود کو جاٹ بتاتے ہیں۔ یہ راوی کے بڑے قبیلوں میں سے ہے۔ ان
میں بعض نے اپنا تعلق بھٹیوں سے بتایا ہے، کچھ کھرل اپنے کو پنوار راجپوت کہتے ہیں
اور کچھ راجا کرن سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مخدوم شاہ
جہانیاں کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ہے۔ ان کی جھنگ کے سیالوں کے شدید دشمنی رہی ہے۔
یہ فساد پسندی اور بلند ہمتی میں سب سے آگے رہے ہیں۔ ان کا مشہور رہنما کھرل اور
حلیف قبائل کا سربراہ تھا۔ وہ پانچ باغبانہ تحریکوں کا رہنما تھا۔ اسے 1857 میں کیپٹن
بلیک کی قیادت میں مار دیا گیا۔ وہ راجپوت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے کھیتی
باڑی خود کرنے کی بجائے مزارع سے کرواتے ہیں۔ مگر یہ اپنی بیواؤں کی شادیاں کرتے ہیں۔
ان میں دکھاوا بہت ہے اور ان کی بہت سی رسومات کا ماخذ ہندوانہ ہے۔ بٹہ یا بٹہ
کھرل سرادر تھا اور سلطان محمد غوری کے دور میں پیر شیر شاہ سید جلال نے اسے
مسلمان کیا تھا۔ کسی زمانے میں یہ دختر کشی کی روایت بھی تھی۔ ان کی ایک روایت پکی
چھت کے نیچے نہیں سونے کی بھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں حضرت سلیمان علیہ سلام
نے پکی چھت کے نیچے سونے سے منع کیا ہے۔[1]
کھرل مشاہیر
رائے احمد
خاں کھرل
رائے
فاروق عمر کھرل
رائے محمد
مرتضی اقبال
رائے نور
محمد کھرل
رائے محمد
عثمان خان کھرل
رائے منصب
علی خان کھرل
محترم
برادر راے علی حیدر خاں چوریڑہ کھرل
(چیرمین RSF پاکستان)
(رہنماء پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب)
رائے
مرتضے احمد خاں منگھیرہ کھرل
ڈاکٹر
رائے مصطفے منگھیرہ کھرل
رائے عاصم
مرتضی خان منگھیرہ ایڈووکیٹ ہاہیکورٹ (رہنما تحفظ کھرل تحریک پاکستان )
رائے سلیم
حسین منگھیرہ کھرل
کھرل مقامات
کھرل عباسیاں
ٹھٹھہ
کھرلاں
جوار چب
کھرلاں
جھوک
کھرلاں
کھرل آباد
محلہ
کھرلانوالہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)
کھرلانوالہ
سولنگی
کھرل
ٹھٹھہ
کھرلاں ، چنیوٹ
بلوآنہ
(تاندلیانوالہ)
منگھیرہ
کھوہ
لشاریاں
داناآباد
مصور کا
چک
کچا
تاندلہ
مکوآنہ
منگنا تاندلیانوالہ
ساہیوال کا سورج بنسی بگھیلا راجپوت مہر شاھ میر بگھیلا راجپوت رائے احمد نواز کھرل راجپوت کا ساتھی جو 1857 ع کی جنگ آزادی میں انگریزوں سے لڑا ان مسلمان سپوتوں کی یاد گار ساہیوال میں بنی ہوئی ہے ، جو ہمارے حقیقی راجپوت ہیرو تھے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
13-سیال راجپوت
بنیادی
طور پر پنجاب کا ایک زمیندار قبیلہ ہے لیکن اس سے تعلق رکھنے والے افراد اب سندھ
اور بلوچستان میں بھی آباد ہیں، پنجاب کے سیال اپنے نام کے ساتھ سردار، مہر، نواب
خا ں اور جٹ سیال چوہدری کا لاحقہ استعمال کرتے ہیں ۔۔ پنجاب میں یہ قبیلہ جھنگ کے
علاوہ سرگودھا، خوشاب ، منڈی بہاؤالدین پھالیہ اور فیصل آباد کے علاوہ کئی اضلاع میں
آباد ہے ۔۔۔ بیان کیا جاتا ہے کہ سیال جو ایک پنوار راجپوت رائے شنکر کی اولاد تھا
جو الٰہ آباد اور فتح پور کے درمیانی علاقہ دارا نگر کا رہنے والا تھا ایک کہانی یہ
بھی ہے کہ پنواروں کی ایک شاخ دارانگر سے نقل مکانی کر کے جونپور چلی گئی جہاں
شنکر پیدا ہوا۔ گورنر پنجاب” ای ڈی میکلیگن “کے مطابق شنکر کے ہاں تین بیٹے ہوئے
جن کے نام گھیئو، ٹیئو اورسیئو رکھے گئے انہی سے جھنگ کے سیالوں شاہ پور
خوشاب کے ٹوانوں اور پنڈی گھیب کے گھیبوں
کی نسل چلی ۔
ایک اور
روایت کے مطابق سیئو) (سیال) رائے شنکر کا اکلوتا بیٹا تھا اور یہ کہ ٹوانوں اور
گھیبوں کے مورثین محض شنکر کے ہم جد رشتہ دار تھے کہا جاتا ہے کہ شنکر کی زندگی میں
تو یہ تمام قبیلہ باہم شیر و شکر رہا مگر شنکر کی مقت کے ساتھ ہی ان میں شدید
جھگڑے شروع ہو گئے جس وجہ سے 1241-46 میں اس کا بیٹا سیئو المعروف سیال سلطان رکن
الدین کے بیٹے” علاؤ الدین غوری یا مسعود شاہ علاؤ الدین“ کے دورِ حکومت میں پنجاب
کو نقل مکانی کر گیا۔
یہ شواہد
بھی ملتے ہیں کہ قریباً یہ وہی دور تھا جب متعدد راجپوت خاندانوں نے موجودہ
ہندوستان سے پنجاب کو نقل مکانی کی ادھر اسی زمانہ میں بابا فرید الدین گنج شکر کی
دینی تعلیمات اور اخلاق حسنہ کی بدولت یہاں اسلام خوب پھیل رہا تھا۔ قرین ِ قیاس
ہے کہ سیال آوارہ گردی کرتا ہو ” اجودھن“ موجودہ پاک پتن جا پہنچا اور بابا فرید
الدین گنج شکر کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہو گیا۔1265ءمیں بابا فرید الدین کے وصال
تک یہ انہی کے پاس مقیم رہا۔ان کے ساتھ راجپوتوں کی ایک شاخ ڈوگر یا ڈوگرہ نے بھی
اسلام قبول کیا جو کے اب جٹوں میں شامل کیے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی رشتہ داری
کرتے ہیں، مشہور ہے کہ بابا فرید الدین نے بشارت دی کہ اس کی اولاد دریائے چناب کے
آس پاس کےعلاقے نیا نام جھنگ پر حکمرانی کرے گی۔
جھنگ کا
پہلا شہر، ایک قبیلہ سردار رائے سیال سیئو نے 1288ء میں اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ
جلال بخاری کے کہنے پر آباد کیا۔ جھنگ کے پہلے حکمران مل خان 1462ء میں ہوئے۔ سیال
قبائل نے جھنگ پر 360 سال حکومت کی اور آخری سیال حکمران احمد خان تھے، جنھوں نے
1812ء سے 1822ء تک حکومت کی، جن کے بعد حکومت سکھوں کے ہاتھ آئی اور پھر ان سے
انگریزوں کے قبضہ میں گئی
سیالوں کی آگے بھی
بہت سی سب گوتیں ہیں ان میں ایک دلچسپ بات یہ ہے جس بھی قوم کے نام کے آخر میں"
آنہ " لفظ ہوگا وہ سیال ہی ہوگا مثلاً فتیانہ سرگانہ جمیانہ وغیرہ سیالوں کی
رشتے داریاں راوی کے کھرلوں کے ساتھ بھی رہی ہیں اس کے علاوہ چناب کے علاقے کی ایک
اور قوم چدھڑ راجپوت کے ساتھ بھی ان کی رشتے داریاں رہی ہیں ایک اور روایت کے
مطابق یہ رائے درست نظر آتی ہے کہ سیال ٹوانہ اور گھیبے رائے شنکر کے تین بیٹے
بالترتیب سیئو، ٹیئو اور گھیئو کی اولاد ہیں ۔ سیال اور ٹوانہ بھی اس تعلق کو کسی
حد تک تسلیم کرتے ہیں۔ اسی بناءپر راجپوت قبائل کے اس گروہ کا پنوار ہونا خلافِ
امکان نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گھیبہ خاندان سیال اور ٹوانہ کے بعد پنجاب آیا اور فتح
جنگ ، پنڈی گھیب کے نیم پہاڑی علاقہ میں آباد ہوا۔ یہاں وہ اعوانوں گکھڑوں اور دیگر
پڑوسی قبائل کے مقابل قائم رہے حتیٰ کہ رنجیت سنگھ نے انہیں 1798ء میں مطیع کر لیا۔
سیال قوم کے ساتھ کھڑی بڑی تعداد جو سیال جٹ ہیں جنہیں سیالوں کے ساتھ رہنے کی وجہ
سے سیال کی ال پڑ گئی ہے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی آمد کے بعد سیال جٹ بھی سیال
راجپوتوں سے کم نہ رہے یہی وجہ ہے کہ اب ان کا فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے ماضی میں
بھی سیال اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ہیر رانجھا کی کہانی میں ہیر کا تعلق والد چوہدری
چوچک بھی جٹ سیال ہی تھا،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
14-ٹوانہ راجپوت
https://dunya.com.pk/index.php/city/islamabad/2013-12-04/268625
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
Jump to navigationJump to search
ٹوانہ جٹو ں کا ایک قبیلہ پٹیالہ میں وہ ٹوانہ کی ساتویں پشت میں ایک پنوار راجپوت کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ تیرھویں صدی میں دھار انگری سے ہجرت کر کے آئے امرتسر میں ایک زراعت پیشہ کمبوہ قبیلچہ
شاہ پور کوہستان نمک کے دامنی علاقہ میں ٹوانہ آباد ہیں اور انہوں نے پنجاب کی تاریخ میں اس سے کہیں زیادہ نمایاں کردار ادا کیا جو ان کی تعداد دیکھتے ہوئے مشکل نظر آتا ہے انہیں پنوار راجپوت اور سیال اور گھیبا والے مور ث اعلیٰ کی نسل سے ہی قرار دیا جاتا ہے ہے وہ پنجاب میں غالبا سیالوں کے ساتھ ہی آئے اور یقینا پندرہویں صدی ختم ہونے سے پہلے وہ سب سے پہلے دریائے سندھ پر جہانگیرہ کے مقام پر آباد ہوئے لیکن آخر کار شاہ پور تھل میں اپنے موجودہ مسکن کو پہنچ گئے جہاں مٹھہ ٹوانہ میں اپنا مرکزی قصبہ تعمیر کیا اب وہ ایک نیم گلہ بان نیم کاشتکار قبیلہ اور سپاہی پیدا کرنے والے مضبوط آدمیوں کی نسل ہیں تاہم ان کے اوصاف افسوسناک طور پر ان کی انتہائی جھگڑالو افتاد سے داغدار ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی آپس میں اور جس کسی کے ساتھ بھی واسطہ پڑا اس میں ان کی نہ ختم ہونے والی شورش جاری رہتی ہے[1]
ٹوانہ شخصیات
نواب محمد ممتاز خان ٹوانہ
ملک خضر حیات ٹوانہ
ملک محمد مبارز خان ٹوانہ
شہزادی عمرزادی ٹوانہ
راحیلہ ٹوانہ
چوہدری طاہر سلیم ٹوانہ
ٹوانہ علاقے
مٹھہ ٹوانہ
حسن پور ٹوانہ
ٹوانہ کلاں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
|
15-نارمہ راجپوت
میاں محمد بخش نے سیف الملوک میں لکھا ہے کہ اگر میری قبر بنجن کی چوٹی پہ ہوتی تو عوام میں اس کی بڑی مقبولیت ہوتی مگر چونکہ میری نسبت میرے مرشد سے ہے اس لیے میرا مقام ان کے پہلو میں ہی ہے .چلیں آج ہم پنجن چلتے ہیں اور ملتے ہیں یہاں کے لوگوں سے . آج سے تین سو سال پہلے رائے جلال خان نامی ایک نارمہ راجپوت سردار نے اپنے قبیلے کے ساتھ پنجن کی خوبصورت چوٹی کے دامن میں بسیرا کیا . پنجن پہ آباد مقامی سردار نے اس قبیلے اور رائے جلال خان سے جب خطرہ محسوس کیا تو ایک قاصد کی زبانی رائے جلال خان کو اپنی طرف سے دوستی کا بیغام اپنی بیٹی کے رشتے کی صورت بھجوایا . رائے جلال خان نے وہ رشتہ قبول کر لیا اور مقامی سردار کی بیٹی سے شادی پہ رضامندی کا اظہار کیا. مقامی سردار کی نیت اور منصوبے کچھ اور تھے وہ یہ چاہتا تھا کہ جب رائے جلال خان اس شادی میں اپنے قبیلے کے ساتھ آئے گا تو اسے اور اسکے ساتھیوں کو زہر آلود مشروب سے مار دیا جائے گا اور یوں آنکھ کا یہ بال ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا . کہتے ہیں ایک عورت جسکا تعلق مقامی سردار سے نہ تھے نے یہ بات سنی اور اس کا تذکرہ رائے جلال خان سے کرنے کا ارادہ کیا. پنجن کی پہاڑی پہ جو راستہ جاتا ہے وہ تب بھی اتنا ہی دشوار گزار ہوا ہو گا جتنا آج ہے . بارات راستے میں تھی جب وہ عورت رائے جلال خان کو ملی اور مقامی سردار کے عزائم سے آگاہ کیا . رائے جلال خان نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو حکم دیا کہ اسکی اجازت کے بغیر کوئی بھی میزبان علاقے میں کچھ بھی نہ کھائے گا اور نہ پیے گا. بارات پنجن کی چوٹی پہ پہنچی اور منصوبے کے تحت مشروب پیش کیے گے . رائے جلال خان نے وہ شربت ایک کتے کے سامنے ڈالا اس نے جیسے ہی وہ شربت چا ٹا مر گیا. کہتے ہیں ایک بڑی زور دار جنگ ہوئی اور اسمیں مقامی سردار مارا گیا اور رائے جلال خان فاتح پنجن ہو گیا. یہ نارمہ جاگیرداری کا اس علاقے میں آغاز تھا . رائے جلال خان کے تین بیٹے ہوئے جن کے نام رائے بخش خان ، رائے مرجان خان اور خان اعصاب خان تھے یہ تینوں اس جاگیر کے حکمران رہے . انکی کی جاگیرداری میں پنجن اور اسکے ساتھ جڑے بیشمار علاقے تھے اور اسی جاگیرداری کی نسبت سے پنجن کے پاس ہی نرمہ یا نرما ع نامی ایک علاقہ ہے جسے جاگیردار اور سفید پوش راجہ ولایت خان نے ١٩٤٧ تک اپنی جاگیر میں رکھا مگر پھر بعد کی صورتحال بدل گئی. تاریخ میں اس بات کا ریکارڈ موجود ہے کہ جو دستہ ١٩٤٧ میں افغانستان سے کشمیر میں جنگ لڑنے آیا اور جسکا سپہ سالار حضرت عالی تھا وہ بھی راجہ ولایت خان کا مہمان رہا . اسکے علاوہ راجہ ولایت خان کے دو بھائی بھی تھے جو جنگ عظیم اول اور دوئم میں برطانوی ہند کی فوج میں افریقہ اور فار ایسٹ میں تعینات تھے ان کے نام راجہ اشرف خان اور راجہ عبدللہ خان تھے .
پنجن کے لوگوں کا رجحان اکثر عسکری میدان کی طرف دیکھا گیا ہے اور ہر دور میں یہاں کے نوجوان افواج میں شامل ہوئے . پاکستان کی آزادی کے بعد ١٩٤٧ کی جنگ سے کارگل کی جنگ تک یہاں کے گرم خون نے پاکستان کی سرحدوں کو سینچا اور بہادری کی رسمیں کو کسک بازار (بنگلہ دیش) کے طویل ترین ساحل سمندر سے لیکر دنیا کے بلند محاز جنگ سیاہ چن تک نبھائی ہیں. میاں محمد بخش کا پنجن حقیقت میں پریوں کا دیش تھا مگر اب صورت حال بدل گئی ہے .اب یہ پنجن میرے لندن جیسا ہے . لندن میں ہر طرح کا شخص آباد ہے مگر وہ کسی کی تاریخ اور اپنی شناخت کو چھپائے پھرتا ہے ایسے ہی پنجن کے نارمے اپنے اسلاف کی قدروں سے بہت دور ہیں.
تحقیق کا جہاں بہت خوبصورت ہے اور اسمیں ڈوب کے اسلاف کی پہچان ہوتی ہے . آج بھی ہمارے لوگ کسی نہ کسی کے مشروب میں زہر ملا کے حکمرانی کے رستے ہموار کرتے رہتے ہیں . اس انجانے خوف کا سب سے بڑا نقصان تب ہوتا ہے جب ایک دن ہم وہی مشروب خود پی لیتے ہیں جسمیں وہ زہر ملا ہوتا ہے جسکو ہم دوسروں کے لے تیار کرتے ہیں. پنجن کو پہلے میں نے میاں محمد بخش کی آنکھ سے دیکھا تھا آج اپنی آنکھ سے دیکھتا ہوں تو سب بدلا بدلا لگتا ہے . یہ المیہ صرف پنجن کا نہی بلکہ پورے پاکستان اور آزاد کشمیر کا ہے . انہی باتوں کا تذکرہ میں اپنی آنے والی کتاب "میں اور وہ " میں کر رہا ہوں مگر جب جب تحقیقی سفر پہ نکلتا ہوں تو مجھے تاریخ کے یہ بابے پکڑ لیتے ہیں اور اپنے قصے بیان کرنے کو کہتے ہیں. وہ بابے اور ان کے حالات زندگی سچے تھے اسی لیے سیف الملوک کہ جسکا ایک حصہ پنجن جیسی جگہ پہ بیٹھ کہ لکھا گیا آج شاہ مکھی پنجابی ، پہاڑی یا میرپوری اور پوٹھاری کلام کا ایک انمول نمونہ ہے . اس کے شہزادے کی کہانی میں ہر وہ راز ہے جسکا تذکرہ حضرت اقبال کے شاہین میں اور غنی کے کلام میں ملتا ہے .
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
16-سومرو راجپوت
****************************************************
سومرو راجپوت
سومرو راجپوتوں نے 1010 سے 1356 تک سندھ ، بلوچستان ، جنوبی پنجاب اور بھارت (راجستھان اور گجرات) کے کچھ حصوں پہ حکومت کی -
سوڈھا راجپوتوں نے 850 سے حکومت کرنا شروع کی اور 1010 میں خفیف راجا سوڈھا نے مسلمان ہوکر سوڈھا سے سومرا خاندان کی بنیاد رکھی اور 1356 تک سوڈھا (سومرا) خاندان نے حکومت کی -
سوڈھا پنوار راجپوتوں میں راجا سومار رائے اسلام قبول کیا تو انکا نام تو ان سے سومرو راجپوت چلے -
راجا سومار سوڈھا حکمران بنے
دیگر حکمرانوں کے ناموں میں
پھر راجا بھونگر رائے حکمران بنے جنہوں نے 1051 سے 1092 تک حکومت کی
ان کے بعد راجکماری تارہ سومرو نے 1092 سے 1120 تک حکومت کی -
ان کے آخری حکمران کا نام راجا دودو سومرو تھا جن کے ستیلے بھائی چنیسر رائے سے لوک کہانی بھی منسوب ہے -
جن کے بیٹے کا نام خفیف سومرو تھا جنہوں نے اسلام قبول کیا اور مسلمان ہوگئے -
سومرو راجپوتوں کی تاریخ چوری ہو چکی ہے اور انہیں عربی النسل قرار دیا گیا ہے جس پہ سومرو برادری نے اپنا کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا جوکہ بہت بڑی نالائقی کی علامت ہے -
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے انہیں راجپوت ہی کہا ہے -
جب عربی جہالت کی دنیا میں تھے اور اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے تب بھی راجپوتوں کے ہاں عورتوں کی عزت کی جاتی تھی اور کئی راجکماریاں حکمران بنیں -
رائے لقب بھی راجپوت گوتیں ہی استعمال کرتی آئی ہیں دوسرا ثبوت یہ ہے کہ مسلمانوں میں عورتیں اس وقت حکمران نہیں بنتیں تھیں لیکن مسلمان راجپوت اور ہندو راجپوتوں میں بنتیں تھیں ، راجکماری بھی راجپوت عورتوں کا لقب ہے -
عربی مسلمان عورتیں جوہر نہیں کرتیں تھیں لیکن دودو سومرو کی ہار کے وقت خاندان کی عورتوں نے راجپوت رسم جوہر کو خوشی خوشی اپنایا -
رانی بائجل بائی بہن تھیں دودو سومرو کی جنہوں نے جوہر کیا -
سومرو خاندان صدیوں سے سندھ دھرتی ماتا کی حفاظت کے لیے لڑتے آئے ہیں نہ کہ عرب سے آنے والے وہ لٹیرے ہیں جنہوں نے سندھ اور ہند کو لوٹا -
سندھ پہ حکومت کرنے والا پنوار راجپوت خاندان کی اس شاخ کے ہندو حکمران سوڈھا راجپوت کہلاتے ہیں جبکہ مسلمان حکمران سومرا راجپوت کے نام سے مشہور ہیں :
01 : راجا سومار جو کے راجا راجپال کے بیٹے تھے وہ پہلے حکمران تھے - انہوں نے 1025 سے 1030 تک سندھ اور بلوچستان پہ حکومت کی اور ان کا دارالحکومت تھر تھا -
02 : رائے دودو سوڈھا اول
راجا سومار کے بعد رائے دودو حکمران بنے جنہوں نے 1030 سے لے کر 1054 تک سندھ اور بلوچستان پہ حکومت کی اور گجرات کا اچ نامی شہر فتح کیا -
03 : رائے بھونگر سوڈھا اول
1054 سے 1068 تک سندھ ، بلوچستان ، مغربی گجرات ، جنوبی خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب کے حکمران رائے بھونگر تھے جنہوں نے مانسہرہ تک کا علاقہ فتح کیا -
04 : رائے دودو سوڈھا دوم
رائے دودو نے 1068 سے 1089 تک سابقہ مذکورہ علاقے حکومت کی -
05 : تری (تاری) رانی سوڈھا
رائے دودو کی بیٹی تری رانی نے تین سال (1089 - 1092 ) تک حکومت کی اور عربی حملہ آوروں کو شکستیں دیں -
06 : رائے سانگھڑ سوڈھا
رائے سانگھڑ نے 1092 سے 1107 تک حکومت کی اور کاٹھیاواڑ فتح کیا - رائے سانگھڑ کے بیٹے رائے دودو نے دو ماہ تک حکومت کی جسے بادشاہ نہ مانا گیا اور رائے امر سنگھ حکمران بنے - رائے سانگھڑ نے سانگھڑ نامی شہر بسایا -
07 : رائے امر سنگھ سوڈھا
رائے امر سنگھ نے شہر امرکوٹ کی بنیاد رکھی - انہوں نے 1107 سے 1142 تک حکمرانی کی -
08 : رائے خفیف سومرو
رائے خفیف سومرا نے 1142 سے 1181 تک حکومت کی -۔
محمود غزنوی نے حملہ کرکے پنجاب کے کچھ علاقے فتح کر لیے - رائے خفیف نے ان سے مقابلہ کیا اور شکست کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہو کر مسلمان ہوگئے - رائے خفیف کے بعد باقاعدہ سندھ میں اسلامی سلطنت قائم ہو گئی -
09 : رائے دودو سومرو سوم
رائے دودو سومرو نے 1185 سے 1195 تک حکومت کی -
رائے دودو نے دیبل شہر کو تجارت کے لحاظ سے مرکزی شہر بنایا اور جام لاکھو سمہ سے جنگ کی - جام لاکھو سمہ نے جنگ کے بعد اسلام قبول کیا اور ٹھٹھہ شہر آباد کرکے وہاں سمہ راجپوتوں کی حکومت قائم کی -
10 : رائے بھونگر سومرو دوم
رائے بھونگر نے 1195 سے 1226 تک حکومت کی - رائے بھونگر کے دور میں ایران کے سلطان ، جلال الدین خوارزم نے حملہ کیا - بعد میں اس نے بلوچستان کے راجپوت حکمران جام نظام الدین سمہ اور سندھ کے راجپوت حکمران رائے بھونگر سومرو کے ساتھ مل کر منگولوں کو شکست دی -
11 : رائے گنھوار سومرو اول
رائے گنھوار نے 1226 سے 1242 تک حکومت کی -
12 : تورا محمد راؤ سومرو
تورا راؤ نے 1242 سے 1251 تک حکومت کی -
13 : رائے امراہ سومرو
رائے امراہ نے 1251 سے 1256 تک سندھ پہ حکومت کی -
14 : رائے گنھوار سومرو دوم
رائے گنھوار نے 1256 سے 1259 تک حکومت کی -
15 : رائے دودو سومرو چہارم
رائے دودو نے 1259 سے 1273 تک حکومت کی -
16 : تائی سومرو
تائی سومرو نے 1259 سے 1293 تک حکومت کی -
17 : چنیسر رائے سومرو
رائے چنیسر نے 1296 سے 1300 تک حکومت کی -
18 : رائے بھونگر سومرو سوم
رائے بھونگر نے 1300 سے 1315 تک سندھ پہ حکومت کی -
19 : رائے خفیف سومرا سوم
رائے خفیف نے 1315 سے 1333 تک حکومت کی - جن کے تین بیٹے ہوئے رائے دودو, رانا حمیر اور رائے امر سومرو -
20 : رائے دودو سومرو پنجم
رائے دودو نے 1333 سے 1351 تک حکومت کی - رائے دودو نے علاؤ الدین خلجی سے جنگ کی - شکست کی صورت میں ان کی بہن بجل بائی نے آگ میں کود کر جوہر کی رسم ادا کرکے راجپوت رانی ہونے کا ثبوت دیا -
21 : رانا حمیر سومرو
رانا حمیر سے سارا سندھ چھن گیا سوائے تھرپارکر کے جہاں انہوں نے 1351 سے 1355 تک حکومت کی -
اس کے بعد سندھ پہ سومرو راجپوتوں کی حکومت ختم ہوئی اور علاؤ الدین خلجی کی فوجوں کو شکست دے کر سمہ راجپوتوں نے سندھ اور بلوچستان کی حکومت سنبھالی -
یاد رہے پہلے بلوچستان اور سندھ ایک ہی صوبہ سندھ ہوا کرتا تھا -
سومرو اور سوڈھا گوتیں ہیں پنوار راجپوتوں کی -
سومرو راجپوت 36 راجکل میں شامل ہیں -
پنوار ، سوریا ونشی راجپوت ہیں -
سوریا ونشی راجپوت ، راجا سوریا دیو کی اولاد ہیں -
سومرہ
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
Jump to navigationJump to search
سومرہ قوم
گنجان آبادی والے علاقے
زبانیں
سندھی، سرائیکی، پنجابی، گجراتی، کچھی
مذہب
اسلام
متعلقہ نسلی گروہ
دیگر سندھی قبائل
سومرہ، (سومرو، سامرہ، سمرہ، سومرا، سمرو، Sumra، Soomro) سندھ کی قدیم قوم یا نسل ہے جو سندھ، کچھ، کاٹھیاواڑ، گجرات، بلوچستان میں کثرت سے آباد ہے۔[1]
فہرست
وجہ تسمیہ
سومرہ قوم، سامرہ کے عربوں سے نکلی ہے، جو حجاج بن یوسف کے دنوں میں تسخیر سندھ کے موقع پر عراق کے شہر سامرہ (سرمن رائے) سے ہجرت کر کے سندھ میں آئے۔ یہاں انہیں سامری کہا جاتا تھا لیکن بعد میں تلفظ و لہجہ کے تغیر کی وجہ سے سومرہ کہا جانے لگا۔[2]
معروف محقق و مؤرخ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اپنی کتا ب سومروں کا دور میں لکھتے ہیں [3]
” سومروں کا پرانا اور پہلا مشہور سردار سومار تھا، جس کے بعد اس کا بیٹا اپنے نام کے ساتھ ابنِ سومار (سومار کا بیٹا) کہلاتا تھا، حالانکہ اس کا ذاتی نام راجپال تھا، سومار کا لقب راء (رائے) تھا اسی لیے سومارراءکے بعد اس کی اولاد سومرا کہلانے لگی۔ سومرا لفظ یقینی طور پر سومارراء کا ہی مخفف یا مختصر تلفظ ہے۔ “
اصل نسل
سومرہ حجازی عربی النسل، مسلم، ھوازنیہ القریشی قوم کے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو محض سومرو / سومرہ لکھتے اور کہلاتے ہیں۔ اس مسلم قریش قوم سومرا کے مؤرث اعلیٰ حضرت سمرہ بن جندب بن ھوازن ہیں۔ اسی نسل کے قریشی سومرہ حاکموں نے کبھی محض اندرونِ سندھ اور کبھی پورے سندھ پر، دو (2) دؤر میں منصورہ سن 134ھ / 752ء سے لیکر، دوسرے دؤر کے سن 441ھ - 445ھ کے ابتدا تخت گاہ تھری / تھرڑی سے سومروں کے دوسرے تخت گاہوں ملتان، اسکندریہ (اُچ)، پتن پور، محمدطور،وگھ کوٹ، عمر کوٹ، روپا ماڑی،دیبل، ساموئی، برہمن آباد، الور، سہون، نانکی، گونڈل اور دمریلہ وغیرہ پر 1591ء تک 839 سال لگاتار بغیر کسی وقفے کے، شروع سے آخر تک، نہایت خود مختاری اور شان و شوکت سے حکومت کی۔،[4] سومروں کے مؤرث اعلیٰ صحابی رسول سمرہ بن جندب کا شجرہ قریش سے اس طرح ملتا ہے[5]
” سمرہ بن جندب بن ہوازن بن قیس غیلان بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ۔ “
محمد بن قاسم کی آمد سے قبل عربوں نے سندھ سے تجارتی روابط قائم کر لیے تھے اور دیبل، اوکھا منڈل، دیراول، سومنات، منگرول، دوارکا، راندہبر اور کمبھایت وغیرہ جہاں بحری تجارت کا زور تھا وہاں بنی سمرہ اور بنی تمیم کے قبائل نے یہاں تجارتی مراکز بھی قائم کر لیے تھے۔ مصالہ، کپڑا، ہتھیار، برتن، حضر موت، یمن، عراق، یمامہ لے جائے جاتے تھے اور وہاں سے عربی گھوڑے، کھجوریں، یمنی موتی یہاں فروخت کے لیے لاتے تھے۔[6] 34ھ میں عثمان بن عفان کے دور خلافت میں بصرہ کے حاکم عبداللہ بن عامر نے عامل مکران عبدالرحمن بن سمرہ (جو صحابی رسول سمرہ بن جندب کے بیٹے ہیں) کو اجازت دی کی سرحد مکران پر (راجا چچ کے اشتعال پر) حملے کی دھمکی دینے والی سندھ کی افوج کو بھگا دیں، چنانچہ حملہ کرکے سندھ کی افواج کو بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا اور مکران سے سرحد کیکان تک کا تمام علاقہ چھین لیا، یہی وہ علاقہ ہے جو چچ کی حکومت میں چند سال سے شامل تھا۔[7] عبد الرحمٰن بن سمرہ نے کابل فتح کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی سمرہ نے ہر دور میں بڑی بڑی فتوحات میں حصہ لیا۔[8]
سومروں نے حجاج بن یوسف ثقفی کے دور میں تسخیرِ سندھ کے موقع پر شہر سامرہ سے ہجرت کرکے سندھ کی فتوحات میں حصہ لیا۔۔،[9] حجاج بن یوسف ثقفی نے مکران اور سرحد سندھ کا حاکم محمد بن ہارون سمرہ کو مقرر کیا، [10]جن کا تعلق بنی سمرہ سے تھا۔ محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کے وقت مکران کی چھاؤنی میں بنی سمرہ کے تین ہزار جوان تیار تھے ۔[11] جنہوں نے محمد بن قاسم کی فوج کے ساتھ شامل ہو کر فتح سندھ میں حصہ لیا۔
علامہ مولوی عبد اللہ شائق سومروں کی اصل نسل کے بارے میں کہتے ہیں کہ،،[12]
” سومرا قوم کے مؤرث اعلیٰ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں، اسی لیے انہیں علوی کہہ سکتے ہیں۔ سومروں کا سلسلۂ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نامدار فرزندحضرت محمد ابن حنفیہ سے ملتا ہے۔ جنہیں محمد اکبر بھی کہتے ہیں۔ حضرت محمد حنیفہ خولد جعفر بن قیس کی بیٹی سے پیدا ہوئے۔ حضرت محمد بن حنفیہ سےحدیث کی روایتیں آپ کے والد ماجد سے ہیں اورحضرت محمد بن حنفیہ کے بعد آپ کے صاحبزادے ابراہیم نے کی ہیں۔ 65 برس کی عمر میں 81ھ بمطابق 662ء میں مدینہ شریف میں وفات کی اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی “
۔ حضرت محمد حنفیہ کے دو بیٹے جعفر اور ابراہیم تھے۔ حضرت جعفر بن محمد حنفیہ نے مدینہ منورہ سے ہجرت کرکے سامرہ (عراق) میں سکونت اختیار کی۔ سلطان ابن سومار سومروں کے پہلے تاجدار کا سلسۂ نسب اس طرح حضرت محمد ابن حنفیہ سے ملتا ہے۔ عصام الدین بھونگر بن سومار بن سحدان بن عبد الرحمٰن بن کعب بن اشرف بن عبد اللہ بن مقداد بن عمر بن مسلام بن مقیس بن نحاض بن حبیب بن ہارون بن جعفر بن حضرت محمد حنیفہ۔[13] عباسی خلیفہ مامون الرشید، علویوں کا بے حد احترام کرتا تھا، جس نے مقداد کو جو حضرت محمدحنفیہ کے بیٹے جعفر کی اولاد سے ساتویں پُشت سے تھا، اسے سندھ کا گورنر مقرر کیا، جو 215ھ میں اپنے اہل و عیال، بھائیوں اور رشتے داروں سمیت سامرہسے ہجرت کرکے سندھ میں آئے، جنہیں بعد میں سندھ کے باشندے سومرہ کہنے لگے۔[14]
معروف مؤرخ اعجاز الحق قدوسی تاریخِ سندھ حصہ اول میں سومروں کے بارے میں کہتے ہیں،[15]
” سومرا نہ تو ہندو تھے اور نہ ہندو راجپوت، بلکہ وہ عرب تھے جو ہندوستان میں آباد ہوگئے تھے اور پشت ہا پشت یہاں رہ کر یہیں کے باشندے شمار ہونے لگے۔ “
روایت کے مطابق سومروں کی نسل کے بارے میں جو اشارے ملے ہیں اُس کے مطابق سومروں کا سلسلہ عربوں سے ملتا ہے۔ سومروں کے عرب ہونے کے بارے میں مندرجہ ذیل ثبوت ملتے ہیں:
پہلا یہ کہ سومرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد سے ہیں۔
دوسرا یہ کہ کے سومروں کے عرب قبیلہ کربلا کی جنگ میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے لڑے، سب مارے گئے صرف ایک بزرگ مرد اور اُن کی بزرگ بیوی باقی رہ گئے جن کا ایک"سومرا" نامی کم سن بیٹا تھا، اُسے ماں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جنگ میں قربان ہونے کے لیے پیش کیا لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اُسے دعا دی کہ زندہ رہے اور صاحبِ اولاد ہو۔
تیسرا یہ کہ سومروں کا جدِ امجد جو کسی عرب گھرانے کا تھا بلکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد سے تھا، مکہ میں پیدا ہوا، بعد میں سندھ آیا یہیں پلا اوربڑھا۔ وہ بڑی طاقت اور کلاں والا تھا اور اس قدر کہ اُسے ہوا اُڑا کر سندھ لیکر آئی۔ دیو اُس کے قبضے میں تھے اور انہوں نے ہی اُس کے پایۂ تخت وگھ کوٹ کی تعمیر کی۔[16]
سومرہ تمیم انصاری حاکمِ سندھ کی اولاد کا نام تھا۔[17]
سومرہ: حاکمِ سندھ
غزنوی سلطنت، باہمی خانی جنگی کی وجہ سے کمزور ہوچکی تھی اور سلطان عبد الرشید کی عیاشی اور آرام طلبی کی وجہ سے سرحدی علاقے خود مختاری حاصل کر رہے تھے، 444 ہجری میں سندھ میں سومرا خاندان کی مستقل حکومت کی بنیاد پڑی، سومرہ قبیلے کے لوگوں نے تھری (ماتلی، سندھ) میں جمع ہو کر، سومرہ نامی ایک شخص کو سندھ کا حاکم بنایا، سومرہ نے بڑے تُزک و احتشام سے سندھ پر حکومت کی اور مفسدین کا قلع قمع کیا۔ اس کے بعد اس نے اطراف کے صاد نامی ایک طاقتور زمیندار کی لڑکی سے شادی کی، اس کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بھونگر تھا، جو سومرہ کے بعد تخت نشیں ہوا، سومرہ نے 1051ء میں وفات پائی۔[18]
جب غزنوی خاندان کے سندھ اور ملتان کے گورنر کی گرفت حکومت پر کمزور ہو گئی، 423ھ بمطابق 1032ء میں ابن سومار والئ ملتان نے سندھ میں سومرہ حکومت کی بنیاد رکھی نہایت طاقت و خود مختاری کے ساتھ حکومت کی۔[19]
صاحبِ جنت السندھ رحیمداد خان مولائی شیدائی کا بیان ہے کہ سومرہ (ہی وہ) پہلا شخص تھا، جو اُچ کے مشائخ کے ہاتھ پر اسماعیلی عقائد سے توبہ کرکے سُنی ہوا۔[20]
سومروں نے سندھ پر 445ء - 843ء تک21 حکمرانوں نے حکومت کی۔[21] جبکہ ابوالفضل نے آئین اکبری میں سومروں کی حکمرانی 500 سال بتائی ہے۔[22] ابو ظفر ندوی کے مطابق سومروں کے 25 حکمرانوں نے 401ھ سے 752ھ تک سندھ پر حکمرانی کی۔[23]
سومرہ دور میں سندھ کی سرکاری زبان عربی تھی۔ سومروں کے حکمرانی ختم ہوتے ہی سندھ کی سرکاری زبان فارسی ہو گئی۔[24]
سومرہ حکمرانوں کا پایۂ تخت
منصورہ سومرہ حکمرانوں کا پہلا دار الحکومت تھا۔[25] سومروں کا پایۂ تخت ابتداً تھری تھا، پھر سنگھار کی بیوی ہیموں نے اپنا پایۂ تخت قلعہ واہکہ کو بنایا جسے سندھی زبان میں وگھ کوٹ یا وجہ کوٹ کہتے ہیں اور یہ مقام نہرپران سے مشرق کی طرف پانچ میل دور واقع تھا، اُس وقت جبکہ رن کچھ کشتی رانی کے قابل تھا۔ قلعہ واہکہ ایک بندرگاہ تھا۔ (توضیحات تاریخِ معصومی، مرتبہ عمر بن محمد داؤد پوتہ ص 294)[26]
بیگلار نامہ کے صفحہ 8 میں ہے کہ سندھ میں اسلامی فتح کے بعد عرب قبیلے تمیم نے حکومت کی، تھوڑے دنوں کے بعد سومرہ لوگوں نے قبضہ کیا، یہ پانچ سو برس تک قابض رہے، ان کا پایۂ تخت مہاتم طور یا مھتم طور تھا۔[27]
زبان و ادب میں سومروں کا حصہ
سومروں کے دور میں سندھ کی تاریخ، سندھی زبان اور ان کے زبانی ادبی روایت والا داستانی دور تھا۔ اس دور میں سندھ کے اکثر عشقیہ داستانوں، جنگ ناموں اور سندھ کے بہادر سرداروں کے کارناموں کو بیان کرنے کی ابتدا ہوئی۔ سومروں کا دور عام فہم سندھی زبان والا دور تھا۔[28]
لوک داستانیں
عمر مارئی
بہاولپور سے ایک روایت ملی ہے جس کے مطابق عمر سومرو مروٹ کے قلعہ کا حکمران تھا اور مارئی کو وہیں قید رکھا گیا تھا۔
سوہنی ماہیوال
یہ قصہ بھی سومروں کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔[29]
سیف الملوک
یہ قصہ بھی سومروں کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ اس قصے میں سومرہ دور میں اروڑ کے علاقائی حاکم دلوراء اور اروڑ کے پاس دریا کے رخ بدلنے کاذکر ہے[30]۔
سورٹھ اور رائے ڈیاج
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تحقیق کے بموجب یہ داستان سومروں کے دور کی ہے۔[30]
مورڑو مانگرمچھ
اس قصے کا تعلق حکمرانی میں دلوراء کے دور سے ہے اور اس کا مرکز سون میانی اور کلاچی والا سمندری کنارا ہے، جو سندھ اور عراق کی شاہراہ پر واقع ہے۔ اس قصے کا مرکزی کردار مورڑو نامی ملاح ہے،جو ساتوں بھائیوں میں سب سے چھوٹا، لنگڑا اور جسمانی لحاظ سے کم تر تھا، جب شکار کے لیے سمندر میں گئے ہوئے بھائیوں کو مگر مچھ نگل گیا تو اس نے تحمل سے کام لیتے ہوئے مگر مچھ کو اپنی عقل مندی اور ترکیب سے پھنساکے مارا اور اس کے پیٹ سے بھائیوں کی لاش نکال کر دفن کیں۔[30]
سومروں کے دور میں صوفیا ئے کرام
ملتان کے بہاؤالدین زکریا ملتانی (1262ء-1182ء)، پاک پتن کے بابا فرید الدین گنج شکر (1275ء-1173ء)،اُچ شریف کے سید جلال الدین بخاری (غوث صاحب کے ہم عصر و مرید)، شیخ عثمان قلندر شہباز(وفات 1272ء) اور شیخ حسین المعروف پیر بٹھو (وفات 1248ء) سومرہ دور میں مشہور بزرگ گزرے ہیں۔[31]
موجودہ دور میں سومرو افراد کا سیاسی اثر و رسوخ
سندھ کے جاگیردار گھرانے سومرہ کے افراد مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اقتدار میں رہتے آئے ہیں۔ مختلف پارٹیوں کی نمائندگی کرنے کے باوجود وہ آپس میں اتفاق رائے سے رہتے ہیں اور خاندانی وفاداری نبھاتے ہیں۔[32]
نامور شخصیات
اللہ بخش سومرو (سندھ کے پہلے منتخب وزیرِ اعلیٰ)
مولوی نظر محمد سومرو (عالمِ دین)
مولانا اللہ بخش سومرو (عالمِ دین)
پروفیسر (ر) میر محمد سومرو (مؤرخ، شاعر،محقق، مفسِر قرآن، سوانح نگار)
پروفیسر ڈاکٹر طارق رحیم سومرو (کمپیوٹر سائنس دان،پروفیسر)
نصیر سومرو (انجینئر، شاعر، کالم نگار، صحافی)
فقیر محمد سومرو (محقق، کالم نگار)
پروفیسر ڈاکٹر الہٰی بخش سومرو (سابق پرنسپل و پروفیسر ڈاؤ میڈیکل کالج)
ڈاکٹر مولوی محمد ادریس سومرو (عالمِ دین، سابق ممبر اسلامی نظریاتی کونسل)
زبیر سومرو(بینکر)
محمد میاں سومرو (سابق گورنر سندھ، سابق چئیرمین سینیٹ، سیاست دان)
الٰہی بخش سومرو (سابق اسپیکر قومی اسمبلی،سیاست دان)
ڈاکٹر مہر عبدالحق سومرہ (محقق، مؤرخ، نقاد)
جنید سومرو (سیاست دان)
ڈاکٹر عبدالواحد سومرو (سابق رکن قومی اسملی، سیاست دان)
مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو (سابق سینیٹر )
ڈاکٹر عبد القیوم سومرو (سینیٹر، سیاست دان)
عبدالکريم سومرو (سیاست دان)
جاوید سومرو (صحافی)
ڈاکٹر یونس حیدر سومرو
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
17-چب راجپوت
https://www.facebook.com/historyofrajput001
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
18-نون راجپوت
نون قبیلے کا مورث اعلیٰ راجا نون جٹ بھٹی تھا۔ راجا نون دراصل جٹ بھٹی خاندان کی شاخ سے چندر ونشی تھا۔ نون گوت ‘گجر، جٹ اور راجپوت تینوں قبائل میں موجود ہے۔ ضلع ملتان کی تحصیل شجاع آباد کے شمال میں وہ نمایاں ہیں ـ۔انکی ایک شاخ جو ضلع لودھراں کی تحصیل کہروڑ پکا کی یونین کونسل نوقابل واہ میں آباد ہے۔اس شاخ کا مشہورخاندان رانا اللہ ڈتہ نون کا ہے جو دہلی کے قریب کسی تهانے واہن نامی جگہ سے ہجرت کر کے آئے اور سید جلال نے انہیں مسلمان کیاـ وہ اپنے نام کے ساتھ رانا لگاتے ہیں ـ شجرہ نسب نون،چنڑ, اُتیرا، کانجو اور کلیار کو راج وردھن جٹ بھٹی کے بیٹے دیکهاتا ہے ـ جو الگ الگ ذیلی قبیلوں کے مورث اعلیٰ بنے۔ ایک اور شجرے کی رو سے جے اور اُتیرا دونوں نون اور جکهڑ کے بھائی ہیں۔ نون سرگودھا ساہیوال ملتان لودھراں میں بھی ملتے ہیں جہانپر یہ زراعت پیشہ جاٹ قبیلہ مانے جاتےہیں۔
نون مشاہیر
ملک فیروز خان نون
ملک ظہور حیات نون
وقار النسا نون
طحیہ نون
ملک عدنان حیات نون
نون علاقے
نونانوالی
کوٹلی نوناں
نور پور نون
وانڈھی نوناں
چاہ نوناں والا
حلال پور نوناں
ظفر آباد نون
سردار پور نون
امین آباد نون
سلطان پور نون
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
19-منھاس راجپوت
منہاس سوریہ بنسی راجپوت ہیں۔
سورج بنسی راجپوتوں میں سب سے اعلیٰ نسل کے راجپوت ہیں جس کی ہندو بڑی حرمت کرتے ہیں۔
منہاس راجپوتوں کی ایک عظیم شاخ کا نام ہے۔ منہاس قوم کے جد امجد "لمہن ہنس" کا زمانہ 800 قبل مسیح بتایا جاتا ہے گویا مدت کے لحاظ سے یہ راجپوتوں کی بے حد قدیم قوم ہے۔
منہاس قوم راجا جوگ رائے نامی راجے کی اولاد ہیں۔
جو راجا جامبو لوچن (بانی شہر جموں و کشمیر)کی 71 ویں پشت میں تھا۔ [1] جامبو لوچن نے جموں کا شہر اپنے نام کی نسبت سے آباد کیا.
منہاس, جموال یہ راجپوت قبائل آپس میں بھائی بند ہیں اور ان کا نسبی تعلق رام چندر جی کے بیٹے " کُش" سے ہے۔
راجا جامبو لوچن کی اولاد پشت در پشت ریاست جموں پر حکومت کرتی رہی.
جامبو لوچن کی اولادوں کا تعلق چونکہ شاہی گھرانے سے تھا لہذا وہ بھی اپنے باپ کی نسبت سے جموال کہلایں.
منہاس در حقیقت راجپوتوں کے جموال خاندان ہی کی ایک شاخ ہیں۔ گویا نسل کے اعتبار سے منہاس اور جموال ایک ہی شخص کی اولاد ہیں۔
منہاس قوم کو منہاس اس کے جد امجد "ملہن ھنس" کے نام سے کہا جاتا ہے۔ لفظ "لمہن ھنس" کثرت استعمال سے "منہاس " بن گیا ہے۔
راجا جوگ رائے کے 2 بیٹے تھے بڑے بیٹے کا نام ملہن ہنس اور چھوٹے بیٹے کا نام سورج ہنس تھا۔ لمہن ہنس بہت طاقتور آدمی تھا اس کی اولاد بہت کثرت سے ہوئی۔ اُس نے ہر ایک لڑکے کو اپنی جاگیر تقسیم کر دی۔ اُس کی اولاد نے برخلاف آئین راجپوتاں کھیتی شروع کر دی۔ چنانچہ موضع پرگوال، چپراڑ، تھب اُن کے نام پر آباد ہیں۔ اور اس قوم کو منہاس کہتے ہیں۔
لملہن ہنس اپنے باپ کی حیات میں فوت ہوا اور راجا جوگ رائے نے راج کمک اپنے چھوٹے بیٹے سورج ہنس کو دیا۔ اپنے باپ کے بعد وہ راجا ہوا۔
منہاس قوم کے اب بھی جموں و کشمیر کے علاقوں میں کافی خاندان آباد ہیں۔
منہاس قوم پنجاب کے کم و بیش تمام اضلاع میں آباد ہے۔ منہاس سب سے زیادہ ضلع جہلم اور اس کے نواح میں آباد ہیں۔ دوسرے نمبر میں راولپنڈی کے اضلاع میں آباد ہیں۔ جبکہ آبادی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر سیالکوٹ میں آباد ہیں۔ ان اضلاع کے علاوہ یہ لوگ لاہور, گوجرنوالہ, گجرات, شخوپورہ, سرگودھا, شاہ پور, ملتان, مظفر گڑھ کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان , بنوں اور مڑرہ میں بھی آباد ہیں۔
منہاس، جموال اور جسروٹیہ کا جد امجد ایک ہی ہے اس لیے پاکستان میں سب منہاس ہی کہلواتے ہیں اور راجا ، رانا، چودھری ٹائٹل استعمال کرتے ہیں جبکہ جموں و کشمیر میں انھیں ڈوگرہ راجپوت کہا جاتا ہے اور یہ راجا کا لقب استعمال کرتے ہیں اور پنجاب انڈیا میں ٹھاکر کا لقب استعمال کرتے ہیں۔
منہاس قوم کے سات خاندان مشہور ہیں اور پنجاب میں جتنے بھی منہاس آباد ہیں اِنہیں سات خاندانوں میں سے ہی نکلے ہیں۔
منہاسوں کے سات خاندانوں کی تفصیل حسب ذیل ہے.
پہلے پہل یہ خاندان کشمیر میں چپراڑ, بھت اور پرگوال کے مقامات پر آباد ہوا. پرگوال کا نام راجا پرگو منہاس کے نام پر رکھا گیا، راجا پرگو منہاس پرگوال کا فرمانروا بھی تھا۔ بعداز راجا پرگو منہاس کی اولادیں اسلام سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئیں اور پاکستان کے شہر سیالکوٹ، جہلم، گوجرخان، راولپنڈی اور دیگر علاقوں میں قیام پزیر ہوئیں۔
2: منہاس جسروٹیہ
پہلے پہل یہ خاندان جموال سے الگ ہو کر کشمیر میں موضع مالتی تحصیل سوہلی میں آباد ہوا.
3: خاندان راجا چک دیو
یہ خاندان راجا چک دیو کے دوسرے فرزند رام دیو سے نکلا ہے۔ رام دیو کے دو بیٹے سنگا دیو اور جگو تھے۔ ان دونوں کی اولادیں سیالکوٹ, گورداسپور اور ہوشیار پور میں آباد ہوئیں. اس خاندان کو مہتہ کالقب بھی دیا جاتا ہے.
4: خاندان راجا سنگرام دیو
یہ خاندان کانگڑہ اور گورداسپور میں آباد ہوا.
5: راجا برج دیو کے بیٹے المل دیو کا خاندان
یہ خاندان راجا برج دیو کے دوسرے بیٹے المل دیو کی نسل سے ہے۔ اور پہلے پہل موضع سمبل پور میں آباد ہوا.
6: سیدو اور جنکھر دیو کے خاندان
راجا برج دیو کے بیٹے راجا نرسنگ دیو کے تین بیٹے تھے جن میں ایک بیٹا راجا ارجن دیو تو راج پاٹ کا مالک بنا جبکہ دوسرے دو بھائی جن کے نام سیدو اور جنکھر دیو تھے ایک منہاس خاندان کے بانی بنے. ان کی اولادیں مواضعات سم, توپ, جنڈیالہ اور سوہانجنہ میں آباد ہوئیں.
7: حکمان دیو کا خاندان
منہاس راجپوتوں کا یہ خاندان حکمان دیو کلیان دیو کی اولادوں پر مشتمل ہے جو مہاراجا مالدیو کا چھوٹا بھائی تھا۔ راجا مالدیو کی وفات 1513 ء کے لگ بھگ ہوئی. یہ خاندان پہلے پہل کشمیر کے علاقہ بلاوڑہ چندرکوٹ, عاقل پور اور کاستی گڑھ وغیرہ میں آباد ہوا. جموں کا مشہور راجا عجائب دیو یا عجب دیو اسی خاندان کا طشم و چراغ تھا۔
منہاسوں کے متذکرہ بالا ساتوں خاندان ابتدا میں زیادہ تر کشمیر میں آباد ہوئے تھے لہذا یہ بات یقینی حد تک درست یے کے یہ لوگ کشمیر سے پنجاب کی طرف نقل مکانی کر کے آئے ہوں گے. گویا پنجاب میں آباد تمام منہاس خاندان انہیں سات خاندانوں کے ابناؤ اخلاف ہیں۔ اب بھی جموں کشمیر میں منہاس قوم کی کئی گڑھیاں ملتی ہیں
منہاس مشاہیر
راشد منہاس
عمر منہاس
افضل منہاس
پکھڑال
پکھڑال راجپوت ہیں جو منہاس راجپوتوں کی ایک ذیلی گوت ہے۔
راجہ پرویز اشرف سابق وزیر اعظم پاکستان اور سابق سپیکر بھی پکھڑال راجپوت ہیں۔
آپ گاؤں " ڈھوک امب" روات چکوال روڈ تحصیل گوجرخان ضلع راولپنڈی کے رہنے والے ہیں۔
پکھڑال منہاس راجپوت کون ہیں ؟ مختصر تعارف :-
پکھڑال خطہ پوٹھوہار کے قدیم باسی ہیں ان کے آباؤ اجداد کا تعلق ایودھیا سے تھا رام چندر کی اولاد سے سورج بنسی راجپوت ہیں پکھڑال اعلی حیثیت کا قبیلہ ہے ان میں سے اکثر خاندانوں کو عسکری خدمات کے عوض نہری جاگیریں بھی ملیں مختلف تاریخی کتب کے مطابق اس قوم کے مختصر حالات یوں ہیں
جامو لوچن سے چھپنویں پشت پر راجہ جوگ راج تھا جس کے دو بیٹے ملن ہنس اور سورج ہنس تھے ملن ہنس کی اولاد منہاس کہلاتی ہے
ملن ہنس سے بیسویں پشت پر راجا پکھڑ دیو جموں کے حکمران خاندان کا فرد تھا ان دنوں پوٹھوہار پر باران شاہ ادڑہ چوہان حکمران تھا اس کی سلطنت میں بغاوت ہو گئ تو اس نے جموال قبیلے سے مدد کی درخواست کی راجہ پکھڑ دیو ڈھیری جنڈالہ ضلع جہلم آیا باران شاہ کے مخالفین کو شکست دی راجہ ادڑہ کی لڑکی سے شادی کر کے یہیں سکونت اختیار کر لی ڈیرہ جنڈالی کو راجدھانی کا درجہ دیا اور انتقال کے بعد یہیں دفن ہوا راجا پکھڑ دیو کی اولاد پکھڑال کہلاتی ہے
راجا پکھڑ دیو کی چوتھی پشت پر راجا بج خان حاکم ڈھیری جنڈالی تھا ، جس کے چار بیٹے راجا قمر عرف کور خان ، راجہ دولت خان عرف دھول خان تھا ، راجا جسامت عرف جسی خان ، راجہ بساط خان عرف باسی خان تھے ،
ان میں سے راجا کور خان نے کونتریلہ ، راجا دھول خان نے ڈھلہ ، راجا باسی خان نے پکھڑال ، اور جاسی خان نے سہالہ بسائے تھے
راجہ کور خان کی ساتویں پشت پر راجا ساگر خان تھا جس نے ساگری کا قصبہ آباد کیا ،راجا پکھڑ دیو کی چھٹی پشت پر راجا مائر بہکریو المعروف بہکریو تھا اس نے کلر کہار آباد کیا تھا ،
جبکہ راجا بیلی خان نے چک بیلی خان ، راجا دولت خان عرف دولو نے دولتالہ ،راجا لودھر نے اپنے بیٹے گل خان کے نام پہ گلیانہ پکھڑال راجا الہی بخش عرف جابو خان کے نام پر چک جابو اسلام آباد ، راجا ٹھکر خان نے دیبی پکھڑال ( دیوی) اور راجا مست خان نے مستالہ پکھڑال آباد کیے .
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
20-جرال راجپوت
جرال راجپوت تاریخ
History Of JARRAL
By Hamid Latif Jarral on Saturday, June 18, 2011 at 9:54 PM
www.jarralrajpute.webs.com
JARRAL By Words Mean Brave Warrior, Fighter .
- جرال راجپوت
جرال راجپوت جرال راجپوت ایک مسلمان راجپوت جرال راجپوت قبیلہ ہے۔جو کہ آزادکشمیر،پنجاب،پاکستان،میں موجود ہے۔جرال راجپوت اسلئے بھی مشہور ہے۔انھوں نے 670 سال راجوری پر بہی حکو مت کی۔۔ جو انسو یں صدی کے وسط میں برٹش راج کے سورج طلوع ہونے کے ساتھ اختتام پزیر ہوا۔ جرال راجپوت (راجہ) کا شاہی لقب مہا بہارت تک استمعال کرتے رہے۔مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں جرال (مرزا) کا شاہی لقب استمعال کرتے رہے۔ جرال راجپوتوں نے راجوری پر کامیاب حکومت کی۔اور راجوری کی ترقی میں اہم کدار ادا کیا-
مرزا اور راجہ کے لقب مرزا اور راجہ کے لقب-
مسلم راجپوتوب کی اکثریت راجہ کا لقب استمعال کرتی ہے۔ بہت سے مسلم راجپوتوں کو دہلی کے حکمران اور مغل بادشاہ سے ملے تھے۔ ین خطابات میں مرزا۔(شہزادہ) ملک، شیخ،نواب،سردار،خان،چودھری شامل ہیں۔ جیسے کے ہم پہلے زکر کر چکے ہیں ۔ کے راجہ تمام راجپوتوں کا لقب ہے۔ مرزا ایک فارسی زبان کا لفظ ہے۔ یہ لقب راجپوتوں میں جرالوں نے ااستمعال کیا۔ جرال راجپوتوں نے مغلوں حکمرانوں کی بہت سی جنگوں میں مدد کی۔ اور بطور فاتحین سامنے آئے اس کے بعد جرال راجپوتوں کو مرزا کا شاہی لقب ملا۔ راجوری کے جرال راجہ نے مغلوں کی حکومت کو تسلیم کیا ۔ اور مغلوں کی بہت سی فاتح جنگوں میں مغلوں کا ساتھ دیا۔ ان دنوں میں مغلوں نے جرال حکمرانوں کو انکی بہادری پر مرزا کا شاہی لقب دیا۔ مست خان جرال جو ایک جرال راجہ تھے۔ آپ نے مغل بادشاہ شاہ جہاں کی کئی جنگوں مین مدد کی۔ شاہ جہاں نے پچاس ہزار کی جاگیر آپ کہ بطور تحفہ پیش کی۔ ایک دوسرے کے خاندانوں میں سے شادیاں کرنے کی وجہ سے جرالوں اور مغلوں کی حکومت کے درمیان اک تعلق پیدا ہو گیا۔ دونوں طرف کے حکمران ایک دوسرے کی ضروریا کو سمجھتے اور ایک دوسرے کی حکومت کو مستحقم کرنے میں مدد کرتے۔ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے جرال راجہ تاج الدین خان جرال سے گزارش کی کے وہ اپنے بیٹے شہزادے نواب خان کا رشتہ مغل شہزادی کے لیے عطا فرمائے۔ نواب خان جرال کی مغل شھزادی سے شادی کے بعد جرال خاندان کے لوگوں کو ہر کوئی مرزا کے لقب سے پکارنے لگا- یاد رہے جرال خاندان کو بہادری اور جنگوں میں مغل حکمرانوں کا ساتھ دینے اور مغل شہزادی سے شادی کرنے پر دیا گیا-
** جرال راجپوتوں کے خطابات**
کچھ کم صاحب علم لوگ یہ بات کہتے ہیں کے ان لوگوں کی تین تین قومیں ہے۔ اسلئیے ہم نے یہاں پر جرال راجپوتوں کے لقب اور خطابات کی وضاحت کرنا بہت ضروری سمجھی۔ جیسے کے آپ سب جانتے ہیں کے جرال راجپوت ایک مستقل مسلم راجپوت قبیلہ ہے۔ اسلئیے جرال راجپوت راجہ کا لقب استمعال کرتے ہیں۔ اور مرزا کا لقب جرال راجپوتوں کو مغل حکمرانوں نے دیا ۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کے جرال مغلوں کے رشہ دار بھی ہو گے تھے اسلیے مغلوں نے جرالوں کو مرزا کا لقب دیا۔ لیکن آپ اس بات کو فراموش نہیں کر سکتے کے جرال راجپوتوں نے مغلوں کو ببہت سی جنگوں میں مددکی۔ جن میں مغلوں کو فتح حا صل ہوئی ۔ اور اس میں جرال راجپوتوں نے بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اور اس بناہ پر مغل حکمراں جرال راجپوتوں کو مرز کا لقب دینے پر مجبور ہوگے۔
اسلام کی قبولیت اسلام کی قبولیت-
1187 ہجری میں کلونر کی جنگ ک بعد ۔ حقیقت میں جرال راجپوتوں کو شکہست ہوئی۔راجہ صاحب چتر شیا جرال محمد غوری ک دربار میں حاضر ہوا۔محمد غوری نے صاحب چتر کو اسلام کی دعوت دی۔ راجہ نے اسلام کی پہلے بہت سی باتیں سنی تھی۔۔ چنانچہ راجہ صاحب چتر شیا جرال نے اپنے خاندان اور پیروکاروں سمیت اسلام قبول کر لیا۔ اور جرال راجپوتوں کا نام ہندوستانوں کی تاریخ میں اول مسلمان راجپوتوں کے طور پار جانا جانے لگا۔راجہ صاحب چتر شیا جرال اسلام کی روایات کی پیروی کی اور اپنا نام تبدیل کیا۔راجہ ناے اپنا نام راجہ شیر افگن خان رکھا۔راجہ کے بیٹے ،کنور نیل سنگھ کا نام راجہ نے راجہ نور الدین خان جرال رکھا-
فتح راجوری
راجہ نور الدین خان نے ہجری 1194میں راجوری(کشمیر) پر حملہ کیا ۔اور اس پر قبضہ کر لیا۔۔ جرالوں نے راجوری پر پہلی مسلم راجپوت حکومت قائم کی۔ جو 670 سال تاک قائم رہی۔ راج شیر افگن خان کی وفات کے بعد راجہ نور الدین خان جرال راجہ بنے۔ دوسرے راجپوت راجوں اور آپ کے ہندو جرالوں رشتہ داروں سے تعلق ختم ہو چکے تھے۔ چنانچہ آپ نے کشمیر جانے کا فیصلہ کیا۔اس جگہ کو راجوری،راجور کا نام دیا۔۔ مطلب راجوں کی رہنے والی جگہ۔جرالوں نے ڈوگروں اور مہاراجہ سے جنگ جاری رکھی اور ان کے زیر حکقمت کرنے سے انکار کیا۔ وہاں برٹش آگے اور ڈوگراں کی مدد کی ائر جرالوں کو شکحست دی۔ پعر بھی جرالوں نے ڈوگرہ راج کے کے خلاف جنگ جاری رکھی-
کشمیر کے بادشاہوں سے تعلقات-
جرال اور کشمیر کے حکمران (1349تا1820) 1349 میں شاہ میر کشمیر کے پہلے مسلمان حکمران بنے۔اور اگلی پانچ صدیوں تک کشمیر پر مسلمانوں نے حکومت کی۔ان میں مغل بھی شامل ہیں جنھوں نے (1525تا1751) تک حکقمت کی۔افغان درانی بادشاہوں نے(1747تا 1820) تک حقومت کی۔۔ جرال راجپوتوں نے راجوری پر 1820تک حکو مت کی اور کبھی کسی بہرونی طاقت نے حملہ کرنے کی کوکشیش نہیں کی۔کبھی کسی ہندو یا مسلمان حکمران نے جرالوں پرحملہ نہیں کی۔۔ جرال شان و شوکت کے ساتھ اور دوسرے مزاہہب اور مختلف قوموں کے ساتھ رہے۔ کشمیر میں سیکھ رنجیت سنگھ کے ماتحت تھے۔جرالوں اور سیکھوں کے درمیان ہمیشہ ہی اختلافا ت ہی رہے
- -- زیلداری نظام (1846تا1947)
-زیلداری نظام (1846تا1947) جرال راجپوت قبیلے کے کچھ لوگوں نے ڈوگرہ حکومت کے لیے بطور زیلدار اور نمبردار کام کیا۔ ان زیلداروں کا نظام سو سال تک چلتا رہا۔ زیلداری نظام کے لیے جرال راجپوتوں کی مستقل طور پر دو خاندان تھے۔ ایک خاندان بھروٹ سےپورے 32 گاوں کے ساتھ اور ایک بل جرال سے 16 گاوں کے ساتھ ۔ * راجوری کے مشہور زیلدار* مرزا پیر بخش جرال (بھروٹ ،جرال) مرزا خداداد بخش جرال (بھروٹ ،جرال) مرزا محمد حسین جرال (بھروٹ ،جرال) مرزا راج محمد جرال ( بل ،جرال) مرزا اعبدالطیف جرال ( سیما، جرال -
1947 میں جرال خاندانوں کی ہجرت-
1947 میں جرال خاندانوں کی ہجرت 1947میں مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کا ہندوستان سے الحاق کا اعلان کے دیا۔جس کے بعد جرال خاندانوں نے آزاد کشمیر اور پاکستان کی طرف ہجرت شرو ع کر دی۔ اور ان مقامات پر آگے۔میرپور،کوٹلی۔کھوئیرٹہ،کوٹ جیمل، گجرات،(لالہ موسیٰ،کھاریاں) سیالکوٹ، جلالپور جٹاں، گو جرانوالہ، حافظ آبا، لاہور،جہلم، راولپنڈی،ٹیکسلا،اٹک،اور مردان وزیرآباد ۔ ان علاقوں میں جرالوں کے بہت سے خاندان موجود ہیں اور ہہ اب ان علاقوں میں جرالوں کا شمار مظبوط ترین قبیلوں میں ہوتا ہے۔ جرالوں نے یہاں پر اپنے آپ کو مستحقم کرلیا ہے اور ایک فخریہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اور یہاں کے مقامی راجپوت قبیلوں سے تعلق قائم کیے ہیں۔ میرپور مرکزی شہر میں جرال کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ جا تلاں، پنجیری ، پل منڈا، اور ارد گرد کے علا قو ں میں بھی آباد ہیں۔ میرپور کے مشہور راجپوتوں نے اپنے جرال راجپوت بھایئوں کی اس وقت بہت مدد کی۔ جن میں جنرل اکبر خان ہف پنجیری ، زیلدار راجہ سجاول ، جاگیردار راجہ اللہ داد خان، قابل زکر ہیں۔ 1947میں بھی اور اس وقت بھی جرال آزاد جموں کشمیر اسمبلی کے ممبر بھی ہیں۔ جو جرالوں کی اور راجوری میں کئ سو سالوں کی حومت کی نما ئند گی کررہے ہیں،
راجہ بسی جرال ( گجرات)
راجہ صدیق جرال (اٹک)
مشتاق احمد مرزا ( جہلم)
راجہ راحت اللہ جرال ( چیف سیکٹری)
مرزا اختر اقبال (ر۔ ایدیشنل سیکٹری) ،
مرزا رشید جرال
اور ،مرزا محمد خان جرال
دونوں جموں کشمیر (انڈیا) اسمبلی کے تھے * اسمبلی کے لئے نئے جرال امیدوار
* میجر(ر) راجہ منصف داد خان جرال ( چڑہوئی ، آزاد کشمیر)
راجہ تنویر جرال (گجرات)
مرزا خادم جرال ( گوجرانوالہ)
مرزا شفیق جرال ( کوٹ جیمل)
بیرسٹر شایہ مرزا (اٹک) مرزا کامران جرال ( حافط آباد)
پروفیسر مرزا افضل جرال ( میرپور)
*جرال جو اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے*
میجر(ر) راجہ منصف داد خان جرال
راجہ صدیق جرال
راجہ بسی جرال
مشتاق احمد مرزا
مرزا محمد شفیق جرال
اور اس کے علاوہ کچھ جرالز کے نام
راجہ امجد لطیف چیئرمین زکوۃ کمیٹی مردان اینڈ کونسلر یونین کونسل بغدادہ مردان-
مرزا صادق جرال (ڈاریکٹر کشمیر سنٹر لاہور)
محمد نواز جرال منہاج القرآن بارسلونا (اسپین) کے نائب صدر ہیں
اور انکے بیٹے محمد شہباز جرال ندائے پاکستان بارسلونا (اسپین) کے نائب صدر ہیں۔
- مشہور جرال راجے مشہور جرال راجے
راجہ عنایت اللہ خان جرال راجہ عنایت اللہ خان جرال ،راجہ
تاج الدین خان جرال کے پو تے تھے۔ ان کے بارے میں ہم اوپر زکر کر چکے ہیں۔آپ جنوبی کشمیر کے گورنر منتخب ہوئے۔(پنجاب چیف ریکاڈز) آپ نے راجوری میں بہت سے باغات بنوائے ۔عنایت پور میں ایک محل بنوایا۔
نوشہرہ اور منور میں قلعے بنویائے۔ راجہ رفیع اللہ خان جرال۔ آپ راجہ عنایت اللہ خان جرال کے پوتے تھے۔آپ کے دور حکومت میں راجہ دھرب دیو (جموں) سرحد کی تقسیم پار تصادم ہوا۔اس جنگ میں جموں کے راجہ کو گرفتار کر لیا گیا ۔پھر اسےواپس بھیج دیا آپ نے منڈی محل میں سے کئچھ اینٹیں نکال کر راجوری لے گے اور اپنے محل مین لگائی۔بعد میں مہا راجہ گلاب سنگھ کی ارضی پار وہاں سے اینٹین اتار دی گی۔
مشہور جرال شخصیت *
ڈاکٹر محمد افضل جرال ( ایسو سویٹ پروفیسر سرجری ،
(sims lahor محمد نعیم افضل جرال ( سسٹم نیٹورک انجنئیر، ایم-ایس-این کمپوٹر انجنئیر، امریکہ)
ڈاکٹر راجہ عطا اللہ خان جرال ( وزیرآباد، ایم -بی-بی-ایس، ایف-سی-ایس)
ڈاکٹر راجہ بقاء اللہ خان جرال ( وزیرآباد، ایم-بی-بی-ایس)
مرزا محمد اقبال جرال ( بی-سی-ایس- کیمیکل اینجینرنگ پنجاب)
ڈاکٹر ارشد اقبال جرال ma.cms.dms.dipm.mba.phd) MA, CMS, DMS, DipM, MBA, PhD Member Institute of Bankers Member Chartered Institute of Marketing Member Association of MBAs Member ACCA Member Association of Project Managers -
جسٹس راجہ محمد صادق (مرحوم) ولد راجہ ولی داد مردان-
-ائیر فورس میں جرال
شخصیات ] ائیر فورس میں جرال شخصیات
ائیر کمانڈر نسیم اللہ خان جرال
ائیر وائس مارشل راجہ امین اللہ خان جرال سکارڈن لیڈر
(ر) محمد اقبال جرال
*پاکستان آرمی مین جرال شخصیات*
کرنل حسن خان جرال (فاتح گلگت،حلال کشمیر)
بریگیڈیئر خالد اللہ خان جرال بریگیڈیئر
راجہ راوف اللہ خان جرال ( وزیرآباد)
بریگیڈیئر رحمان جرال (ایس-ایس-جی)
بریگیڈیئر ریاض جرال
بریگیڈیئر محمد منیر جرال (ستارہ امتیاز بریگیڈئیر
ڈاکٹر طارق محمود جرال
بریگیڈئیر منیر جرال
کرنل فقیر اللہ جرال
کرنل ڈاکٹر خداداد جرال
کرنل ڈاکٹر شکیل جرال
کرنل شجاع حسن جرال
کرنل وجاہت حسن جرال
کرنل نزیر جرال کرنل
ڈاکٹر ضیاء اللہ جرال
کرنل محمد اعظم جرال
کرنل علی بہادر جرال
لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر ضیاء اللہ جرال ( ایم-بی-بی-ایس)
لیفٹیننٹ کرنل کفیل احمد جرال
لیفٹیننٹ کرنل عظیم اللہ خان جرال
لیفٹیننٹ کرنل کمال افضل جرال
لیفٹیننٹ کرنل عمران ارشد جرال ( شہید مشن راہ راست ) سوات 2010
لیفٹیننٹ کرنل راجہ اعبداللہ خان جرال لیفٹیننٹ کرنل راجہ جمیل اللہ خان جرال (ایم-پی-یے
) 1970
میجر عامر سلیم جرال
میجر محمد خان جرال ( شیر جنگ)
میجر عرفان اللہ خان جرال (ایس-ایس-جی)
میجر اعبدالعزیز جرال
میجر جنگباز جرال
میجر مجید جرال
میجر نجیب جرال
میجر سلیم جرال
میجر طاہر ظاہر جرال
میجر یعقو ب جرال
میجر خلیل جرال
میجر قدرت اللہ جرال
کیپٹن سرور جرال
کیپٹن اعبدالرحمٰن جرال
کیپٹن فقیر اللہ جرال
کیپٹن خورشید عالم جرال
کیپٹن فرمان علی جرال
کیپٹن عدنان ارشد جرال کیپٹن مبین تجمل جرال (کھوئی رٹہ)
کیپٹن احسن منیر جرال
کیپٹن سعد منیر جرال
کیپٹن ضیاء جرال
کیپٹن اویس جرال
لیفٹیننٹ مرزا دوست محمد جرال
لیفٹیننٹ خلیل شہید
کپٹن ظفر جہلم
*** جنگ عظیم دوم میں حصہ لینے والے جرال***
صوبیدار نبی بخش جرال
صوبیدار غلام محی الدین جرال
صوبیدار بدر حسین جرال
صوبیدار میجر فتح محمد خان جرال مرحوم(کھوئی رٹہ)
صوبیدار وزیر حسین جرال مرحوم (کھوئی رٹہ)
صوبیدار خان محمد جرال
صوبیدار عامر حمزہ جرال
صوبیدار مرزا نزیر جرال مرحوم (گو جرانوالہ)
صوبیدار مرزا اقبال جرال
صوبیدار مرزا بشیر (کھوئیرٹۃ)
صوبیدار علی احمد جرال مر حوم (لالہ موسیٰ)
صوبیدار دلاور خان جرال مرحوم (میر پور)
صوبیدار مرزا محمد رفیق جرال (گوجرانوالہ)
صوبیدار غلام نبی جرال
حوالدار راجہ روف اللہ خان جرال
راجہ ولی داد ولد راجہ شاہسوار
راجہ سیف اللہ جرال ولد راجہ شاہسوار بیگہ کھاریاں
راج محمد جہلم اینڈ میر پور
پاکستان نیوی میں جرال شخصیات
کپٹن منشی خان میرپور
کمانڈر عزیز مرزا
کمانڈر محسن مرزا
لیفٹیننٹ کمانڈر افضل الرحمٰن مرزا
ماسٹر چیف پیٹی آفیسر مرزا طارق (گجرات)
سابق ماسٹر چیف پیٹی آفیسر مرزا صادق (گوجرانوالہ)
سابق فلیٹ چیف پیٹی آفیسر مرزا وقار اقبال
سابق پیٹی آفیسر خورشید احمد جرال
لیفٹینٹ راجہ سعید ولد نصیب اللہ
(Hamid Latif Jarral Rajpute)
Contact:
hamidrajpute@yahoo.com website: www.jarralrajpute.webs.com
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
21-الپیال راجپوت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
22-قائم خانی راجپوت
نواب قائم خان: دہلی سلطنت کے امیر اور قائم خانی قبیلے کے صدر
پرمار اگنی ونشی چوہان اگنی ونشی تنور چندرونشی جوئیہ چندرونشی مداڈھ سوریا ونشی بڈ گرجر سوریا وشی پنڈیر سوریہ ونشی براہ سوریا ونشی گوڑھ سوریا ونشی راگھو سوریا ونشی تاؤنی جادوبنسی سردیا پنوار کی ذیلی گوتھ جگدیہ پنوار کی ذیلی گوتھ قائم خانی چوہان کی ذیلی گوتھ گوریواہا چوہان کی ذیلی گوتھ جاٹو تنور کی ذیلی گوتھ سترالو تنور کی ذیلی گوتھ کالیا تنور کی ذیلی گوتھ دیس لانگوڑھ کی ذیلی گوتھ رستمی پنوار سردےپنوار کا قبیلہ قبول پور بڑا دیس لان کی ذیلی گوتھ قبول پور چھوٹا دیس لان کی ذیلی گوتھ لال خانی بڑگرجر کی ذیلی گوتھ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
23-سلہریا راجپوت
سلہریا Sulehria/Salaria راجپوت تاریخ
معزز قارئین اور اس صفحہ کے دوستو! راجپوت گوتوں میں ایک مشہور ومعروف گوت "سلہریا" بھی ہے جو پنجاب میں مختلف شہروں میں کثیر تعداد میں آباد ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں ترقی یافتہ بھی ہے
عام طور پر مؤرخین اور مصنفین نے سلہریا قوم کو چندربنسی قرار دیا ہے جس کے آباءواجداد ایک طویل عرصے تک پنجاب پر حکمرانی کرتے رہے جن کا دارالحکومت لاہور شہر تھا سلہریا قوم کا ذکر پاک وہند پر لکھی گئی کتب بالخصوص راجپوت قوم کی تاریخ پر مبنی تمام کتب میں موجود ہے.
ٹھاکر کاہن سنگھ بلاوریہ (جائنٹ سیکرٹری راجپوت سبھا جموں) اپنی مشہور کتاب "تواریخِ راجپوتاں ملک پنجاب" باب پنجم کے تحت "تذکرہ سلہریا راجپوت" کے عنوان سے سلہریا کا تعارف لکھا ہے مصنف کے مطابق جموں میں بالعموم اور علاقہ رام گڑھ میں بالخصوص بڑی تعداد میں سلہریا آباد ہیں جو بہت سے گاؤں کے مالک،ذیلدار اور نمبردار ہیں ضلع گرداسپور کا علاقہ "سلہر" انھی کے نام پر مشہور ہے خاندان جموال کے ساتھ ساتھ دیگر راجپوتانِ علاقہ سے بھی ان کی رشتےداریاں قائم ہیں
سر ڈیزل ابٹسن نے اپنی کتاب "پنجاب کاسٹس"میں راجپوتوں کی تاریخ اور قبائل کے سلسلہ میں سلہریا ذکر کیا ہےجس سے واضع ہوتاہے کہ سلہریا خاندان کی واضع اکثریت کا تعلق سیالکوٹ سے ہے بعض مؤرخین کی تحقیق کے مطابق سیالکوٹ کے بانی راجہ سل کا تعلق سلہریا قوم ہی سے تھا سیالکوٹ کا علاقہ "سلہر" اسی قوم کی نسبت سے معروف ہے اسی طرح گرداسپور اور جموں کے "سلہر" بھی سلہریا قوم کے مسکن ہیں جہاں سینکڑوں دیہات اور بستیوں میں یہ لوگ آباد ہیں قیام پاکستان کے بعد یہ علاقہ "سلہر" دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے کچھ علاقہ پنجاب پاکستان کا حصہ ہے اور بقیہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں شامل ہے
راجگانِ سلہریا کا شجرہ ِنسب......
یوں تو سلہریا خاندان کا شجرہ نسب متعدد کتابوں میں دیا گیا ہے لیکن زیرِنظر شجرہ ایک مستند راجپوت تاریخ سے ماخوذ ہے اس کتاب کا نام "نجم التواریخ" ہے جس کے مصنف منشی عاشق علی خاں ناطق ہے ان کا تعلق کلانور کے پنوار راجپوت خاندان سے تھا موصوف نے بعض تاریخی کتب کی مدد سے سلہریا قوم کا شجرہ بھی لکھا ہے جس کے مطابق راجگان سلہریا کے اسماء درج ذیل ہیں
مہاراجہ کیدار---->راجہ سنگل----> راجہ روہنت----> راجہ ہنگل----> راجہ سلوم ----> راجہ اودل----> راجہ بھرگوپتی----> راجہ چوم ----> راجہ ہیم آریہ----> راجہ اسکر ----> راجہ کسمتی----> راجہ کھڑک پتی ----> راجہ رگھل ----> راجہ شرم پتی ----> راجہ جے پتی ----> راجہ سوسرش ----> راجہ اجے سی ----> راجہ گوم ----> راجہ سنل ----> راجہ بلاس پال ----> چندر پال ----> راجہ جےپال----> راجہ انندپال ----> راجہ سل ----> راجہ سکت مکیر
منشی عاشق علی ناطق کلانوری اپنی مشہور زمانہ کتاب "تواریخِ اقوامِ پنجاب" نجم التواریخ میں مختلف تاریخی کتب کے حوالے سے خاندان سلہریا سلطنت لاہور کے حوالے سے لکھتے ہیں سلہریا راجپوت پنجاب میں ایک مشہور قوم ہے اضلاع سیالکوٹ، گرداس پور میں اس خاندان کی آبادی کثیرالتعداد میں موجود ہے اسی خاندان کے مؤرث اعلٰی مہاراجہ کیدار نے اپنی قوت بازو سے پنجاب میں ایک زبردست سلطنت قائم کی. دارالسلطنت لاہور میں رہ کر اس خاندان نے برس ہا برس حکمرانی کے ڈنکے بجائے
مہاراجہ کیدار سلہریا والئِ لاہور توران کے شاہان کیخر داور کیقباد کا ہم عصر تھا اور کیدار کے ساتھ اُنکی معرکہ آرائیاں ہوئیں یہ لڑائیاں ۱۳۱۷ ء قبل از مسیح وقوع میں آئیں یہی نہیں توران کےایک مشہور بادشاہ افراسیاب کے ساتھ ۱۲۴۳ ء قبل از مسیح بھارت درش پر یورش کی تو کیدار کا بیٹا سنگل جو ان ایام میں لاہور کا حکمران تھا افراسیاب کے مقابلے میں سینہ سپر ہو کے لڑا
۱۰۲۳ ء اس خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہوا جب لاہور کا آخری سلہریا راجہ جےپال دوم سلطان محمود غزنوی کے مقابلے میں راجہ کی امداد کرتا ہوا مارا گیا مندرجہ بالا بیان سے ملتے جلتے بیان دیگر بہت سے مؤرخین اور مصنفین نے اپنی اپنی کتب میں تحریر کئے ہیں تاریخِ مخزن پنجاب، پنجاب کاسٹس،تواریخِ اقوام کشمیر، تاریخِ اقوام پونچھ، تاریخِ سیالکوٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں
"تایخ مخزن پنجاب" مفتی غلام سرور قریشی قادری کی مشہور زمانہ تصنیف ہے جو ۱۸۷۷ء میں شائع ہوئی یہ کتاب پنجاب کی تاریخ بالخصوص شہروں قصبات اور دیہات کے حوالے سے مکمل انسائکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے اس کتاب میں پنجاب کی چیدہ چیدہ اقوام کا ذکر ہے جس میں سے ایک قوم سلہریا راجپوت بھی ہے
سلہریا راجپوت عنون کے تحت لکھتے ہیں کہ یہ قوم چندر بنسیوں کی اولاد کہلاتی ہےاور اپنا سلسلہ نسب راجہ سنگل تک پہنچاتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ یہ راجہ بعہد افراسیاب( جو ایران اور توران کی طرف سے ہند پر حملہ آور ہوا تھا ) اس ملک پر حکمرانی کرتا تھا جب افراسیاب دریائے سندھ پر پہنچا تو اس راجہ نے اطاعت قبول کرلی اور اپنا ملک محفوظ رکھا پھر جب سلطان سبکتگین غزنوی نے ہند پر چڑھائی کی اس وقت راجہ جے پال اسی خاندان میں سے پنجاب کل ملک پر قابض تھا بمقابلہ پیش آیااور آپس میں سخت جنگ ہوتی رہی آخر بلا فیصلہ سلطان غزنی واپس چلا گیا بعد ازاں سلطان محمود غزنوی نے ہند پر یورش کی تو راجہ جےپال نے کل ہند کے راجاؤں کی مدد لی اور بڑے اجتماع کے ساتھ سلطان کے مقابلے کو گیا اٹھارہ روز باہم لڑائی رہی آخر مقابلے کے وقت راجہ کا ہاتھی میدان جنگ سے خود بھاگا ہر چند فیل بان نے بہت کوشش کی پر ہاتھی پیچھے کو نہ پھرا اسی واسطے ہند کے لشکر میں ہزیمت وقوع میں آئی اور ہزاروں قتل ہوئے اس وقت راجہ اگرچہ جنگ کے میدان سے گھر سلامت پہنچا پر نہیت شکستہ خاطر اور دل تنگ تھا آخر اس نے اپنے بیٹے اننگ پال کو تخت نشیں کیا اور خود آگ میں جل کر مر گیا
اننگ پال نے سلطان محمود کی اطاعت قبول کرلی اور دوبارہ سلطنت پائی مگر سلطان نے چار برس بعد پھر راجہ سے رنجیدہ ہوکر اسکا راج چھین لیا اور اننک پال دکن بھاگ گیا اور وہیں وفات پائی اس کی اولاد بھی سلطنت کے بعد پریشان حال ہوگئی
جب سلطان فیروز شاہ کا وقت آیا تو راجہ سل کا بیٹا راجہ سکت مکیر فوج کا افسر قرار پایا اسکی فوج شیخا کی رفع فساد کے واسطے مامور ہوئی جو پنجاب میں سخت فساد برپا کرکے کئی مرتبہ لاہور کو لوٹ چکا تھا راجہ سکت مکیر نے دریائے چناب پر زیر کوہ جموں ڈیرہ کیا اور شیخا کے فساد کو روکنے میں بڑی بہادری کی تھوڑی مدت کے بعد راجہ سکت مکیر نےپنجاب میں بہت سے علاقوں میں اپنا تسلط قائم کرلیااور اپنی علیحدہ سلطنت قائم کرلی اور قصبہ سل بھری اپنے باپ سل المخاطب بہ سلہریا آباد کیا پھر اسکے بعد کئی پشت تک اسکا راج قائم رہا
راجہ سنہپال جو پرتھی پال کا بیٹا تھا(بعہد سلطان بہلول لودھی) مع اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کے مسلمان ہوگیا اس کی وفات کے بعد اسکی بہت اولاد باقی رہی اور آپس میں نزاع ہوکر اس قدر تلوار چلی کہ بہت مارے گئے اور ریاست تباہ ہوئی
اب یہ سلہریا راجپوت مسلمان علاقہ شکر گڑھ اور نارووال وغیرہ میں موجود ہیں راجہ سنہپال کا ایک بھائی جیت پال ہندو رہا اسکی اولاد ابھی تک ہندو چلی آتی ہے..... غلام اکبر ملک اپنی تالیف " راجپوت تایخ کے آئینے میں" میں سلہریا عنوان کے تحت لکھتے ہیں پنجاب میں سلہریا راجپوت کا اصل مرکز ضلع سیالکوٹ کا علاقہ رہا ہے سیالکوٹ میں انکی بے شمار گڑھیاں گاؤں آباد ہیں اور یہ لوگ یہاں آبادی کا خاطر خواہ حصہ سمجھا جاتا ہے اسی قبیلے کے بے شمار خاندان لاہور میں بھی آباد ہیں اس کے علاوہ اکا دکا خاندان گوجرانوالہ، راولپنڈی،جہلم،گجرات،سرگودھا،ملتان،مظفرگڑھ میں بھی آباد ہیں پنجاب کے علاوہ انکے کئی خاندان جموں و کشمیر میں بھی آباد ہیں اور صوبہ سرحد کے ضلع بنوں میں بھی سلہریا راجپوت کے چند خاندان ملتے ہیں سلہریا قوم کا تذکرہ قدیم کتب تواریخ میں ملتا ہے راجہ جےپال اس خاندان کا چشم و چراغ ہے یہ وہی راجہ جےپال ہے جس کے غزنوی حکمرانوں کے ساتھ معرکے تایخ ہند میں جلی حروف سے لکھے جاتے ہیں راجہ جےپال کے بعد اسکا جانشیں راجہ انندپال تھا جو بظاہر ہے سلہریا راجپوت ہی کا سپوت تھا حقیقت ہہ ہے کہقبل تاریخ خطہ پنجاب میں آباد چلا آتا ہے کئی روایات ہمیں بتاتی ہیں کہ اس خاندان کے جد اعلٰی کا نام راجہ سہگل تھا اسکا دور تو نامعلوم ہے تاہم کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہندوستان کے قبل از مسیح کے مشہور راجہ چندر گپت کی اولاد میں سے تھا اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سلہریا خاندان کی تاریخ بے حد درخشاں نظر آتی ہے اور یوں لگتا ہے اس خاندان کے لوگوں پنجاب پر ہزار سل سے بھی زیادہ عرصہ تک حکمرانی کی ہے
جناب آتش کاشمیری نے اپنی معروف کتاب "سرزمین ظفروال" میں سلہریا راجپوت کی شاندار تاریخ رقم کی ہے موصوف لکھےے ہیں مؤرخین کی تحقیق کے مطابق سلہریا قوم کا سلسلہ نسب راجہ سنگل تک پہنچتا ہے جو دریائے سندھ کے گردونواح میں حکمرانی کرتا تھا جب سلطان سبکتگین نے ہندوستان پر چڑھائی کی تو اس وقت نواح پنجاب میں اسی خاندان کا ایک فرد راجہ جےپال حکمران تھا
سلطان فیروز شاہ کے دور میں اسی خاندان کا ایک فرد سکت مکیر ترقی کرکے فوج کا اعلٰی افسر بن گیا جن دنوں پنجاب پر شیخا کھوکھر نے حملے شروع کئے اور کئی قصبات اور دیہات کو تہس نہس کرڈالا تو اس پر سلطان نے سکت مکیر کو شیخا کھوکھر کی سکوبی کیلئے مامور کیا اس نے ریاست جموں کی حدود میں دریائے چناب کے کنارے ڈیرے ڈال دئے اور شیخا کھوکھر (جو جالندھر تک لوٹ گھسوٹ کرتا ادر کئی دفع لاہور کو بھی تاراج کرچکا تھا) کے دانت کھٹے کر کے علاقہ میں امن و امان بحال کیا اور انہی دنوں اس نے قصبہ سل مہری (کوٹ سلمیر) کو اپنے باپ جس کا لقب سلہریا تھا کے نام پر آباد کیا رفتہ رفتہ اس نے پنجاب کے کئی اضلاع پر اپنا تسلط قائم کرلیا
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اس قوم نے اپنی فوجی خدمات کے پیش نظر انگریزوں کو بہت متاثر کیا چنانچہ ذیل سسٹم رائج ہوا تو حکومت برطانیہ نے سب سے پہلے سس علاقہ پر سلہریا قوم کے افراد محمد افضل (سبزکوٹ) اور کہماں ( روپوچک) کو ذیلدار مقرر کیا پھر تو یہ سلسلہ اس وقت جاری رہا جب تک حکومت پاکستان نے ذیلیں ختم نہ کر ڈالیں سیالکوٹ گزٹئر کے صفحات سلہریا قوم کی تعریف اس قدر رطب اللسان ہیں اس کی وجہ صوبیدار ہاشم خان سلہریا کی ذات ہے افغانستان کی ایک لڑائی میں محاصرہ کے دوران لارڈ بری طرح زخمی ہوا تو صوبیدار ہاشم خان نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر لارڈ مذکورہ کو گولیوں کی بوچھاڑ میں اپنے کندھوں پر اٹھا کر بحفاظت کیمپ تک پہنچایا مرنے سے پہلے آپ کی بلند ہمتی اور دلیری کے پیش نظر لارڈ نے حکومت برطانیہ کو ایک شفارشی نوٹ لکھا چنانچے لڑائی کے اختتام پر آپکو صلے میں کئی مربعے اراضی اور تمغے ملے انگریز حکومت نے یہیں تک اکتفاء نہ کیا بلکہ صوبیدار صاحب کی وفات کے بعد ان کی قبر پر وار میمورئل نصب کروایا اور حکم دیا کہ وہ انگریز ڈپٹی کمشنر جو ضلع سیالکوٹ کا چارج لے اس قبر پر سلامی کو جایا کرے اسی طرح مئی۱۹۲۷ء کو گورنر پنجاب لارڈ بیلی بھی قبر پر سلامی کو پہنچا الغرض سلہریا قوم اپنی جنگی خدمات اور جرأت مندانہ حوصلہ کے سبب ہر ایک بادشاہ اور حکومت کی نظر میں قابل وقار ہی سمجھی جاتی ہے
برصغیر پاک و ہند میں بزرگان دین ، اولیاء کرام اور علماء عظام کی پر خلوص سعی و کوشش سے مقامی راجپوت وغیرہ نے بلا جبر و اکراہ اور برضا و رغبت اسلام قبول کیا راجپوت قوم جو بڑے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتی تھی لیکن اسلام کی سچی تعلیمات کے سامنے ان کے ایک بڑے حصے نے سر تسلیم خم کردیا
اللہ تعالٰی کا خصوصی کرم ہوا کہ راجپوتوں کے آباء و اجداد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے جس کے نتیجے میں آج لا کھوں نہیں بلکہ کروڑوں راجپوتوں کا مذہب اسلام ہے بطور مسلمان یہ کسی دوسری مسلمان قوم سے اسلام کی محبت اور سرشاری میں کم نہیں ہیں اسلام کے تمام شعبوں میں انھوں نے انمٹ نقوش رقم کئے لہٰذا یہ کوئی عار کی بات نہیں کہ قبول اسلام سے قبل یہ کفر اور غلط عقائد میں ملوث تھے "تاریخ جلیلہ" حضرت عبدالجلیل چوہڑ بندگی قریشی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کی حیات اور اسلامی تبلیغ و اشاعت پر مبنی ہے جو انھی کے خاندان کے ایک نامور عالم پیر غلام دستگیر نامی رح کی تصنیف ہے کتاب میں قوم سلہریا کا شجرہ نسب اور متعدد نامور افراد خاندان کا تذکرہ کیا گیا ہے عنوان شجرہ قوم سلہریا ( سوم بنسی یعنی چندربنسی راجپوت) کے بعد ایک شجرہ درج کیا ہے جس کے بعد سلہریا خاندان کی تفصیل ان الفاظ میں درج کی گئی
پرتھی پال جو راجہ سکت مکیر کی اولاد میں سے تھا اسکا بیٹا (۱) جیت پال تھا جو دولت اسلام سے محروم رہا اب تک اسکی اولاد ہندو ہی ہے (۲) جگت پال اسکا بیٹا ٹھکرہنس پال معطوع النسل رہا جس کی قبر سیالکوٹ ۴ میل مشرق کی طرف موضع ٹھکر ہنس پال میں موجود ہے (۳) سنہپال جو سلطان بہلول لودھی کے دور میں حضرت عبدالجلیل رح کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا اسی کی اولاد راج بھی کرتی رہی اور اسی کی نسل کے بہت سے لوگ تحصیل شکر گڑھ، نارووال، پسرور اور پٹھان کوٹ تحصیلوں میں آباد ہیں
سنہپال کا بیٹا بھوپال جس کے دو بیٹے تھے (۱) دھنپال جسکی نسل سے بہجُو کی اولاد بہوال میں آباد ہوئی
(۲) بھمس جس کے بیٹے سہجو کی اولاد سلہریا مشہور ہوئی
مالو پسر بھمس کے چار بیٹے تھے ۱ـ گھنی جسکی اولاد "گھنیاتھ" کہلائی ۲ـ جیور جسکی اولاد "جیورتھ" کہلائی ۳ـ موجو جسکی اولاد "مجورتھ" کہلائی ۴ـ بھرُو جسکی اولاد" بھرواتھ" کہلائی
بالفاظ مختصر یوں سمجھیں کہ سلہریا راجپوت چندر بنسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور پشت در پشت یہاں حکومت کرتے رہے ہیں
مؤرخین اور مصنفین کی کثیر تعداد کے مطابق راجگان سلہریا میں سب سے پہلے راجہ سنہپال پسر راجہ پرتھی پال نے حضرت عبدالجلیل چوہڑ بندگی لاہوری رح کے ہاتھ پر سلطان بہلول لودھی کے عہد حکومت میں اسلام قبول کیا تاریخ جلیلہ کے مطابق حضرت عبدالجلیل چوہڑ بندگی رح ۱۴۷۵ء میں لاہور تشریف لائے انکی تبلیغ کے نتیجے میں سلہریا قوم کے جد امجد راجہ سہن پال پسر راجہ پرتھی پال نے اسلام قبول کیا اس وقت لاہور میں سلطان بہلول لودھی (۱۴۵۱ء تا ۱۴۸۸ء) حکمران تھا حضرت بندگی رح کی وفات ۱۵۰۴ء میں ہوئی ان دنوں لاہور کی حکومت سکندر لودھی بادشاہ دہلی کے متعلق تھی
راجہ پرتھی پال کا دوسرا بیٹا اجیت پال دولت اسلام سے محروم رہا جس کی اولاد ہندوستان میں ہندو مذہب رکھتی ہے جبکہ ان میں کچھ تعداد سکھ مذہب عروج میں سکھ مذہب اختیار کرچکی ہے لیکن یہ اپنی پہچان سلہریا راجپوت ہی کراتے ہیں انڈین آرمی کا سب سے بڑا اعزاز "پرم ویر چکرا" حاصل کرنے والا کیپٹن ہربھجن سنگھ کا تعلق ضلع گرداسپور سے تھا ہندوستان کے سلہریا پاکستان کے برعکس سلاریہ لکھتے ہیں پاکستان میں مسلمان سلہریا راجپوت سلہریا ہی لکھتے ہیں سلہریا راجپوت بھی مختلف القاب استعمال کرتے ہیں جس میں راجا ، رانا ، ٹھاکر اور چودھری شامل ہیں
حوالہ کتاب "تذکرہ سلہریا راجپوت اور دیگر قبائل" مصنف: راجا سرور حسین سلہریا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
24-نارو راجپوت
نارو راحپوتوں کی گوت ہے اس کے علاوہ راجپوت خاندان کو لوگ زمانہ قدیم سے سے ہی اپنے ان سسرالی رشتہ داروں کو بھی یہ خطاب دیتے تھے جو راجپوت ناں تھے۔ نارو راجپوت خاندان کی ابتدا کشمیر کے مہاراجا رائے رام چند سے ہوتی ہے۔ جسے اس کے ایک وزیر راجا رینچن نے حکومت سے معزول کرکے خود حکومت پر قبضہ کر لیا تھا کیونکہ وہ خود شیعہ (مسلمانوں کی ابتدائی خارجی شاخ) مذہب اختیار کرچکا تھا۔ رائے رام چند کی پانچویں نسل سے ایک رائے دھنی بخش (دھونی) کے بیٹے رائے بلکا نے سنی اسلام قبول کیا جس کا نام بدل کر رائے غیاث الدین خاں رکھا گیا۔ اس سلسلے کا اآخری ٹکا(راجپوت قبیلے میں سردار) رائے صوفی فضل محمد خاں تھا جو پاکستان بننے کے بعد 1950عیسوی میں فوت ہوا اس کی صرف ایک بیٹی تھی جس کی شادی اسی خاندان کے ایک فرد سے ہوئی۔ اس خاندان کے پاس اب بھی اپنا خاندانی شجرہ محفوظ ہے
نارُو راجپوتوں کی ابتداء ، ایک تحقیق
تحریر : پرویز صادق نارُو آف رحیم یار خان
نارُو راجپوت، پنجاب کا ایک تسلیم شدہ راجپوت قبیلہ ہے جس کا مرکز مشرقی پنجاب میں ہوشیار پور اور جالندھر کے اضلاع تھے۔ نارُو راجپوتوں کے آغاز سے متعلق مختلف روایات ہیں جس نے بہت سے ابہام کو جنم دیا ہے۔ برِصغیر میں قوموں کی تاریخ کو تحریری شکل میں لکھنے کا آغاز برطانوی مصنفین نے کیا، اس سے قبل خاندانی بھاٹ مختلف اقوام کی تاریخ اور شجرہ نسب زبانی یاد رکھا کرتے تھے۔ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی اِن زبانی روایات میں وقت کے ساتھ ساتھ ایسی غلط چیزیں شامل ہوتی جاتی تھیں جن کا تاریخی حقائق سے دور کا تعلق بھی نہ ہوتا تھا۔ انگریز مصنفین کی یہ کاوش اپنی جگہ مگر ان کی تحریر کردہ اقوام کی تاریخ میں ایک کمی جا بہ جا نظر آتی ہے کہ بجائے حقائق کی تحقیق کرنے کے ہر قبیلے کے مختلف افراد کی بیان کردہ روایات کو جوں کا توں اپنی کتب میں تحریر کر دیا۔ نارُو راجپوتوں کی تاریخ میں بھی یہ مسئلہ شدت سے نظر آتا ہے۔ ہوشیار پور گزئٹیر کے مطابق ایک علاقے کے نارُو راجپوت خود کو رگھو بنسی یا سوریا بنسی اور اجودھیا (متھرا) سے آئے ہوئے رامائن کے ہیرو اور دیومالائی کردار راجہ رام چندر کی اولاد بتاتے ہیں اور راجہ تلوچر/تلوچن کے بیٹے راجہ نیپال چند/نہال چند کو اپنا مورثِ اعلیٰ بتاتے ہیں جس نے محمود غزنوی کے دور میں اسلام قبول کیا اور دوآبہ جالندھر میں آ بسا۔ دوسرے علاقے کے نارُو خود کو گڑھ گجنی دہلی سے اکبر بادشاہ کے زمانے میں یہاں آ کر کر بسانا بتاتے ہیں اور کپور تھلہ کے دو نارُو بھائیوں باگھے خاں اور کشمیر خاں کا ذکر کرتے ہیں اور خود کو کشمیر خاں کی اولاد بتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک کہانی جے پور یا جودھپور کے راجہ کو مشترک مورثِ اعلیٰ بتاتی ہے جس کے بیٹے کا نام نارُو تھا اور وہ راجستھان سے ہوشیار آ بسا اور اپنے خاندان کا نام اپنے بیٹے کے نام پر نارُو رکھا (جبکہ راجستھان کی تاریخ کی کسی کتاب میں ایسا کوئی تذکرہ نہیں ملتا)۔ ان سب روایات میں سے مسلمان نارُو راجپوتوں نے اجودھیا کے رام کی نسل سے ہونے اور محمود غزنوی کے دور میں قبولِ اسلام کی روایت کو اپنے لیے زیادہ قابلِ قبول ہونے کی وجہ سے اختیار کر لیا ہے اور یہی تاریخ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر جگہ جگہ شئیر کی جارہی ہے۔ جبکہ اگر ہم تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو محمود غزنوی کے حملہ کے وقت ایسے کسی راجہ کا نہ تو ذکر ملتا ہے اور خود انگریز مصنف نے لکھ دیا ہے کہ اس علاقے میں نارُو راجپوتوں کی آبادیاں محمود غزنوی کے دور جتنی قدیم نہیں لگتیں۔ ویسے بھی چودھویں صدی سے قبل اس علاقے میں نارُو راجپوتوں کے ہونے کی کوئی تاریخی شہادت نہیں ملتی، جبکہ محمود غزنوی کا ہندوستان آمد کا دور سن ایک ہزار کے قریب کا ہے۔
مگر ایک روایت جو کہ ہوشیار پور گزئٹیر میں بھی بیان کی گئی ہے اسے سب نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مصنف لکھتا ہے کہ ہوشیار پور کے نارُو جن میں سے اکثر اب بھی ہندو ہیں اور جالندھر سے منسلک شمالی علاقہ جات کے نارُو خود کو چندر بنسی اور پہاڑوں سے آیا ہوا بتاتے ہیں۔ یہ روایت کئی وجوہات سے قرینِ قیاس نظر آتی ہے مگر اسے ہمارے مسلم نارُو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
راجہ نیپال چند کے اجودھیا سے آنے اور مسلمان ہونے کی روایت میں تاریخی ثبوت نہ ہونے کے علاوہ یہ خامی بھی ہے کہ اگر وہ مسلمان ہوا ہوتا تو اس کی اولاد یقیناً سب مسلمان ہوتی، مگر ہوشیار پور گزئٹیر سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ انگریزوں کی آمد کے وقت ہوشیار میں کافی تعداد میں ہندو نارُو موجود تھے۔ اگر ایک شخص کے مسلمان ہو جانے سے اس کی اولاد بھی یقیناً مسلمان ہی ہوتی۔
مگر انگریز مصنف یہ بھی لکھتا ہے کہ ان کا رام چندر کی نسل سے ہونا، اور کسی نہال چند عرف نارُو شاہ یا نارو خاں کی اولاد سے ہونا ان سب روایات میں سے زیادہ درست لگتا ہے مگر یہ واقعہ محمود غزنوی کے زمانے جتنا پرانا نہیں ہے۔
راجپوت گوتیں نامی کتاب کے مصنف افضل خاں جو خود مشرقی پنجاب کے راجپوت تھے، اپنی کتاب میں نارُو راجپوتوں کو چندر بنسی قرار دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں میں نے ہوشیار پور میں موجود ایک مسلم نارُو راجپوت بزرگ کی ویڈیو دیکھی، ایک مسلم نارُو خاندان جو قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرنے کی بجائے انڈیا ہی میں رہ گیا تھا۔ جب ان بزرگ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا نارُو راجپوت پہاڑوں سے آئے ہیں۔
ہوشیار پور کے ساتھ کوہِ شوالک کے پہاڑ ہیں جو دوسری جانب کشمیر کے پہاڑی سلسلے سے جا ملتے ہیں۔ نارُو راجپوتوں کے ایک خاندان کے پاس اپنی یہ تاریخ موجود ہے کہ "نارُو راجپوت خاندان کی ابتدا کشمیر کے مہاراجا رائے رام چند سے ہوتی ہے۔ جسے اس کے ایک وزیر راجا رینچن نے حکومت سے معزول کرکے خود حکومت پر قبضہ کر لیا تھا کیونکہ وہ خود شیعہ (مسلمانوں کی ابتدائی خارجی شاخ) مذہب اختیار کر چکا تھا۔ رائے رام چند کی پانچویں نسل سے ایک رائے دھنی بخش (دھونی) کے بیٹے رائے بلکا نے سنی اسلام قبول کیا جس کا نام بدل کر رائے غیاث الدین خاں رکھا گیا" ۔ اس خاندان کے پاس کشمیر کے راجہ رائے رام چند سے ملتا اپنا خاندانی شجرہ بھی موجود ہے جس کی ابتدائی کڑیاں کچھ اس طرح سے ہیں۔
رائے رام چند۔۔۔۔ رائے دیال/نہال چند عرف نارُو شاہ۔۔رائے جھجا۔۔۔رائے سمیر۔۔۔رائے حا مل۔۔۔رائے کلجا، رائے بھوجا، رائے دھنی۔۔۔رائے دھنی
نارُو راجپوتوں کے دیگر شجرہ جات میں بھی کم و بیش یہی نام معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ملتے ہیں۔
میری تحقیق کے مطابق یہ توریخ درج ذیل وجوہات کی وجہ سے قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے:
• رائے رام چند (راجہ کشمیر) کا چندر بنسی خاندان سے ہونا۔
• رائے رام چند کا دورِ حکومت چودھویں صدی کا تھا۔
• رینچن شاہ نامی شخص کا اسے قتل کر کے حکومت پر قبضہ کرنا تاریخ سے ثابت ہے۔
-بعد میں رینچن شاہ نے اس کے خاندان کو لار اور تبت کی حکومت دے دی تھی۔ یہ پہاڑی علاقے ہیں اور ہوشیار پور سے نزدیک ہیں۔ اس کی اولاد کا ان پہاڑوں سے ہوشیار پور میں آ جانا بعید از قیاس نہیں۔
•رائے نہال چند کا لقب ہمیں نارو شاہ بھی اکثر کتابوں میں ملتا ہے۔ اس دور میں کشمیر کے راجے ہی شاہ کا لقب استعمال کرتے تھے جسیے کے رینچن شاہ، صدرالدین شاہ وغیرہ۔ رائے نہال چند کا لقب نارُو شاہ ہونا اس کے کشمیر سے تعلق کی دلالت کرتا ہے۔
• چند اس خاندان کا قدیم لقب تھا اور نارُو راجپوتوں کی ابتدا بھی نہال چند نامی شخص سے ہوتی ہے۔
• قلعہ پھلور کی تاریخ ہمیں رائے شھر پال اور رائے رتن پال نامی دو نارُو راجپوت راجاءوں کا بتاتی ہے جنہوں نے یہ قلعہ سنگھیڑا جٹوں سے چھینا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نارُو راجپوتوں کا ابتداء میں رائے کا لقب بھی استعمال کرتے تھے۔
• رینچن شاہ کے بعد میں کشمیر میں محمود بت شکن نامی راجہ گزرا ہے۔ ممکن ہے کہ نارُو شاہ اسی دور میں ہوشیار پور آیا ہو اور اسی محمود بت شکن کو خاندانی بھاٹوں نے محمود غزنوی سے مکس کر دیا ہو کیونکہ دونوں ہی محمود بت شکن کہلائے ہیں۔
• اسی طرح کشمیر کے رائے رام چندر کی اولاد سے ہونے کو اجودھیا کے راجہ رام چندر سے مکس کر دیا گیا۔
• ہوشیار پور گزئٹیر ہی میں بھنوٹ راجپوتوں کا بھی ذکر ہے جو ہوشیار پور میں بارہ دیہاتوں کے مالک تھے اور سب کے سب ہندو تھے۔ انگریز مصنف نے ان بھنوٹ راجپوتوں کو نارُو راجپوتوں کی شاخ یا آل بتایا ہے۔ بھنوٹ راجپوت بھی تاریخی اعتبار سے کوہِ شوالک کی پہاڑیوں سے آئے تھے اور اس مین کوئی دو رائے بھی نہیں۔ کیونکہ یہ نارُو راجپوتوں کی شاخ ہیں تو اگر یہ کوہِ شوالک سے آئے ہیں (جو کہ ہمالیہ کو بیرونی سلسلہ ہے اور کشمیر اور تبت سے منسلک ہے، جن علاقوں میں رائے رام چند کا خاندان آباد رہا) تو نارُو اجودھیا سے آئے کیسے ہو سکتے ہیں۔
یہ سب میری اپنے آباءو اجداد کے متعلق جاننے کی برسوں کی تحقیق کا نچوڑ ہے۔ میں نے اس معاملے میں بالکل غیر جانبدار ہو کر سچ کھوجنے کی کوشش کی ہے۔ کسی کو اس سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے مگر بہتر ہے کہ وہ تاریخی طور پر اپنے فتوے کا ثبوت دے۔
رانا سرور خاں نے راجپوت خاندانوں پر لکھی گئی اپنی کتاب میں بددیانتی سے نارُو راجپوتوں کو کھوکھر راجہ جسرت کی اولاد بتایا ہے جو کہ صریحاً غلط ہے۔ ہوشیار پور گزئٹیر جس کا حوالہ دیا گیا ہے اس کے مصنف نے "ہارڈلی پاسیبل" کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا اردو ترجمہ "ممکن نہ ہونا" ہے مگر مصنف نے اپنی گتاب میں "ہارڈلی" کا لفظ اڑا کر صرف "پاسیبل" لکھ دیا ہے جس سے بات کے معنے ہی تبدیل ہو گئے ہیں۔ نارُو راجپوتوں کے بھاٹ ان کا شجرہ غلط طور پر راجہ رام چند ولد راجہ جسرتھ والئی اجودھیا سے ملاتے تھے جو کہ راجہ جسرت کھوکھر سے بالکل مختلف ہے۔ راجی جسرت کھوکھر کی اولاد میں رام چند، نہال چند یا تلوچر نامی کوئی شخص تاریخ میں نہیں ملتا اور نارُو اور کھوکھر دونوں راجپوت قبیلے قیامِ پاکستان سے قبل جالندھر، ہوشیار پور میں اکٹھے رہتے رہے ہیں مگر کسی نے ایک دوسرے سے کسی تعلق کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ رانا سرور خاں کیونکہ خود کھوکھر راجپوت ہیں اس لیے ان کتاب میں ان کا پورا زور کھوکھر راجپوتوں کی عظمت ثابت کرنے اور جس حد تک ممکن ہو سکے راجپوتوں کی گوتوں کو کھرکھروں کی اولاد ثابت کرنے پر رہا ہے۔
ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ نارُو راجپوت قدیم دور میں رائے اور مسلمان ہو جانے کے بعد چودھری اور خاں کا لقب ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ اکثر خاندان پاکستان آنے کے بعد رانا کہلانے لگے ہیں۔ یو ٹیوب پر شام چوراسی سے آئے ایک نارُو راجپوت بزرگ کا انٹرویو موجود ہے جن کا بچپن شام چوراسی میں گزرا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے شام چوراسی میں سب نارُو چودھری اور خاں کہلاتے تھے۔ کوئی رانا نہیں کہلاتا تھا۔ صرف ہریانہ کے ایک خاندان کو انگریز حکمرانوں نے رانا کا لقب دیا اور وہی رانا کہلاتے تھے۔ اکثر نارُو راجپوت اپنا شجرہ دیکھیں تو انہیں یہی لقب ملیں گے۔ رانا ، راجپوتوں کا لقب ہے اور یہ کہلانے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ یی بات صرف ریکارڈ کی درستگی کے لیے تحریر کی گئی ھے ۔
میرے دادا چوہدری فتح محمّد خاں نارُو کہا کرتے تھے کہ پہلے مسلمان ہونے والے کا نام غزنوی نے نارُو خان رکھا تھا ۔ ہم ہوشیار پور کے مہاجر ہیں ۔ ہوشیار پور ضلع کے گزٹئیر 1904 میں بھی نارُو خان ہی درج ھے ۔ میرے بزرگ چوہدری خاں لکھتے تھے ۔ ہم 1990 کے بعد رانا لکھنے لگے ۔میرے والد مرحوم چوہدری محمّد صادق خاں لکھتے تھے ۔ اور شناختی کارڈ پر بھی یہ ہی لکھا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصہ دوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشاہیر نارُو راجپوت ۔
نارُو راجپوت گوت کی مشہور شخصیات ۔
کتاب کا نام : " راجپوت گھوڑے واہ "
مصنف : ایم اے رشید رانا .
موضع "ہریانہ" ضلع ہوشیار پور کے نارؤ راجپوت۔
ضلع ہوشیار پور میں موضع ہریانہ اعلیٰ ترین گوت نارُو راجپوت کا گڑھ تھا ۔ اس شہر کے راجپوتوں نے اپنی خداداد صلاحیت کی بدولت برادری اور دنیا میں خوب نام کمایا ہے۔ نارُو راجپوتوں کے اس شہر نے سیاست اور سرکاری ملازمت میں بھی اچھا مقام حاصل کیا۔
1936ء میں ہوشیار پور ضلع کی ایک MLA کی سیٹ تھی ، الیکشن ہوا ، رانا نصر اللہ خاں نارُو کا مقابلہ اس وقت مجلسِ احرار کے صدر چوہدری فضل الحق سے ہوا اور رانا نصر اللہ خاں نے شکست دے کر یہ سیٹ حاصل کر لی ۔
1946ء میں دوسرے الیکشن ہوئے اس وقت تمام پنجاب کی 82 سیٹیں تھیں ۔ ان میں رانا
نصر اللہ خاں اور چوہدری علی اکبر خاں نے اس علاقہ کی دونوں سیٹس حاصل کر لیں اور اس شہر کے راجپوت رانا عبدالمجید خاں نے منٹگمری حال ساہیوال میں بھی کامیابی حاصل کر لی۔
اسی سال 1946ء میں ٹکہ محمد خاں ہریانہ کی میونسپل کمیٹی کے ضلعی انصاف ایڈوائزری کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے ۔
1947ء میں ہندوستان ، بھارت اور پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے آزاد ہو کر تقسیم ہو گیا اور ہریانہ کے نارُو راجپوت ترک سکونت کر کے پاکستان میں آ گئے ۔ جہاں پر اس خاندان سے تعلق رکھنے والے رانا عبدالحمید خاں عارف والا سے 1951ء میں MLA منتخب ہوئے اور رانا غلام صابر خاں MLA اوکاڑہ سے منتخب ہوئے ۔
1962ء میں صد ایوب خان کے دور میں رانا عبدالحمید خاں پاکپتن اور رانا غلام صابر خان اوکاڑہ سے MNA منتخب تھے ۔ 1965ء کے الیکشن میں رانا عبدالحمید خان MNA پاکپتن اور غلام صابر خان MNA اوکاڑو سے منتخب ہوۓ ۔ 1970ء میں رانا مختار احمد خاں ولد رانا حامد خان آف دولت آباد فیصل آباد سے MNA ہوئے۔
1974ء میں ٹکہ محمد اقبال خاں مشیر گورنر پنجاب مقرر ہوۓ۔ 1977ء کے الیکشن میں
راجہ سعید خاں MNA اور رانا اکرم ربانی خاں MPA منتخب ہوئے۔ رانا احمد سعید خان کو پیار سے بچپن میں راجہ صاحب کے نام سے گھر والے پکارتے تھے اور بعد ازاں وہ رانا کے بجائے راجہ کے نام سے اور اپنی شرافت سے بہت مشہور ہوئے۔
اسی دور میں رانا افتخار حسین خاں ماناوالہ ضلع شیخوپور جو کہ ذیلدار محمد حسین خاں کے بیٹے تھے ، ان کا تعلق بھی ہریانہ سے تھا، شیخوپور سے MPA منتخب ہوئے اور لاہور کے مشہور جیم خانہ کے عرصہ دراز تک صدر رہے۔
1985ء کے الیکشن میں راجہ حاجی احمد سعید خاں کے بیٹے رانا شاہد سعید خاں اور رانا نعیم محمودخاں MNA منتخب ہوئے- رانا نعیم محمود خاں وفاقی وزیر دفاع حکومتِ پاکستان بھی رہے۔
1988ء کے انتخابات میں ٹکہ محمد اقبال خاں MPA عارف والا اور راجہ شاہد سعید خاں MNA منتخب ہوئے اور ٹکہ محمد اقبال خاں اس دوران وزیر انٹی کرپشن کرپشن حکومت پنجاب رہے اور رانا اکرام ربانی خاں MPA اوکاڑہ ہوئے ۔ 1990ء کے الیکشن میں حاجی راجہ شاید سعید خاں MNA اور رانا کرام ربانی خاں MPA ہوئے اور اس دوران پنجاب اسمبلی میں حکومت مخالف دھڑے کے لیڈر منتخب ہوئے۔ 1993ء میں ٹکہ محمد اقبال خاں MPA، رانا غلام قادر خاں آف قبولہ MPA ہوئے اور رانا اکرام ربانی خاں اوکاڑہ سے MPA ہوئے۔
اس دوران ٹکہ محمد اقبال خان وزیر خوراک حکومت پنجاب مقرر ہوئے جبکہ رانا اکرام ربانی خاں وزیرِ صحت پنجاب ہوئے۔ 1997ء کے الیکشن میں رانا شاہد سعید خاں MNA اور رانا زاہد محمود خاں MPA اور رانا غلام قادر خاں MPA چنے گئے۔
اس کے بعد الیکشن کیلے BA کی شرط اور ناظم کا نظام قائم ہوا اس خاندان کے افراد نوحہ سیاست میں بٹ گئے۔ ان واقعات سے واضح طور پر عیاں ہو جاتا ہے کہ ابتداء سے ہی راجپوتوں کو سیاست اور راجدھانی کا سابقہ روایات کے مطابق شوق تھا جو اس وقت سے لیکر آج سے تک اِن کی سیاسی بصیرت کی ترجمانی کرتی ہے۔
اس خاندان میں ٹکہ رحمت خاں صاحب کے دو صاحبزادے تھے جس میں بڑا ٹکہ محمد خان اور دوسرا ٹکہ عبداللہ خان تھا۔ بدقسمتی سے عبداللہ خان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ لیکن قدرت نے ٹکہ محمد خاں کو چھے بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا ، جن میں :
1- ٹکہ محمد خالد خاں، انہوں نے محکمہء پولیس میں ملازمت کی اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے ملک اور محکمے میں خوب چمکایا اور DSP کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اب اِن کا شمار لاہور کے بڑے تاجروں میں ہوتا ہے۔
2۔ رانا محمد اعظم خاں ، تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے پر ریوینیو ڈیپارٹمنٹ اپنی ملازمت آغاز تحصیلدار سے کیا اور ترقی کرتے ہوئے بالآخر ڈپٹی کمشنر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔ ان دنوں جوہر ٹاؤن لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔ تجارت کے ساتھ ساتھ زمینداری کی طرف خاص توجہ دے رہے ہیں اور ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔
3- ٹکہ محمد حسن خاں ، عارف والا میں رہائش پذیر ہیں ، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ضلعی سیاست میں حصہ لیتے ہیں ، ٹرانسپورٹری کے ساتھ تجارت بھی کرتے ہیں ۔
4- ٹکہ محمد اقبال خاں ، اپنی خداداد ذہانت کی بناء پر پنجاب اور پاکستان کی سیاست میں اہم مقام پایا ہے۔ آپ چار مرتبہ MPA منتخب ہوئے۔ دو مرتبہ وزیر حکومتِ پنجاب اور ایک مرتبہ مشیر گورنر پنجاب مقرر ہوئے ۔ آپ اپنی گفتار اور کردار سے ہر دور میں ہر کسی کی اپنا گرویدہ بنا لیتے ۔ پاکستان کی سیاست میں ان کا اہم کردار رہا ہے ۔
5- ٹکہ محمد نواز خاں ، عارف والہ کی مقامی سیاست کے ساتھ ساتھ کاروبار اور کاشتکاری کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ اس خاندان نے وزیرِ خزانہ میں جو کمایا وہاں خرچ کرتے ہیں۔ نہایت شریف النفس شخصیت کے مالک ہیں۔
6- ٹکہ محمد مختار خاں ، آپ نے اپنی سروس کا آغاز بطور DSP پنجاب پولیس کیا ۔PSP کیڈر ہو کر SSP وہاڑی بھی فرائض انجام دیتے رہے اور عمر کے لحاظ سے کم ہونے کے باوجود DIG کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔ سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود آپ پولیس کے امور کے ماہر جانے جاتے ہیں ۔
اسی طرح نارُو دراجپوت جو کہ موضع ہریانہ کا ایک اور نہایت اہم اور قابلِ ذکر خاندان ہے جس کے سربراہ خان بہادر رانا جلال الدین خاں تھے جو اُس وقت پنجاب پولیس میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس تھے۔ اِن کی اولاد میں رانا صالح محمد خاں میں جو ابتداء میں SP تھے اور بعدازاں، ریاست پٹیالہ میں انسپکٹر جنرل پولیس تعینات رہے۔ ان کے تین بیٹے تھے لفٹیننٹ جنرل بختیار احمد رانا ،
بریگیڈیئر دلدار احمد رانا اور ثنا اللہ رانا ۔ جنرل بختیار احمد رانا کے دو بیٹے ہوئے ، بریگیڈیئر صلاح الدین رانا اور میجر جنرل غازی الدین رانا ۔
اسی طرح ایک اور عظیم خاندان ہے جس کے سربراہ رانا غلام ہمدانی خاں ، رانا جہانداد خاں اور رانا غلام صابر خاں تھے ۔ رانا جہانداد خاں نے محکمہ پولیس میں ملازمت کی ، SSP لاہور ہوئے اور انسپکٹر جنرل پولیس جیل خانہ بھی رہے۔
رانا غلام صابر خاں نے اوکاڑہ میں سیاست میں خوب نام کمایا اور MNA اور MPA بنے۔ رانا جہانداد خاں کے دو بیٹے ہوئے ، رانا خالق داد خان اور رانا حق داد خاں ۔ رانا خالق داد خاں نے PIA میں ملازمت کی اور جنرل منیجر تک ترقی کی اور اِنتقال کر گئے۔
رانا حق داد خاں کاروبار کرتے ہیں ، ان کے بچے امریکہ میں اچھی ملازمت اور کاروبار کرتے ہیں اور اکثر امریکہ میں ہوتے ہیں۔ ان کی شادی اپنی چچا زاد بہن سے ہوئی تھی۔
رانا غلام صابر خاں ، رانا انعام ربانی خاں ، رانا اکرام ربانی خاں ، رانا احتشام خاں ، رانا ممتاز خاں کے ہاں پانچ بیٹے پیدا ہوئے۔ جنہوں نے سیاست میں خوب شہرت پائی اور کئی مرتبہ وزیر پنجاب حکومت رہے ۔ آج کل خاموشی سیاست کر رہے ہیں ۔
اسی طرح رانا غلام محمد خاں ہوۓ جن کے بچوں میں رانا علی حیدر خاں ہوئے جو انسپکٹر پنجاب پولیس بنے۔ حکومتِ وقت نے اُنہیں خان صاحب کے اعزاز سے نوازا تھا ۔ آپ نہایت ایماندار پولیس آفیسر تھے۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ اُن کا گھوڑا اس وقت تک گھاس نہیں کھاتا تھا جب تک خاں صاحب اس کے چارے کی رقم ادا نہ کر دیتے تھے۔ ان کے ہاں سات بیٹے ہوئے ، رانا عبدالقادر خاں جو پاک نیوی میں کمانڈر رہے ، رانا عبدالرؤف خاں ، رانا عبداللہ خاں جو تحصیلدار ہوئے ، رانا عبدالواحد خاں، رانا عبدالواسع خان انشورنس کمپنی میں اعلیٰ آفیسر ہوئے ، رانا عبدالغنی خاں اور رانا عبدالرب خاں ہوئے ۔ جبکہ رانا عبدالوسع خاں نے تعلیم کے اختتام پر محکمہء پولیس میں ملازمت کا آغاز کیا اور DIG پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہوۓ۔ آپ نہایت ایماندار قابل اور تجربہ کار پولیس آفیسر ہوۓ ۔ آپ کا شمار پنجاب پولیس کے اعلیٰ ترین ، قابل اور ایماندار افسران میں ہوتا ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا آبائی کام زمیندار کر رہے ہیں۔
رانا دولت علی خاں کا بھی ایک اہم کنبہ تھا ۔ اِن کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے رانا علی حسن خاں اور رانا بشیر حسن خاں نے پولیس میں ملازمت کا آغاز کیا اور DSP کے عہدے تک ترقی کر کے ریٹائر ہوئے ۔ تجربے کار پولیس افسران میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔
اِن کے دو بیٹے ہیں ، جن میں رانا محمود الحسن خاں جو SP انویسٹیگیشن پنجاب پولیس رہے اور دوسرے بیٹے رانا مسعود الحسن خاں SSP تھے اور اُنہیں سعودی عرب میں شہادت نصیب ہوئی ۔ آپ ایک ایماندار اور قابل پولیس آفیسر تھے ۔ جن اضلاع کا چارج آپ کے پاس ہوتا وہاں کے جرائم پیشہ افراد وہ علاقہ چھوڑ جاتے تھے اور یہ امن کا پیکر بن کر اپنی کمانڈ والےعلاقے کو صحیح معنوں میں امن کا گہوارہ بنا دیتے تھے ۔ اسی طرح رانا خُدا بخش خاں والد نبی بخش خاں صاحب کا گھرانہ بھی ہریانہ میں ایک خاص مقام رکھتا تھا ، رانا خُدا بخش خاں کے چار بیٹے ہوئے ۔
1- رانا نصراللہ خاں 2- رانا ظفراللہ خاں 3- رانا حفیظ اللہ خاں اور 4- رانا محسن خاں۔ رانا نصراللہ خاں سیاسی طور پر بہت مضبوط تھے اور رانا ظفراللہ خان نے بھی جامعہ اسلامیہ قبولہ اور نواب صاحب کی پارٹی کے صدر پنجاب رہے اور سیاسی اور سرکاری حلقوں میں اچھے نام سے جانے جاتے تھے ۔
ان کے بیٹے غلام قادر خاں ہر بار قبولہ سے MPA منتخب ہوئے ہیں ۔ اُنہیں شرافت کی وجہ سے اپنے علاقے اور راجپوت برادری میں اہم مقام حاصل ہے ، آپ نوعمر سیاست دان ہیں اور اِن سے اچھے حالات کی توقع ہے ۔
غرض کہ ہریانہ نارُو راجپوتوں کا ایک عظیم شہر تھا جس کے باسی اب ہجرت کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ، اچھے مقام رکھتے ہیں اس برادری کے افراد کا ایک فورم پر اکٹھا ہونا راجپوتوں کی ترقی کا باعث ہوسکتا ہے۔
خان بہادر رانا محمد مہندی خاں سیشن جج تھے اور بعد میں وزیرِ مال ریاست بہاول پور بھی رہے۔ ان کے بیٹے خاں صاحب رانا غلام جیلانی خاں اور راجہ احمد خاں تھے۔ حاجی رانا احمد سعید خاں کے بیٹے شاہد سعید خاں ، آفتاب سعید خاں اور مہندی سعید خاں ہوئے اور بدستور قبولہ کے علاقہ سے MNA رہے ہیں ۔
رانا محمود خان چک منڈی خان والوں کو قدرت نے چھے بیٹوں سے نوازا ۔ ذیلدار رانا حامد خاں، رانا عبدالحمید خاں، رانامقبول احمد خان، رانا خُدا داد خاں ( رانا لوئرر والے رانا سردار خان (جماعت اسلامی) اور رانا احسان الله خاں ۔
رانا خداداد خاں کے بیٹے رانا نعیم محمود خاں اور رانا عمر محمود خاں تھے جنہوں نے سیاسی میدان اور تجارت میں اہم مقام حاصل کیا اور نارُو راجپوتوں کا ایک گروپ موضوع ہریانہ بھی ترقی کی منازل تہ کر رہا ہے ۔
اس قبیلے کر سربراہ چودھری جھنڈے خاں تھے ، اِن کے 3 بیٹے ہوئے (1) چوہدری عمرالدین خاں (2) چودھری امام الدین خاں اور (3) چودھری رحمت اللہ خاں۔ چودھری عمر الدین کے ہاں 5 بیٹے پیدا ہوئے ۔ (1) رانا غلام محمد خاں (2) رانا فضل محمد خاں (3) رانا سلطان محمد خاں (4) رانا خادم حسین خاں اور (5) رانا صالح محمد خاں۔ ان میں سے رانا سلطان احمد خاں نے سرکاری ملازمت اختیار کی اور ان کے ہاں چار بیٹے پیدا ہوئے ۔
(1) رانا سعید احمد خاں ، انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد مقابلہ کا امتحان پاس کر کے محکمہ فیملی پلاننگ میں ملازمت کی اور ترقی کرتے کر کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے ہیں ۔ آپ اپنی شاندار ذہانت ، قابلیت اور تجربہ کی بناء پر مایاناز فیملی پلانر کے نام سے جانے جاتے ہیں ، آپ نہایت اعلیٰ طبیعت کے مالک ہیں۔
(2) رانا وحید الحق خاں ، آپ نے MSc قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے کرنے کے بعد اٹامک ڈپارٹمنٹ میں ملازمت شروع کی اسی اعلیٰ قابلیت کی بنا پر اعلیٰ تعلیم کیلئے انہیں امریکہ بھیجنے کے لیئے منتخب کر لیا گیا۔ رانا صاحب امریکہ میں ایٹمک انرجی میں PHD کرنا گئے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ماحولیات میں بھی PHD کر لی اور ماحولیات کی اصلاح کیلئے امریکہ نارتھ کیریلینا میں اپنی کمپنی قائم کر لی اور اِسے اتنا عروج دیا کہ آج امریکہ کی اعلیٰ ترین کمپنیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
رانا توحید الحق اور رانا نوید حبیب الحق دونوں بھائی اسلام آباد میں تجارت کر رہے ہیں اور اسلام آباد کےتاجر حلقوں میں نام روشن کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔
رانا وحیدالحق کے ہاں دی بیٹے ہیں عمر وحید الحق رانا اور علی وحید الحق رانا، دونوں بھائی امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹی سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ یہ ہونہار بھائی ایک دِن امریکہ میں پاکستان کا نام روشن کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔
رانا سعید احمد خاں کے بیٹے رانا عقیل سعید جو کمرشل پائلٹ ہیں اور رانا عثمان سعید اور رانا صبور سعید اسلام آباد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ راجپوت نارؤ گھرانہ مزید اپنے خاندان کا نام روشن کرے گا۔
موضع شہوار ضلع امرتسر کے نارُو راجپوت ۔
موضع شہوار راجپوتوں کے ایک بزرگ کے نام سے منسوب تھا۔ اِس گاؤں کے سربراہ رانا برنگے خاں تھے۔ ان کے ہاں رانا رحمت علی خاں پیدا ہوئے۔ رانا رحمت علی خاں نے 1947ء میں ہجرت کر کے مناواں لاہور میں رہائش اختیار کی اور محکمہ پولیس میں ملازمت کی اور جلد ہی محکمے کو خیرے کہہ کر کاروبار اور زمیندارے میں بھی مصروف ہو گئے۔ ان کے ہاں رانا اعجاز احمد خاں اور رانا محمد شفیع خاں پیدا ہوئے۔ اعجاز احمد خاں نے بطور ایڈووکیٹ اپنا خوب نام کمایا۔ لاہور کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کا آغاز کیا۔ اپنی خداداد صلاحتیوں کی بنیاد پر دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے گئے اور پنجاب بار کونسل کے ممبر ہوئے اور پاکستان بار کونسل کے صدر بھی رہے اور سپریم کورٹ ایڈووکیٹ کی سلیکشن کمیٹی میں مسٹر جسٹس ارشاد احمد خاں اور چیف جسٹس آف پاکستان کے ہمراہ پاکستان کے وکلاء کی نمائندگی کرتے ہوۓ ممبر رہے اور مسلسل پنجاب بار کونسل کے الیکشن میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ تمام پاکستان میں پاکستان بار کونسل کے ممبران ایڈوکیٹ دو سو ہیں جو چاروں صوبوں پر مشتمل ہیں۔ ان اعلیٰ ترین ایڈوکیٹ کے چناؤ میں رانا اعجاز احمد خاں ہمیشہ مسلسل کامیاب رہے ہیں۔ اسی بناء پر انہیں گورنر پنجاب نے اپنا مشیر قانون و ہیومن رائٹس منتخب کیا۔ جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے راجپوت برادری اور وکلاء حضرات میں بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں اعلیٰ نام کمایا اور بالآخر وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے بھی انہیں مشیرِ قانون منتخب کر کے صوبائی وزیر کے برابر عہدہ دیا ہوا تھا۔ کیونکہ انہوں نے اوتھ نہیں لیا ہوا تھا لہٰذا وہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں بطور ایڈووکیٹ پریکٹس کرنے کے مجاز تھے۔ اعجاز احمد خان کے ہاں دو بیٹے ہوئے ۔ رانا سجاد احمد خاں اور رانا احمد خاں۔
رانا سجاد احمد خان نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن اور لاء کالج سے LLB کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد چند ماہ اپنے والدِ بزرگوار کے ساتھ پریکٹس کی اور بعد ازاں بار ایٹ لاء کرنے کے لئے امریکہ تشریف لے گئے۔ امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹی سے امتیازی حیثیت سے بار ایٹ لاء کرنے کے بعد صدر بل کلنٹن کی بیگم ہلری کلنٹن جو خاتونِ اول امریکہ کے ساتھ ساتھ سینیٹر اور ایڈووکیٹ بھی تھیں، اُنہوں نے رانا سجاد احمد خاں بار ایٹ لاء کو اپنے چیمبر میں اپنی ٹیم کے ساتھ امریکہ میں پریکٹس کرنے کے لئے چنا۔ یہ راجپوت برادری کا ہونہار سپوت ترقی کی منازل طے کر رہا ہے ۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی چوہدری رشید احمد خاں جو کہ امریکہ کے بہت بڑے صنعت کار اور تاجر ہیں اور صدر کلنٹن کے قریبی دوستوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ قدرت نے انہیں بےپناہ دولت سے نوازا لیکن اولادِ نرینہ سے محروم رہے۔ لہٰذا ان کی دوربین نگاہ نے رانا سجاد احمد خاں بارایٹ لاء کو اپنا داماد منتخب کیا اور اپنی لاڈلی بیٹی ہاجرہ چوہدری کی شادی اس ہونہار ایڈوکیٹ سے کر دی۔ اس طرح چوہدری رشید احمد صاحب نے اپنی بیٹی کے توسط سے اپنا بیٹا بھی تلاش کرلیا۔ بہت دھوم دھام سے واشنگٹن ، امریکہ میں شادی ہوئی اور ولیمہ پاکستان میں لاہور اور اسلام آباد میں ہوا اور ہر مکتبہ فکر کے سیاسی، سماجی، تاجر اور بیوروکریٹس حضرات اس میں شامل ہوئے ۔ رانا سجاد احمد خاں اس شادی کے بعد اپنی بیگم کے ہمراہ واپس امریکہ چلے گئے اور سینیٹر ہنری کلنٹن کے چیمبر میں پیٹس کرتے رہے اور پاکستان اور راجپوت برادری کا نام روشن کیا۔ رانا سجاد احمد خان بار ایٹ لاء، دادکا سائڈ سے نارُو راجپوت ہیں اور ننھیال کی طرف سے کوشل ( گھوڑے واہ ) راجپوت ہیں۔ غرض کہ دونوں طرف اعلیٰ مرتب گوت کے سپہ سالار ہیں اور ان سے پاکستان کی بہبود اور بہتری کے لئے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔
رانا احمد خاں صاحب نے تعلیم مکمل کر کے تجارت اور بنک کی ملازمت کو ترجیح دی اور سیاست میں اپنے والد بزرگوار رانا اعجاز احمد خاں کے معاون ہوتے ہیں۔
رانا اعجاز احمد خان مشیر قانون حکومت پنجاب و سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کی آواز پر ہزاروں ایڈووکیٹ ان کے جھنڈے تلے جمع ہو کر راج الوقت حکومت کی معاونت کرتے رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں وکلاء کو کمانڈ کرنا، رانا اعجاز احمد خاں کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اب رانا اعجاز احمد خاں وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور صدر مملکت خداداد پاکستان کی آنکھوں کا تارا ہیں۔ یہ نارو راجپوت اچھے پاکستانی ہوتے ہوئے راجپوت برادری کی بہتری کے لئے بھی ہردم برسرِ پیکار ہیں ۔
موضع ذولوں وال ضلع ہوشیار پور کے نارُو راجپوت ۔
رانا دولت علی خاں اِس گاؤں کے سربراہ تھے ۔ یہ نارُو راجپوت تھے اور ان کا ایک ہی بیٹا تھا بخش خاں اور ان کے ہاں تین بیٹے پیدا ہوۓ (1) غلام بھیک خاں (2) غلام محمد خاں اور (3) غلام قادر خاں۔ غلام محمد خاں کے ہاں رانا محمد چراغ خاں پیدا ہوۓ اور یہ اگوکی ضلع سیالکوٹ میں آباد ہو گئے۔ صدر ایوب خان کے دور میں چیئر مین یونین کونسل ہوۓ اور ان کے 3 بیٹے ہوئے۔ (1) شمشیر احمد خاں (2) شمشاداحمد خاں اور (3) رانا شمیم احمد خاں۔ رانا شیم احمد خاں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت سیاست میں اہم مقام پایا۔ چار مرتبہ مسلسل MPA منتخب ہوۓ ایک دفعہ مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب مقرر ہوئے۔ علاقہ کے عوام کی خدمت ان کا مشغلہ ہے ، خوب سیاست میں عزت اور نام کمایا ہے۔ آپ نہایت ہی قابل سیاست دان کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔
موضع سکرالہ تحصیل وضلع ہوشیار پور کے نارُو راجپوت ۔
نارُو راجپوتوں کا ایک عظیم گھرانہ اس گاؤں میں آباد تھا۔ ان کے جدِامجد رانا صوبے خاں تھے۔ ان کے تین فرزند تھے۔ (1) رانا چراغ خاں (2) رانا سردار خاں اور (3) رانا طفیل خاں ۔ رانا سردار خان اور رانا طفیل خاں جونیئر کمیشن آفیسر تھے۔ رانا سردار خاں دوسری جنگ عظیم میں شہید ہوئے اور جبکہ رانا طفیل خاں نے متحدہ ہندوستان والیئے حیدر آباد قاسم تیوری کی قیادت میں آزادی کی جنگ لڑی اور قیدی ہو گئے اور 1954ء میں آزاد ہوۓ۔ اِس جواں ہمت نارُو راجپوت کے تین بیٹے ہوۓ۔ (1) رانا محمد زاہد (2) رانا محمد شاہد اور (3) رانا ندیم محمود۔ رانا محمد شاہد اور رانا ندیم نے تجارت و زمیندارہ میں عروج حاصل کیا۔ جبکہ رانا محمد زاہد خاں سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ہیں اور کافی عرصہ سے بطور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی حیثیت سے لاہور ہائیکورٹ میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ آپ ایشیاء کی سب سے بڑی’’بار‘‘ لاہور بار کے سینئر نائب صدر رہ چکے ہیں۔ آئندہ وقتوں میں انشاءاللہ ہائیکورٹ کے جج ہونگے۔ الیکشن 2006ء میں لاہور ہائیکورٹ بار کے سینئر نائب صدر واضح اکثریت سے کامیاب ہوۓ تھے اور اپنے استاد محترم رانا اعجاز احمد خاں سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان و مشیر قانون وزیرِاعلیٰ پنجاب کا نام روشن کئے ہوئے ہیں۔
موضع چٹالہ ضلع ہوشیار پور کے نارُو راجپوت۔
یہ نارُو راجپوت کے مشہور گاؤں میں سے ایک تھا۔ اس گاؤں کے سربراہ رانا محمد خاں کے ہاں چھے بیٹے پیدا ہوۓ ۔ (1) رانا سلطان خاں (2) رانا نعمت خاں (3) رانا برکت خاں (4) رانا امانت خاں (5) رانا جلال الدین خان اور (6) رانا چراغ محمد خان۔
یہ راجپوت نارُو قبیلہ کھیتی باڑی میں زیادہ تر معروف رہا البتہ رانا جلال الدین خاں کے ہاں 5 بیٹے پیدا ہوۓ ۔(1) رانا وزیر علی خاں (2) رانا امیر علی خاں (3) رانا غلام احمد خاں (4) رانا عبدالرشید خاں اور (5) رانا انوارالحق خاں ہوئے۔ ان میں سے رانا عبدالرشید خاں نے پوسٹل سروس کی اعلیٰ ملازمت کی اور ان کے ہاں 3 بیٹے پیدا ہوۓ ۔ (1) رانا طارق رشید جنہوں نے پاکستان سے انجیرنگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو امریکہ میں آزمانے کا فیصلہ کیا۔ امریکہ میں اعلیٰ درجہ کے پلازے اور کوٹھیاں اور مکانات تیار کئے اور خوب نام اور دولت پائی اور اب امریکہ میں ترقی کی منازل پر گامزن ہیں۔ (2) رانا خالد رشید نے میڈیکل پروفیشن کو اپنایا۔ پاکستان سے ابتدائی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بطور پروفیسر سپیشلسٹ اپنا مقام بنایا۔ (3) پروفیسر ڈاکٹر شاہد رشید نے پاکستان سے MBBS کرنے کے بعد معالج دل کی حیثیت سے امریکہ میں پروفیسر سپیشلسٹ کا مقام حاصل کیا اور تینوں بھائی اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کی بناء پر دولت کے انبار لگا رہے ہیں۔ انہیں پاکستان سے محبت تو ضرور ہے اور دیگر تمام خاندان کے افراد پاکستان میں رہائش پذیر ہیں بہت ممکن ہے کہ وطن میں واپس آ کر اپنی خداداد صلاحیتوں کی مدد سے قوم کی خدمت کر پائیں۔
رانا خالد رشید کے صاحبزادے اگرچہ رانا شاہزیب ابھی چھوٹے ہیں لیکن انہیں پاکستان سے پیار ہے ان کا پیار بہت ممکن سے باقی افراد کو بھی امریکہ سے واپس پاکستان لے آئے ۔ دنیا امید پر قائم ہے ۔
موضع کھنوڑہ ہوشیار پور کے نارُو راجپوت ۔
چوہدری غلام فرید خاں اس گاؤں کے سردار تھے۔ یہ راجپوت نارو گوت کے اعلیٰ نصب کا گاؤں تھا اِس میں رانا عبدالرشد خاں خاص طور پر قابل ذکر تھے۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ 1 رانا سہیل رشید اور 2- رانا اعجاز رشید ۔ رانا سہیل رشید بنک میں ملازمت کرتے ہیں اور اپنے والد کے ساتھ زمینداری میں بھی معاونت کرتے ہیں ۔ رانا اعجاز کاروباری حلقے ساہیوال میں خصوصی مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ چودھری نوروز شکوروز ، وزیر حکومتِ پاکستان اور راۓ حسن نواز ناظم اعلیٰ ضلع ساہیوال اور ارشاد لودھی وزیر حکومت پنجاب اور نوید احمد لودھی ان کے محبوب سیاسی ساتھی ہیں۔
ان کا کاروبار وسیع ہے۔ ساہیوال کلب کی کمانڈ بھی ان کے پاس ہے۔ ایک اعلیٰ مقام پر پڑول پمپ کے مالک بھی ہیں۔ ساہیوال اور پاکپتن میں فوٹو گرافی کی اعلیٰ ترین ماڈرن لیب بھی انہی کی ہے ۔ راجپوت برادری سے خصوصی پیار رکھتے ہیں۔ بلال بخشی صاحب بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور تجارت میں اپنا نام روشن کئے ہوئے ہیں۔ عرضیکہ راجپوت برادری کا یہ کنبہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی پر گامزن ہے۔
موضع گھوڑے واہ تحصیل دوسویہ ضلع ہوشیار پور کے نارُو راجپوت ۔
اس گھوڑے واہ گاؤں میں نارو راجپوت اقوام کے افراد آباد تھے۔ اس علاقہ میں 84 گاؤں نارُو راجپوتوں کے آباد تھے۔ ان نارُو راجپوت کے گاؤں میں شام چراسی اور ہریانہ قابل ذکر ہیں۔ رانا امیر خاں اس گاؤں کے مشہور شخص تھے۔ ان کی اولاد میں چوہدری فتح جنگ تھے۔ ان کی اولاد میں کیپٹن امانت علی خاں اور برکت علی خاں ہوئے۔ اِن کی اولاد میں رانا لعل خاں ڈپٹی پرنٹنڈنٹ پولیس ہوۓ اور بچیکی میں تجارت اور سیاست کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ننکانہ کے صدر اور اہم شخصیت ہیں اور ناظم بچیکی کے امیدوار ہیں اور قائد ملت قائدِ اعظم کے آزادی کے دورن ان کے دستِ راست رہے ہیں ۔
ڈی ایس پی رانا لعل خاں کے بیٹے رانا سہیل اختر خاں جو وکالت اور تجارت کر رہے ہیں اور ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں ۔
موضع سنورا ضلع جالندھر کے نارُو راجپوت ۔
یہ موضع راچوت برادری کا ایک عظیم گاؤں تھا۔ اس میں بریگیڈیئر رشید احمد خاں خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ آپ کے دو بھائی تھے، ان کی برگیڈیئر صاحب نے اس اعلیٰ طرز سے تربیت کی ان میں حاجی حبیب الرحمن خاں انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدہ تک ترقی کر کے ریٹائر ہوئے۔ جبکہ مجیب الرحمٰن خاں لیفٹیننٹ جنرل تک ترقی یاب ہونے کے بعد ضیا الحق صدرِ مملکت خداداد کی حکومت سے دوران وفاقی سیکرٹری حکومتِ پاکستان رہے۔ آپ نے آرمی اور سول میں اپنی اعلیٰ کارکردگی کی پنا پر اپنا اور اپنے خاندان کا خوب نام روشن کیا۔
بریگیڈیئر رشید احمد خاں صاحب کے تین بیٹے پیدا ہوۓ ۔1- میجر جادید اختر 2- افتخار رشید اور 3-ذوالفقار رشید ۔
حاجی حبیب الرحمن خاں کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوۓ 1- آفتاب حبیب خاں اور 2-ایزد حبیب الرحمن خاں۔ حاجی حبیب الرحمن خاں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد تدریس کام شروع کیا اور اسی دوران CSS کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے ASP پولیس منتخب ہوئے۔ آپ نے بطور SSP لاہور گورنر پنجاب جنرل موسیٰ خاں کے تعاون سے لاہور کو غنڈا عناصر سے مکمل طور پر صاف کر دیا۔ بعدازاں آپ ترقی کرتے ہوۓ انسپکٹر جنرل پولیس سندھ اور انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب بھی رہے۔
آفتاب حبیب خاں نے CSS کیا اور آج کل ایڈیشنل سیکرٹری حکومت پنجاب ہیں ۔
جبکہ ایزد حبیب حبیب بنک میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں ۔ جنرل مجیب الرحمن کے ہاں کوئی نرینہ اولاد نہ ہوئی انہوں نے بچیوں کی اعلیٰ پرورش کی اور اچھے خاندانوں میں ان کی شادی کی۔
افتخار رشید خاں 1943ء میں موضع سنورا ضلع جالندھر نارُو راجپوتوں کے گھرانہ میں پیدا ہوۓ۔ برن ہال سکول ایبٹ آباد میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور گورنمنٹ کالج لاہور سے گرجویشن کرنے کے بعد لاء کالج سے قانون کی ڈگری نمایاں طور پر حاصل کی اور 1967ء میں CSS کا امتحان پاس کرنے کے بعد محکمہء پولیس میں ملازمت کی۔ SSP کراچی اور SSP حیدر آباد سندھ میں نمایاں خدمت انجام دیں۔ جس ضلع کی کمانڈ ان کے پاس ہوتی جرائم پیشہ افراد وہاں سے ترک سکونت کر کے چلے جاتے۔ ان کی کمانڈ کا علاقہ درست طور پر امن کا گہوارہ بن جاتا تھا۔ بطور DIG انہوں ملتان اور کراچی میں ڈیوٹی اعلیٰ طریقہ سے سرانجام دی۔ پچاس ASP صاحبان کی تربیت کے لئے اعلیٰ پولیس آفیسر کی ضرورت تھی چنانچہ آپ کو DIG کمانڈنٹ سہالہ تعینات کیا گیا۔ پچاس ASP صاحبان کے علاوہ 30 میجر صاحبان جو آرمی سے پولیس میں آئے تھے، ان کی بھی تربیت کی، جو بلاشبہ آج کل انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدہ پر فائز ہو کر اپنے استاد کمانڈر کا نام روشن کر رہے ہیں ۔ یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ آپ نشانہ بازی ریوالور اور رائفل میں ہمیشہ اول آتے تھے۔ راجپوت نارُو ہوتے ہوئے ان کو یہ صلاحیت ورثے میں ملی تھی۔
اعلیٰ کارکردگی کی بناء پر آپ کو موٹروے پولیس کا سربراہ لگایا گیا۔ جہاں پر آپ نے واحد ایماندا پولیس ادارے کو مزید ترقی دی اور ہائی وے پاکستان تک اس ادارہ کو وسعت دی اور اسلام آباد کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لئے تربیت دی۔
آپ نے خصوصی طور پر ٹریفک کے نظام کو بہت بہتر بنا دیا۔ اس بناء پر آپ واحد پولیس آفیسر ہیں جنہیں سیکرٹری مواصلات حکومتِ پاکستان مقرر کیا گیا۔ گوادر بندگاہ کی تعمیر کو وسعت دینے میں ان کی کوششوں کا بہت دخل ہے۔ 4 سال تک یہ طویل ذمہ داری سرانجام دیتے ہوئے کوہاٹ ٹنل پشاور ، لاہور موٹر وے، پنڈی بھٹیاں اور فیصل آباد موٹروے پراجیکٹس میں قابل قدر کام سرانجام دیا جو ہمیشہ رکھاجائےگا۔ ماشاءاللہ اب انہیں چیئرمین PEMRA کی کمانڈ دی گئی ہے جس سے یہ ادارہ دن بہ دن ترقی کی جانب گامزن ہے۔ یہ سب ان کی والدہ کی دعاؤں اور بریگیڈیئر رشید احد خاں کی اعلیٰ تربیت کا نتیجہ ہے۔
میجر جاوید المعروف بیدی نے آرمی کو خیر باد کہہ کر امریکہ میں تجارت کا آغاز کیا اور بے پناہ ترقی کی اور بے شمار دولت کمائی لیکن عمر نے ان کا ساتھ نہ دیا وہ جلد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔
ذوالفقار احمد خان نے بھی گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد CSS کیا اور محکمہء انکم ٹیکس میں ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد کاروبار کرنا مناسب خیال کیا۔ ملک کی اعلیٰ ترین ملازمت کو خیر باد کہہ کر امریکہ میں تجارت شروع کی اور اپنے بھائی کی رہنمائی میں خوب دولت اور نام کمایا۔
اس عظیم خاندان کی تربیت کرنے والے بریگیڈیئر رشید احمد خاں کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہو گی۔ لہٰذا رشید احمد خاں جو اس نارُو راجپوت قبیلہ کے سربراہ تھے ، 1913ء میں پیدا ہوئے اور 1930ء میں آرمی کی ملازمت شروع کی اور 1950ء میں بریگیڈیئر کے عہدہ پر ترقی پا گئے۔ یہ پاکستان آرمی کی تاریخ میں پہلے بریگیڈیئر تھے جنہوں نے سب سے کم عمری میں بریگیڈ کمانڈ کی۔ باعزت ریٹائرمنٹ کے بعد لائل پور موجودہ فیصل آباد میں سیاست کا آغاز کیا اور مئیر فیصل آباد منتخب ہوئے۔ مسلسل سیاست میں لگاتار لائل پور کی سیاسی طور پر کمانڈ کرتے رہے۔ فلاح و بہبود کے بےشمار کام کئے۔ راجپوت برادری کو خصوصی توجہ دی کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی بھی بے پناہ خدمت کی اور 1975ء میں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، اناللہ واناالیہ راجعون ۔ لیکن ان کی اعلیٰ کارکردگی، انسانی ہمدردی اور برادری سے پیار کی بنیاد پر اب بھی وہ فصل آباد کے عوام میں زندہ ہیں ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس خاندان سے تعلق رکھنے والے جنرل مجیب الرحمن خان اسلام آباد، کیپٹن امتیاز احمد ہمدانی کراچی، ڈاکٹر ایزد ہمدانی امریکہ اور ایڈووکیٹ رحیم یارخاں قابلِ ذکر شخصیت ۔ہیں۔
بھاؤ راجپوت :-
بھاؤ راجپوت ، نارو راجپوتوں کی ذیلی شاخ بھاؤ راجپوت ہے جو دراصل نارو ہی ہیں . بھاؤ ڈوگری زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لُوٹ مار کرنے والے کے ہیں . بھاؤ کا لفظ چونکہ مقامی طور پر استعمال کیا گیا تھا اور بعد میں آہستہ آہستہ یہ لفظ متروک ہوگیا لیکن تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ہے .اصل میں نارو راجپُوتوں کے ایک قبیلے نے یہ ٹائٹل اپنے آپ کو چھپانے کے لئے استعمال کیا تھا لیکن بعد میں یہ ان کی ذیلی گوت بن گیا ، چونکہ یہ قبیلہ اپنے ذریعہ معاش کے لئے زیادہ تر لُوٹ مار پر ہی انحصار کرتا تھا تو اسی بنیاد پر نارو راجپوتوں نے اس قیلے کو بھاؤ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، لیکن تاریخ راجھستان کے مفصل مطالعہ سے اور تاریخ برصغیر پاک و ہند سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ٹائٹل " بھاؤ " ، دراصل وقتی اور علاقائی طور پر اسعمال کیا گیا اور بعد میں یہ نارو راجپوتوں کی سب کاسٹ کے طور پر بھی استعمال ہونے لگاَ .
بھاؤ ( نارو ) راجپوتوں کو باہو بھی کہا جاتا ہے جو کہ رگ ہنسی راجپوت ہیں اور ہنجاب کے علاوہ جموں اور کشمیر میں آباد ہیں . قبائیلی روایات کے مطابق یہ رگ بنسی راجپوت ہیں ان کا نیوکلیس ایودھیا ( بھارت ) ہے . ڈوگرے ابھی بھی اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ بھاؤ کا تعلق ڈوگرہ نسل سے ہے . ان کی روایات کے مطابق تین ہزار سال قبل ان لوگوں نے ہجرت کرکے جموں ، اکھنور کے نزدیک دریائے چناب کے کنارے پڑاؤ کیا . چودھویں صدی کے آغاز میں ان لوگوں نے ضلع گجرات کی جانب سفر کیا اور پاکستانی ضلع گجرات کے قیام کے دوران ہی انہوں نے اسلام قبول کیا . جب یہ گجرات میں قیام پزیر ہوئے تو وہاں کے مقامی راجپوت نارو تھے جو بڑے امیر کبیر تھے، اور یہ مہاجر ( بھاؤ ) نارو راجپوت غریب تھے ، اب انہوں نے امیر نارو قبائل کے تجارتی قافلوں کو لوٹنا شروع کیا اور یوں اپنی مالی پوزیشن مستحکم کی اور اپنی پہچان کو مقامی قبائل میں ضم ہونے سے بچانے کے لئے اپنے رہن سہن اور بودوباش کو الگ رکھا اور تہذیب و تمدن میں اعلیٰ روایات کو اپنایا ۔ بہادری ، شکاریات ، اور جنگ و جدل میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر یہ بھاؤ ( نار و) راجپوت ، کھاریاں ، بھمبھر ( آزاد کشمیر ) ضلع جموں اور گرداسپور میں جا آباد ہوئے اور 1957 ء کی جنگ آزادی میں دیدہ دلیری کے ساتھ بہادر شاہ ظفر کا ساتھ دیا اور اپنی ابائی رویات کے مطابق انگریز کے عسکری قافلوں کو لُوٹا اور بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو بچانے کے لئے جانوں کے نزرانے پیش کئے ، حتیٰ کہ 1857 ء میں ان کے گاؤں کے گاؤں انگریزوں نے تباہ و برباد کردئے اور ان کی ذاتی املاک ان کے نام سے توڑ کر ان کو مُلک کے باغی قرار دے دیا 1858 ء میں جب انگریز نے عام معافی کا اعلان کیا تو یہ بھاؤ راجپوت واپس اپنے دیش ( گرداسپور ) کو سدھارے اور کم ترین وسائل پر گزارہ کرنے لگے . انگریز نے کچھ زمینیں تو ان کو الاٹ کردیں لیکن زیادہ تر جاگیریں ان کو الاٹ نہ کی گئیں اور ان کو کہا گیا کہ ان جاگیروں کو ایسے ہی کاشت کرو اور اپنا مقدمہ گرداسپور کی عدالت میں لڑو اور اپنے اپ کو بے گناہ ثابت کرکے اپنی جائدادیں واپس الاٹ کر والو ۔ 1947 ء میں یہ بھاؤ راجپوت جو دراصل لُٹے پُٹے اور یتیم تھے اور کسمپُرسی کی زندگی گزار رہے تھے ، کہ پاکستان بن گیا ، پاکسان کے قیام کے وقت ان لوگوں کے ایک گاؤں کتووال ( گرداپسور تحصیل پٹھان کوٹ ) کے 267 مقدمات گرداسپور کی عدالت میں زیرِ سماعت تھے ۔ کتووال سے اُٹھ کر یہ لوگ جب پاکستان میں داخل ہوئے تو فیصل اباد کی تحصیل جڑانوالہ کے گاءوں 58 گ ب میں آ اباد ہوئے اور اب یہ عظیم لوگ چک نمبر 58 گ ب تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں آباد ہیں اور اسودہ زندگی گزار رہے ہیں .
( نوٹ : ایڈمن پیج کا مندرجہ بالا تاریخ کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہیں . )
حوالہ جات :
1 - ( ماخوز، تاریخ برصغیر پاک و ہند، تاریخ راجھستان ، راجپوت قبائل )
2 - تحریر و تحقیق : محمد رمضان شافی ( نارو، رابطہ نمبر 03008293325)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
25-جاتوراجپوت
انہیں توار یا تنوار کی شاخ بتایا جاتا ہے اور مشرقی پنجاب میں آباد ہیں ۔
ایک اور راجپوت بیٹا وطنِ عزیز پر قربان ہو گیا۔
سپاہی راؤ عمر دراز اپنے چار ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہو گئے۔ شہید کمانڈو راؤ عمر دراز جاٹو راجپوت تھے اور اِن کا تعلق مومن آباد ملتان سے تھا۔ راؤ عمر دراز اپنے فرائض FC بلوچستان میں ادا کر رہے تھے، پنجگور میں 3 جون کی صبح، دہشت گردوں کی طرف سے بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں کو ناکارہ بناتے ہوئے علاقہ کلئیر کر رہے تھے کہ اچانک دھماکے میں شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے۔ شہید کا جسد خاکی اِن کے گاؤں منتقل کیئے جانے کے بعد شہید کی نماز جنازہ اِن کے آبائی علاقے میں بروز ہفتہ بعد نمازِ ظہر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ادا کر دی گئی ہے۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔
شہید راؤ عمر دراز، راؤ رونق علی کے صاحب زادے تھے، شادی شدہ تھے اور دو بچوں کے باپ تھے۔ اِن کے دادا قیامِ پاکستان سے پہلے گاؤں حاجم پور تحصیل ہانسی ضلع حصار کے رہنے والے تھے۔
دُعا ہے کہ اللہ پاک راؤ عمر دراز اور اِن کے ساتھیوں کی شہادت منظور و مقبول فرمائے اور انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
26-جوئیہ راجپوت
****************************************************
جوئیہ قوم پاکستان کی مشہورقوم ہے
اور دیگر برصغیر کے ممالک میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس قوم کے افراد زمیندار، محنتی، جفاکش اور خود داری کے حوالے سے معروف ہیں۔ یہ پنجاب اور سندھ میں اکثریت سے ہیں۔جوئیہ راجپوت : جوئیہ خاندان قبیلہ کے معروف سردار لونے خان اور اس کے دو بھائی بر اور وسیل اپنے ہزاروں اہل قبیلہ کے ساتھ 635ھ کے قریب بابا فرید رحمۃ اللہ کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہوئے. بابا فرید نے لونے خان کو دعا دی، تو 12 فرزند ہوئے اس کا بڑا بیٹا لکھو خاں سردار بنا، بیکانیر میں رنگ محل کا قلعہ بنوایا بیکانیر میں قصبہ لکھویرا بھی اسی کے نام سے منسوب ہے۔ اس کی اولاد کو لکھویرا کہا جاتا ہے جو ضلع بہاولنگر اور پاکپتن میں آباد ہیں۔ بعض جوئیے اپنے قبیلے کو عربی النسل کہتے ہیں مگر اصل میں جوئیہ قوم ہند کی ایک قدیم قوم ہے۔ ٹاڈ کے مطابق جوئیہ قوم سری کرشن جی کی اولاد ہے یہ قوم پہلے بھٹنیر، ناگور اور ہریانہ کے علاقہ میں حکمران تھی اب بھی بھی یہ قوم راجپوتانہ میں اور اس کے ملحقہ علاقے میں کافی تعداد میں آباد ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ قبیلہ بیکانیر سے ہجرت کر کے زیادہ تر ریاست بہاولپور اور ضلع ساہیوال، عارف والا، پاکپتن میں آباد ہو گیا۔ ساتویں صدی ہجری میں جوئیوں کی بھٹی راجپوتوں سے بے شمار لڑائیاں ہوئیں، دسویں صدی ہجری میں راجپوتانہ کے جاٹ اور گدارے جوئیوں کے خلاف متحد ہو گئے ان لڑائیوں سے تنگ آکر دریائے گھاگرہ کے خشک ہونے کی بنا پر جوئیہ سردار نے دسویں صدی ہجری میں اپنے آبائی شہر رنگ محل کو خیر باد کہا اور دریائے ستلج کے گردونواح ایک نیا شہر سلیم گڑھ آباد کیا زبانی روایات کے مطابق سلیم گڑھ کا ابتدائی نام شہر فرید تھا۔ بعد میں نواب صادق محمد خان اول نے لکھویروں کے محاصل ادا نہ کرنے کی وجہ سے نواب فرید خان دوم اور ان کے بھائی معروف خان اور علی خان کے ساتھ جنگ کی. جس کی بنا پر جنوب میں بیکانیر کی سرحد تک اور شمال میں پاکپتن کی جاگیر تک نواب صادق محمد خان کا قبضہ ہو گیا اور لکھویرا کی ریاست بہاولپور کی ریاست میں مدغم ہو گی. تاہم بعد ازیں شاہان عباسی نے لکھویروں کی ذاتی جاگیریں بحال کر دیں اور انہیں درباری اعزازات بھی دیے۔ جنرل بخت خان جنگ (آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سپہ سالار) بھی جوئیہ تھا یہ کوروپانڈوؤں کی نسل سے خیال کیے جاتے ہیں۔ راجپوتوں کے 36 شاہی خاندانوں میں شامل ہیں۔ ایک روایت کے مطابق راجا پورس جس نے سکندر اعظم کا مقابلہ کیا، جوئیہ راجپوت تھا۔ ملتان بار اور جنگل کے بادشاہ مشہور تھے۔ چونکہ سرسبز گھاس والے میدان کو جوہ کہا جاتا ہے۔ اسی جوہ کے مالک ہونے کی وجہ سے یہ جوھیہ اور جوئیہ مشہور ہوئے جو بابا فرید رحمۃ اللہ کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہوئے.لونا کے والد کا نام گراج تھا۔ اور دادا کا نام جیسنگ تھا۔ جیسنگ کے دو بیٹے تھے۔ ایک بیٹا ہراج اور دوسرا گراج۔ ہراج کے بیٹے کا نام چونڈرا یا چونڑا تھا۔ ہراج نے گراج کو ایک قطعہ زمین کی خاطر قلعہ کھربارہ میں قتل کیا۔ بعد ازاں اسی دشمنی کی وجہ سے چونڈرا نے لونا کو قتل کیا۔ اسی طرح جوئیہ فیملی کی ایک گوت ہراج اور چونڈرا بھی ہے۔
قبول اسلام،
اس سوال کا عام طور پر جواب يہ ديا جاتا ھے کہ اس قوم کو حضرت بابا فريد الدين گنج رحمتہ اللہ کے ہاتھوں اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا. پوری جوئيہ قوم کے حوالے سے يہ بات نامکمل بھی ھے اور تحقيق طلب بھی. دراصل جوئيہ قوم کا شمار ہندوستان کی ان قوموں ميں ہوتا ھے جس کے کچھ ( اکثر ) افراد مسلمانوں کے فاتحين کے سلسلہ آمد سے قبل مسلمان ہوئے. دوسری اہم بات يہ ھے کہ اس قوم کو کسی ايک بزرگ نے مسلمان نہیں کيا مختلف ادوار ميں مختلف بزرگوں کے ہاتھوں يہ مشرف بااسلام ہوئی.
لالہ رام رکھا مل ملہو ترا راجپوتوں کے خصائل کے بارے میں لکھتا ھے.
'راجپوت بڑ ے بہادر' جنگجو' غيرت مند اور وعدے کے پکے تھے انہيں اپنی عزت کا بڑا پاس تھا اور بے عزتی پر
موت کو ترجيح ديتے تھے آزادی اور خودداری کے دلدادہ تھے. عورتیں دير اور پاکدامن ہوتی ھيں جب دشمن سے بچاؤ کی صورت نہ ديکھيں تو ''رسم جوھر''ادا کرتيں يعنی زندہ جل کر مر جاتيں. مردوں کی بہادری کا يہ عالم تھا کہ نہتے اور سوئے ياگرے ہوئے يا گرے ہوئے دشمن پر حملہ نہ کرتے تھے ''.
ايک روايت يہ بھی ھے ( واللہ اعلم بالصواب ) کہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم ہر نماز میں مشرق کی جانب رخ مبارک فرما کر دعا فرمايا کرتے تھے. صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمايا ''مشرق ميں ايک ايسی قوم آباد ھے جس ميں اسلام کی تمام خوبياں موجود ھيں يعنی وہ وعدے کے پکے ' پاکدامن 'بہادر اور ھٹ کے پکے ھيں. صرف کلمہ پڑھنے کی پڑھنے کی کسر ھے ''. يہ راجپوت قوم ہی کے بارے ميں فرمايا گيا.
سرزمین عرب میں طلوع اسلام کے وقت ہندوستان کے وسيع علاقوں خصوصاً پنجاب میں جوئيہ قوم کا وجود ملتا ھے.
مورخين کے مطابق يہ قوم قدیم ايام سے يہاں مسکن پزير تھی.
جوئيہ گوتيں
ابھريرے-اجيرے -ادميرے -ادلانے -ادوکے -اسمعيل کے-اسحاق کے- الپہ-امدانی-ايبک-اٹھوال-بلانے-بدانے-بلوانہ-بلوکے-بہادرکے -بيگ کے -برخے کے -بالے کے -بگريرے - بھٹنيرے - باھورانے -بھاٹے کے -بھلوکے -بھکرانی -بھراج کے -بھورے کے -بھڑيرے -بھيکھارانی -بلھياری -بٹٹرے -برے -بلوچ خيل -برہان کے - بليال کے -پانجيرہ -پہلوان کے -پہاڑے کے -پھتورا -پہاڑے خيل -پہنے خيل -تگيرے _ٹھٹھے واليے -جمليرے -جودھيکا -جلوکے -جسپليرے -جلوانے -جھنڈے کے -جونے کے -جدھيانے -جوگےکے -جوئيہ -جوئیو_جوعا-جنوعا -جوئيہ زئی-جوئيہ خيل -جھميرے -جھنڈے خيل -جين کے -جليرے -جہاں بيرے -جتيرہ -جلويرہ -جماليکے -جلال کے -جندے کے _جاگن کے _چنگے کے _چاؤيکے _چھلڑے _چکوکا _چابہ _چونڈرے_حاجی کے _حسن کے _حامندکے _حمديرے _حسين خيل _خصر کے _خانيکے _خيراکے _خان خيل _دلےکے _دولتانے _دہکو_دلاورکے_دليلےکے_ڈھيڈے_ڈورےخيل _ڈھبکڑے _راضائےخيل _راٹھ_رانوکے_رمديرے_رنديرے_رونت_رانےکے_رتھ_رتھال کے _راضی خيل _راجيکا_زيرک_زمانيکا_سنتيکے_سوائےکے_سلديرے_سليرے_سلميرے_سادہ کے _ساھوکے _سليال کے _سرون کے _سيلم کے _سوڈھےکے_سيسی_سيرانی_سيلم خانی _سيلم رائے _سجن کے _سادھورانی_سخبرانی_سپرانی_
سباجی_سابوکے_سمليرے_سلجيرے_
سيکر_سمنداکے_ساوند_سوھنےخيل _سيکھوکے_سريرے_سال ھوکا_ساہکا_ستارکے_سماعيل کے _شنيکی _شادی خيل _شادوکے_شيخوکے_شالبازی_شاميکے_شريف خيل _صادق کے _صابوکے_صوبہ کے_ظريف خيل _عالم کے _عاکوکے _عسکيرے_غازيخنانے_غلام محمد خيل _فريد کے _فتويرے _فتولاں کے _فقير_فيروزکے_فصلوخيل_فتح خيل _قائم کے _قاسم کے _کبےکے _کلاسی _کمرانی _کليرے _کھيواکے _کميرے _کالو _کريانی _کامل کے _کھپريرے _کوڈيکے _گاگن کے _گاڈی واھنے _گوگا_گراج کے _گندڑا_گاموں کے _گنجو _گاھنڑے خيل _گگريڑے _گلابی_گبوری_گھليکا_گاموں کے _لاليکا_لکھويرے_لطفيی_لکھوکا_لوھيے کا_لنگاھےکے_لاھر_لنگرےکے_ليدھرا_
لعل خيل _ملکيرے _ممديرے _مدوکے_مگھيرے_مديرے_ممليرے_
مموں کے _مومےکے _مسےکے _ماھمےکے _معراج کے _مانڈل _مہروکے _مادھورانی _منگھير_مسوانہ_مليرے_مامورکے_
محمد کے _محرم خيل _موسی خيل _ماٹن_مانک ويرے _مغلانے _محکم خيل _محمد خيل _موسی کے _مستقیم کے_نہال کے _نسريرے _نامے کے _نہالکہ _نصيرکے _نورخيل _ہمديرے _ولی کے _واھيہ راجپوت _وزيرکے _وسلديرکے _وساؤے خيل _واگہہ_وڈجوئيہ_ولياکے_ہراج کے_يکتاری_
يونس کے _يوسف کے _يارے خيل _يسين کے _ياراکے. حوالہ تاریخ جوئیہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
27-وریاہ راجپوت
براہ راجپوت اسپیشل ۔
براہ یا وریاه راجپوت تاریخ پر آج تک بہت کم لکھا گیا ہے اور ان کے ماضی کے متعلق بہت کم معلومات یا تاریخ دستیاب ہے ۔ ایک راجپوت لکھاری راؤ ذوالفقار علی عنبر ، براہ یا وریاه راجپوت تاریخ پر ایک مفصل کتاب لکھ رہے ہیں جو تقربیاً مکمل ہوچکی ہے اور تکمیل کے قریب ہے ۔ جو براہ دوست اپنے خاندان سے متعلق کوئی تفصیل اس کتاب میں شامل کروانا چاہتے ہوں یا کوئی معلومات فراہم کرنا چاہتے ہوں ، اپنی کاپی بک کرونا چاہتے ہوں یا کسی قسم کا مالی تعاون کرنا چاہتے ہوں وہ راؤ ذوالفقار صاحب سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔ آج کے دور میں ایک اِس طرح کی کتاب کی چھپائی ، ایک مُشکِل اور مہنگا کام ہے ۔ اگر اس گوت کے دوستوں کی مدد اور تعاون شامل ہو گا تو یہ کتاب اِن کی آنے والی نسلوں کے لیے اپنا ماضی جاننے کے لیئے ایک کار آمد اور مؤثر زریعہ ثابت ہو گی ۔
رابطہ نمبر راؤ ذوالفقار علی عنبر :
03017581855 وٹس ایپ نمبر بھی یہی ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
28-ڈوگرا راجپوت
****************************************************
اس کا آغاز، گلاب سنگھ سے ہوتا ہے جو رنجیت سنگھ کے عہد میں سکھ سلطنت میں اعلیٰ عہدےدار تھا۔ 1839ء میں رنجیت سنکھ کی موت پر لاہور دربار رنجیت سنگھ کے وارثوں اور فوجی سربراہوں کے درمیان میں جنگ اقتدار کی اماجگاہ بن چکا تھا۔ اسی اثنا میں سکھوں اور انگریزوں کی کشمکش بھی شروع ہو چکی تھی۔ گلاب سنگھ نے خفیہ طور پر لاہور دربار کے خلاف اںگریزوں کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ فروری 1846ء کو معاہدہ امرتسر طے پایا۔ جس کے تحت سات لاکھ کے آبادی والے کشمیر کو سات لاکھ روپے کے عوض گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا۔[ا]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
29- وٹو راجپوت
وٹو قوم کے بانی کا نام ادھم تھا جو ہندوستان کے کسی راجے کی گیارہ بیویوں میں سے ایک کی اولاد تھا زیادہ غصیلہ ھونے کی وجہ سے وٹو ھوگیا۔..یعنی زیادہ وٹ والا یا وٹ رکھنے والا۔ پنوار راجپوتوں کی تین شاخیں جنہوں نے بابا فرید رحمہ اللہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ان میں کھرل سیال اور ڈوگر ہیں لیکن زیادہ تر کہا جاتا ہے کہ ڈوگر چوہان راجپوت کی نسل سے ہیں۔اس کے علاوہ وٹو اور کچھ بھٹی ہیں جنہوں بابا فرید کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا بابا فرید کے حکم پر سیال دریائے چناب کے کنارے آباد ھو گئے کھرل راوی کے کنارے آباد ھو گئے ڈوگر اور وٹو ستلج کے کنارے آباد ھوگئے اور یہاں ان قوموں نے اپنا آبائی پیشہ سپاہ گری اور جنگجوئی چھوڑ کر کھیتی باڑی شروع کر دی، سیال کھرل ڈوگر اور وٹو تینوں میں زیادہ تر لوگ اپنے آپ کو راجپوت نہیں سمجھتے کیونکہ ان کا اور ہم راجستھان کے دیگر راجپوت قبائل سے ان کا 5 صدیوں کا فاصلہ ھو گیا یہ پانچ صدیاں انھوں نے جٹوں میں کھیتی باڑی کرتے گزاریں اس وجہ سے یہ اپنے آپ کو راجپوت نہیں سمجھتیں اور ہمارے راجپوتوں میں بھی اکثر ان کو راجپوت نہیں سمجھتے لیکن اب ہمارے بہت سے دوست جو کھرل اور سیال ہیں چند سال پہلے ہم سے لڑ پڑتے تھے جب انہیں بتایا جاتا تھاکہ تم راجپوت ھو۔ڈوگر تو جٹ قبائل کی گوت ہے اور وہ خود کو جٹوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔
پروفیسر محمد طفیل نے وٹو قوم کی تاریخ پر مستقل مدلل ضخیم کتاب لکھی ہے،کچھ روایات کے مطابق ، وٹو کا تعلق راجکوٹ سے ہوا ، جو سیالکوٹ کے مشہور راجہ سلواہن کی اولاد ہے۔ یہ راجہ جونہار بھٹناڑ میں آباد ہوا ، جہاں اس کے دو بیٹے ، جیپال اور راجپال تھے۔ جیپال بھٹیوں کا آباؤ اجداد تھا ، جبکہ راجپال وٹو کے آباؤ اجداد تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے پاکپتن کے مشہور صوفی بزرگ بابا فرید کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔
دوسرے ذرائع نے تجویز پیش کی ہے کہ ہندو مذہب سے اسلام قبول کرنے کا کام فیروز شاہ تغلق کے دور میں ہوا تھا۔
“فیروز شاہ تغلق کے دور میں کچھ وٹو کو اسلام قبول کیا گیا تھا۔
راجہ کھیوا ، ساہیوال کے قریب حویلی لکھا کا حکمران تھا ، جو ان کے قبیلے میں پہلا مسلمان تھا۔ ان کے بعد مشہور وٹو چیف لکھے خان نے ان کی جگہ لی۔ اس کی اولاد لکھویرا وٹو کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے بعد وہ ساہیوال سے ستلج کے کنارے پھیل گئے ، جہاں سے مشرق کے مشرق میں ہی سرسہ آباد ہوا۔ سرسہ آبادکاری کا آغاز ایک فاضلداد رانا نے کیا تھا ، جو 18 ویں صدی کے اوائل میں اس ضلع میں آباد تھا۔ قبیلہ اس وقت جانوروں کے چارے کے سلسے میں سفر کرتے اور، اپنے مویشیوں کے ریوڑ کو فاضلکا سے اوکاڑہ اور واپس لے گیا۔ 1857 کی جنگ آزادی میں وٹو کے سربراہ برطانیاں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
انیسویں صدی میں ، ستلج کی وادی میں ان کی تقریبا تمام روایات کے مطابق چرنے کے میدان برطانوی حکام کے ذریعہ نہر نوآبادیات کے تابع تھے۔
بہاولپور میں وٹو قبیلے کی اپنی اصل کی ایک الگ روایت ہے۔ ، جیسلمیر کے بانی ، راجہ جیسل سے آٹھویں نمبر پر۔ وٹو نے جیسلمیر چھوڑ دیا ، اور دریائے ستلج کے کنارے آباد کیا ، جو اب جنوبی پنجاب ، پاکستان میں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے دہلی کے سلطان فیروز شاہ تغلق کے دور میں اسلام قبول کیا۔
تقسیم
تقسیم ہند سے قبل ، وٹو کا دور جدید ہریانہ ریاست میں ، سرسہ تک مشرق تک تھا۔ فاضلکا میں بڑی تعداد میں کالونیاں تھیں جو اب پنجاب ، ہندوستان میں ہیں۔ یہ تمام کمیونٹیز 1947 میں پاکستان ہجرت کر گئیں۔
اب جو پاکستان ہے ، وٹورا اوکاڑہ سے لودھراں تک ، ستلج وادی کے ساتھ مل گیا۔ کچھ وٹو نے راوی کو عبور کیا تھا اور اب جو فیصل آباد ضلع ہے میں آباد ہوگیا تھا۔
وٹو قبیلے اب مندرجہ ذیل اضلاع میں پایا جاتا ہے۔ ضلع اوکاڑہ ، ضلع پاکپتن ، ضلع بہاولنگر ،ضیلع قصور, ضلع شیخوپورہ ، ضلع ملتان ، ضلع ننکانہ صاحب ، چک وٹواں 638 گ ب فیصل آباد ضلع ، خوشاب ضلع ، بہاولپور ضلع۔ اور ضلع میانوالی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
30- منگرال راجپوت
منگرال راجپوت قبیلہ ریاستِ جموں کشمیر کا ایک بااثر قبیلہ ہے۔ جو ریاست کے مختلف علاقوں میں صدیوں سے آباد چلا آ رہا ہے۔ ریاست کے جنوبی اضلاع میں منگرال قبیلہ کو منفرد سماجی مقام حاصل رہا ہے۔ اس خاندان کو اس خطہ میں سیاسی تسلط بھی حاصل رہا ہے۔ مقامِ حیرت ہے کہ اس سیاسی اور سماجی مرتبہ کے باوجود آج تک کسی نے نہ تو اس قبیلہ کی تاریخ مرتب کی اور نہ ہی اس کے کارہائے نمایاں کو اجاگر کیا۔
پروفیسر راجہ نوید احمد دادِ تحسین کے لائق ہیں جنھوں نے اس مشکل کام کو سرانجام دینے کا بیڑا اٹھایا۔ بیسیوں کتابوں کے گہرے مطالعہ اور طویل تحقیق و جستجو کے بعد انھوں نے قبیلے کی تاریخ مرتب کی اور درجنوں شجرہ ہائے نسب جمع کیے۔
راجہ نوید احمد ایک راست باز، سچے اور کھرے انسان ہیں، اپنی دھن کے پکے اور عزم و استقلال سے کام کرنے والے۔
بقولِ اقبال
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
مصنف اپنے انھی اوصاف حمیدہ کے باعث وسیع حلقہ احباب رکھتے ہیں۔ مصنف نے جب کام کا آغاز کیا توان کی راہ میں بہت ہی رکاوٹیں آئیں۔ اس سفر میں انھیں ہمت دلانے والے کم تھے اور حوصلہ شکنی کرنے والے زیادہ۔ کسی نے اس منصوبے کو دیوانے کا خواب قرار دیا، تو وہ ہنس دیے، کسی نے اس کو ناممکن قرار دیا تو انھیں نیا حوصلہ ملا۔ یہ ان کی خوش بختی تھی کہ اپنے والد گرامی کی حوصلہ افزائی اور مفید مشورے انھیں ہمیشہ حاصل رہے اور ان کی دعائیں قدم قدم پر ان کے ساتھ رہیں۔ وہ اپنے والد کی رہنمائی میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ مگر شومئی قسمت کہ وہ اپنے والد کی حیات میں اس منصوبہ کو پایہء تکمیل تک نہ پہنچا سکے، جس کا انھین قلق ہے۔
جموں سے قبیلہ ہائے نسب کا حصول آسان کام نہ تھا۔ مگر راجہ نوید احمد نے ہمت نہ ہاری۔ کئی سالوں کی محنت شاقہ سے بالآخر وہ تمام تر شجرے اکھٹے کرنے میں کامیاب رہے۔ منگرال قبیلہ کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ مصنف نے قبیلہ کی مستند تاریخ جمع کرنے کے لیے کئی لائبریریوں کو چھان مارا، بیسیوں کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا، علمی و ادبی شخصیات سے معلومات اکٹھی کی اور جہدِ مسلسل کے بعد وہ قبیلہ کی مستند تاریخ قارئین تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اس کتاب کو منصئہ شہود پرلا کر انھوں نے نہ صرف اپنے علمی پیاس بجھائی بلکہ اپنے واالدِ محترم کی دیرینہ خواہش کو پورا کر کے ان کی روح کو بھی تسکین پہنچائی۔ یہ اس علاقہ کی پڑی علمی خدمت ہے۔ یہ کتاب لکھ کر انھوں نے منگرال قبیلہ کو حیات بخشی۔ ان کا یہ کارنامہ لائق ستائش ہے۔ خدا انھیں جزائے خیر دے۔
یہ کتاب اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہ مستند شجرہ جات پر لکھی جانے والی تصنیف ہے۔ اپنے خطے کے نمایاں سیاسی و سماجی شخصیات کے تعارف اور تفصیلی احوال سے کتاب کی افادیت کو دو چند کر دیا ہے۔ قبیلہ کے چیدہ چیدہ افراد کی تصاویر نے کتاب کی زینت کو بڑھا دیا ہے، عام قاری کے لیے کتاب میں ریاستِ جموں و کشمیر سے متعلق بیش قیمت معلومات موجود ہیں۔
چودھری محمد شبیر
ایسوسی ایٹ پروفیسر
گورنمنٹ ڈگری کالج ڈڈیال، ضلع میر پور آزاد کشمیر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
31- تھکیال راجپوت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
32- جموال راجپوت
منہاس, جموال یہ راجپوت قبائل آپس میں بھائی بند ہیں اور ان کا نسبی تعلق رام چندر جی کے بیٹے " کُش" سے ہے۔ راجا جامبو لوچن کی اولاد پشت در پشت ریاست جموں پر حکومت کرتی رہی. جامبو لوچن کی اولادوں کا تعلق چونکہ شاہی گھرانے سے تھا لہذا وہ بھی اپنے باپ کی نسبت سے جموال کہلایں.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
33- تیزال راجپوت
تیزیال کون ہیں۔تیزیال دراصل راجا کھکھہ خان کی ہی اولاد ہیں۔ تو آج یہاں مصدقہ حوالے کے ساتھ، تیزیال گوت کے بارے میں . تیزیال راجپوت، راجا مل کے بیٹے، راجا کھکھ کی نسل میں سے ہیں۔ راجا مل سے راجا تیز خان ( مورثِ اعلٰی تیزیال گوت ) تک کا شجرہ کچھ اس طرح سے ہے : راجا مل ← راجا کھکھ ← راجا منگی خان ← راجا شیر علی خان ← راجا پنجو خان ← راجا فیروز خان ← راجا ڈھونڈا خان عرف تیز خان . اگر اس پوسٹ کا مکمل مطالعہ کیا جے تو اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ہر تیزیال راجپوت اصل میں کھکھ راجپوت ہے تو پھر تیزیال اور کھکھ دونوں جنجوعہ بھی ہوئے . راجا کھکھ کون تھے؟ ان کی اولاد کتنی تھی؟ ان کی اولاد کہاں کہاں آباد ہے؟ تیزیال کون ہیں؟ تیزیال گوت کا نام کس طرح پڑا؟ کن کن علاقوں میں میں آباد ہے؟ یہ سب کچھ جاننے کے لیے مزید تاریخی حوالہ جات کے ساتھ ترمیم کی جاتی رہے گی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
****************************************************
34- کچھی راجپوت
کھچی ایک راجپوت ذات ہے۔
کھچی قوم کی اکثریت ملتان اور ساہیوال کے درمیانی علاقوں میں آباد ہیں ۔ جھنگ اور لاہور کے اضلاع میں بھی یہ کافی تعداد میں آباد ہیں ۔ جبکہ ان کے بے شمار خاندان گوجرانوالہ ، شاہ پور سرگودھا اور بہاولپور کے اضلاع میں آباد ہیں ۔ علاوہ ازیں ان کے خاندان ضلع جہلم ، گجرات اور مظفر گڑھ میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ پنجاب کے یہ لوگ ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان میں بھی آباد۔
نسب و نسب کے لحاظ سے کھچی راجپوت ہیں ۔ ان کے جد امجد کا نام کھچی یا کھچی خان بتایا جاتا ہے ۔ یہ شخص اجمیر کا حاکم تھا اور دربار دہلی میں بھی اس کی رسائی تھی ۔ جب دہلی کے چوہان راجپوت حکمرانوں کو مسلم حملہ آوروں کے ہاتھوں شکست ہو گئی تو اس کھچی کی اولادیں بھی بکھر گئیں ۔ تاہم مغل حکمرانوں کے دور میں کھچی کی اولادوں میں سے رو شخص جن کے نام سیسان اور وادان بنائے جاتے ہیں آپس میں سگے بھائی نقل مکانی کرکے ملتان میں وارد ہوئے۔ ملتان میں آ کے علاقے میں آکر سیسان نے فدہ گاؤں آباد کیا جبکہ وادان نے شیر گڑھ کی بنیاد ڈالی ۔ اس علاقہ میں اس قوم نے جوئیہ قوم کے ساتھ جنگ بھی کی تھی ۔ اس دور میں ان کے سرداروں کے نام لونا کھچی، سخی دلیل خان اور علی خان تھے ۔ کھچی قوم میں ان تینوں سرداروں کے نام آج بھی عزت و احترام سے لئے جاتے ہیں ۔
ایک اور روایت اس قوم کی مغربی پنجاب میں آباد کاری کے متعلق یہ بھی ملتی ہے کہ مغل دور حکومت میں ان کے دو سردار حسین خان اور حاجی فتح خان پہلے پہل اس علاقہ میں آئے تھے ۔ یہ دونوں سردار آپس میں سگے بھائی تھے اور مغل فوج کے عہدیدار بھی تھے ۔ ان دونوں بھائیوں کو کسی مغل حکمران نے مغربی پنجاب میں بلوچوں کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا تھا ۔ ان دونوں نے بلوچوں کو شکست دی اور پھر یہیں آباد ہوگئے ۔ بہر کیف یہ واقعہ تاریخ کی کسی کتاب میں ہمیں نہیں ملتا ۔ ممکن ہے ان کے دو سرداروں سیسان اور وادان نے مغل دور میں اسلام قبول کیا ہو اور ان کے اسلای نام حسین خان اور فتح خان رکھے گئے ہوں ؟
سکھوں کے دور میں بھی قوم کی سکھوں سے لڑائی مشہور ہے ۔ انہوں نے سکھوں کے سردار گنڈا سنگھ اور جھنڈا سنگھ کا بھی بڑی پامردی سے مقابلہ کیا تھا ۔ یہ الگ بات کہ اس جنگ میں انہیں بے حد جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا ۔ کھچی قوم اب بھی میلسی اور اس کے نواحی علاقوں میں کافی تعداد میں آباد ہے اور اس علاقے میں سماجی لحاظ سے انہیں نمایاں و بلند مقام حاصل ہے ۔ انگریز دور میں ان کے سردار نور محمد آف فدہ اور اعظم خان آف علی واہ کافی مشہور تھے ۔ تحصیل میلسی ضلع ملتان کے کھچی قوم کے خاندانوں میں یہ روایت مشہور ہے کہ وہ لوگ ساہن پال نامی ایک شخص کی اولاد ہیں۔
اور پلے پہل حکیم کھچی میں آباد ہوئے تھے ۔ بعد میں ان کے خاندان کے ایک بزرگ صوبیدار رائے لونا یہاں آکر مقیم ہوئے تھے ۔ مغل بادشاہوں کے عہد میں ان کے سرداروں نے کافی عروج حاصل کیا تھا ۔ ان کے سردار حسین خان بھی اور حاجی فتح خان کھچی نے مغل دور میں بلوچوں کے خلاف جنگی خدمات سرانجام دی تھیں ۔ میلسی کا شہر بھی اس قوم کے ایک بزرگ میلسی نامی نے آباد کیا تھا ۔ اس کے علاوہ کی دیگر مواضعات بشمول سرگانہ، فده، علی واہ غلام حسین، عمر کھچی ، حلیم کھچی، جنگل سکندر آباد، ڈهمکی و ترکی وغیرہ ان میں مشہور سردار علی خان کھچی نے علی واہ آباد کیا تھا ۔ انگریز دور میں زیلدار بھی رہے ہیں۔
****************************************************
35- کھگہ راجپوت
کھکھہ راجپوت کشمیر پاکستان و بھارت میں آباد ایک ذی حیثیت قبیلہ ہے۔ یہ قبیلہ اپنی عظیم تاریخی روایات کا حامل ہے اور اپنے موروث اعلی کے نام کی مناسبت سے کھکھہ راجپوت کہلاتا ہے۔
کھکھہ خاندان نے جنجوعہ راجپوت سے جنم لیا جن کا جدامجد مہا بھارت کے پانڈو خاندان سے تھا اس کا نام مہاراجا جنمے جایا تھا۔ جنمے جایا کا شجرہ ارجن سے جا ملتا ہے۔ راجا جنمے جایا کے خاندان سے رائے دھروپت دیو جنم لیا اور اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام رائے اجمل جنجوعہ تھا۔
رائے اجمل اپنی جوانی میں بارہویں صدی عیسوی میں شہاب الدین غوری سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوا اور اپنا نام رائے کی جگہ راجا سے تبدیل کر دیا۔ راجا اجمل جنجوعہ نے رقصِ شاہی کی ملازمت سے منسلک ایک عورت سے شادی کی جس کی اولاد میں سے رائے مل یا راجا مل خان پیدا ہوا جس نے کوہستان نمک کی کان سے باقاعدہ تجارت کا آغاز کیا ۔
راجا مل خان کے پانچ فرزند ہوئے جن میں راجا تنولی، راجا جودھ، راجا کھکھا، راجا بھیر اور راجا کالا خان پیدا ہوئے۔ جنھوں نے کاروبار کے بالترتیب امب (موجودہ کے پی کے)، جہلم، نیلم ( آزاد کشمیر)، چکوال اور کہوٹہ میں سکونت اختیار کی۔ بعد ازاں ان میں سے دیگر اپنی اولاد اور ہمراہوں کے اثر و رسوخ سے کچھ حد تک اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں بھی کامیاب رہے۔
****************************************************
36- خانزادہ راجپوت
میوات کے خانزادہ راجپوتانہ کے سرداروں کا ایک خاندان تھا جن کا دارالحکومت الور میں تھا ۔ خانزادے مسلمان راجپوت تھے جو راجہ سونپر پال کی اولاد تھے اور وہ ایک جدون راجپوت تھے جنہوں نے ہندوستان میں دہلی سلطنت کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا ۔ [1]
میوات ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا تھا ، اس میں ضلع الور میں تحصیل ہتھن ، نوہ ضلع ، تجارا ، گڑگاؤں، کشن گڑھ باس ، رام گڑھ ، لکشمنگڑھ تحصیل اراولی رینج اور راجستھان کے بھرت پور ضلع میں پہاڑی ، نگر ، کمان تحصیل اور اترپردیش کے ضلع متھراکا کچھ حصہ شامل تھا۔
تاریخ
1372 میں ، فیروز شاہ تغلق نے راجہ ناہر خان ، (جو پہلے راجہ سونپر پال کے نام سے جانا جاتا تھا ، کوٹلہ تیجارا کے) کو میوات کی سرداری عطا کی ۔ راجہ ناہر خان نے میوات میں موروثی طرز عمل قائم کیا اور ولی میوات کے لقب کا اعلان کیا۔ بعد میں ان کی اولادوں نے میوات میں اپنی خود مختاری کی تصدیق کردی۔ انہوں نے 1527 تک میوات پر حکومت کی۔
شہر سے الور قلعے کا دور نظارہ
بالا کوئلہ سے الور شہر کا نظارہ۔
زوال
میوات کا آخری خانزادہ راجپوت حکمران حسن خان میواتی تھا ، جو خانوا کی جنگ میں فوت ہوا۔ اس جنگ کے بعد ، میوات کو مغل سلطنت میں ضم کر دیا گیا اور خانزادے مغل اشرافیہ کا حصہ بن گئے۔ اگلی صدیوں میں ، خانزادوں نے میوؤں سے شادی کرنا شروع کی جو غیر راجپوت نسل کے مقامی مسلمان مذہب تھے۔ یہ بین شادی اس وجہ سے ہوئی ہے کہ بھرت پور میں جاٹوں کے اضافے سے خانزادوں کی معاشرتی سلامتی کو خطرہ تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عمر عطا بندیال (پیدائش:17 ستمبر 1958ء) ایک پاکستانی قانون دان ہیں جو 17 جون 2014ء سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس ہیں۔[1] صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 13 جنوری 2022ء کو جسٹس عمر عطا بندیال کی بطور چیف جسٹس پاکستان تقرری کی منظوری دی۔[2] جسٹس بندیال 2 فروری 2022ء سے 16 ستمبر 2023ء تک ایک سال چھ ماہ اور 25 دن کے لیے چیف جسٹس بنیں گے۔[3]
انہوں نے 1979 میں کولمبیا یونیورسٹی سے معاشیات میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور 1981 میں کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔[1][4][5]
1983 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ کے طور پر اور کچھ سال بعد سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ کے طور پر داخلہ لیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال 4 دسمبر 2004 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔
جلندھر کے راجپوت کھوکھر.
جلندھر میں کھوکھر راجپوت 12 بڑے گاؤں اور 10 چھوٹے گاؤں کے مالک تھے..قیام پاکستان کے وقت تمام راجپوت کھوکھر پاکستان آ گئے.جلندھر کے کھوکھر راجپوت رانا کا لقب لگاتے ہیں.
راجپوت
کھوکھر ہشیاپور
ہشیاپور میں
کھوکھر راجپوتوں کے چالیس گاؤں تھے.جس وجہ سے اس علاقے کو ” چالیہ کھوکھراں “ کہا
جاتا تھا.ان چالیس دیہات میں سے 27 دیہات تحصیل کپورتھلہ(سابقہ ریاست) اور 13 دیہات
تحصیل دسوہہ میں تھے.
تحصیل کپورتھلہ میں بیگوال خاندان کا نام تاریخی طور پر اہم ہے.بیگوال خاندان سے بڑے اہم نام پاکستانی سیاست میں متحرک ہیں.کتاب تاریخ راجپوت کھوکھر کے مصنف جناب محترم رانا سرور خاں کا تعلق بھی بیگوال خاندان سے تھا.تقسیم ہند کے بعد تمام مسلمان کھوکھر راجپوت پاکستان آ گئے.اور اب پنجاب میں مختلف علاقوں میں آباد ہیں
چوہدری
برادران (راجپوت کھوکھر)
چک 112 جڑانوالہ فیصل
آباد.
چوہدری علی
اکبر خاں گرداسپور کے مشہور و معروف شخصیت جس کی خاندانی سربنلدی سیاسی شہرت اور
شخصی وجاہت علاقہ بھر میں مثالی تھی.متحدہ ہندوستان میں انگریز کی مضبوط انتظامی
گرفت اور ہندو شاطرانہ سیاسی طاقت کے سامنے اس دور میں چوہدری علی اکبر مرحوم نے
اپنی شخصیت کو نمایاں اور باوقار رکھا انہوں نے اس وقت کی دو بڑی طاقتوں سے ٹکر لی
اور کامیابی نے اس مرد قلندر کے قدم چومے.سن 1910 ء میں خداوند کریم نے انہیں دولت
فرزند سے نوازا.گرداسپور میں آنکھ کھولنے والا بچہ زندگی کے ہر امتحان میں اپنی
خداداد صلاحیتوں اور ان تھک محنت جدوجہد کے بل بوتے پر کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہوا
لائلپور موجودہ فیصل آباد کے باسیوں کے سامنے مخدوم چوہدری محمد بشیر خاں کی حثیت
سے آیا.چوہدری محمد بشیر خاں مرحوم میٹرک سے لاء Law تک سکالر شپ
ہولڈر رہے. کھیلوں کے میدان انکی برتری مسلمہ تھی.پنجاب یونیورسٹی کے بہترین اتھلیٹ
رہے بعد ازاں ڈیرہ غازی خاں میں 8 برس تک ایک مجسٹریٹ کی حثیت سے اپنی صلاحیتوں کا
لوہا منوایا اور پھر لائلپور(فیصل آباد) میں وکالت شروع کر دی.مرحوم بشیر صاحب کا
سماجی قد لائلپور(فیصل آباد) میں نمایاں تھا.چوہدری محمد بشیر انجمن راجپوتاں کے صدر بھی تھے.عمر بھر بڑے بے لوث انداز میں
سماجی کاموں میں حصہ لیتے رہے انہوں نے زندگی بھر ان تھک محنت کی اور اپنے پیشہ
ورانہ فرائض کی ادئیگی میں کبھی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا. چوہدری بشیر صاحب بڑے
پائے کے شکاری تھے.
چوہدری
محمد بشیر خاں مرحوم کے بیٹوں نے اپنے آباؤ اجداد کا نام روشن کیا.علم و ہنر ،
کاروبار ، سیاست اور سماجی خدمات میں علاقے میں ان کا بڑا نام ہے.
چوہدری ظہیر
الدین خاں(MPA 100) متعدد بار پنجاب اسمبلی کے رکن
منتخب ہوئے.پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رہے اور متعدد بار وزیر رہے.
چوہدری
اختر علی خاں حلقہ پی پی 99 سے MPA ہیں اور وزیر ہیں.
کرنل (R) چوہدری ناصر الدین خاں نے ملک کی دفاعی سرحدوں کی حفاظت کے لیا
فوج میں خدمات سرانجام دیں.
چوہدری علی
ارشد خاں ایک کاروباری شخصیت ہیں تیمور ٹریولز کے نام سے ایک بڑی بس سروس چلا رہے
ہیں.
چوہدری یوسف
خاں نے پاک فوج میں بطور آفیسر خدمات سرانجام دی.
چوہدری
عمران علی خاں اور تیمور علی خاں دونوں نوجوان شخصیات ہیں اور سیاست میں بہت متحرک
ہیں.عوام میں ان کو بہت زیادہ پزیرائی مل رہی ہیں.
جڑانوالہ کی عوام
چوہدری برادران کے بے حد مشکور ہیں جنہوں نے جڑانوالہ کو ضلع کا درجہ دلوایا.
تاریخ راجپوت کھوکھر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــپنجاب کے راجپوت
پنجاب میں جاٹوں اور راجپوتوں کی تقسیم اور حقیقت الچھی اور مشکوک ہے ۔ عموما بڑے قبیلے راجپوت اور ان کی شاخیں جاٹ کہلاتی ہیں ۔ پھر دونوں ایک دوسرے کو ہم نسل تسلیم
کرتے ہیں ۔ ان راجپوت قبائل کی تقریباًً ایک جیسی کہانی ہے کہ ان کا جد امجد راجپوتانہ یا دکن سے پنجاب اکبر یا بعد کے دور میں آیا تھا اور بابا گنج شکر کے ہاتھوں مسلمان ہوئے ۔ ان میں
سے اکثر خود کو راجا کرن کی اولاد بتاتے ہیں ۔
عروج
راجپوتوں کا دور ساتویں صدی عیسوی سے بارہویں صدی عیسویں تک کا تھا ۔ یہ وہ دور ہے جب مسلمان موجودہ پاکستان کی سرزمین پر حکومت کر رہے تھے ۔
اس کا قدیم تریں تلفظ ہن فاتح ٹورامن کے کرا کتبہ میں اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کو راج پتر کہا گیا ہے ۔ جس کے معنی بادشاہ کی اولاد ہے ۔ جو ایرانی کلمہ وس پوہر (بادشاہ کا بیٹا) کے
مترادف ہے ۔ وس سنسکرت میں بھی بادشاہ کے معنوں میں آتا ہے اور پوہر سنسکرت کے پتر کا مترادف ہے لیکن ساتویں صدی عیسویں سے اس کی جگہ راجا استعمال ہورہا ہے ۔ چنانچہ
جب شنکر اچاریہ کے تحت کٹر برہمن مت کا احیا ہوا تو راجا پتر کا لفظ استعمال ہوا ۔ کلہانا نے راج ترنگی میں راجپوتوں واضح انداز میں غیر ملکی ، مغرور ، بہادر اور وفادار کہا گیا ہے ۔ راجپوتوں
کے چھتیس راج کلی (چھتیس شاہی خاندان) مشہور ہیں ۔ چندر بروے نے اس تعداد کو پہلے پہل بیان کیا اور پنڈٹ کلہیان نے ’ترنگی راج‘ میں اس تعداد کی تصدیق کی ہے ۔ ٹاڈ بھی
راجپوتوں کو وسط ایشیا کے ستھین قبائل کہتا ہے اس کے مطابق عہد قدیم سے محمود غزنوی کے دور تک بہت سی اقوام ہند پر حملہ آور ہوئیں ، اب وہ راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں
شامل ہیں ۔ بقول اسمتھ کے ہرش کی وفات کے بعد سے مسلمانوں کی آمد تک یعنی اندازہً ساتویں صدی عیسویں سے لے کر بارہویں صدی عیسویں تک کے زمانے کو راجپوتوں کا دور کہا
جاسکتا ہے ۔
راجپوتوں کے اکثر قبیلوں کا سلسلہ نسب سک یا سیتھی حملہ آوروں سے تھا یا وہ سفید ہن قوم کے حملہ آوروں میں سے تھے ۔
تبدیلی ذات
جمنا کے پار راجپوتوں میں تنزلی ہوکر جاٹ بنے کا عمل بھی جاری رہا ۔ کوئی راجپوت خاندان بیواءوں کی شادی کرے ، برہمنیت کی بالادستی قبول کرنے سے انکار کر دے یا تنگ دستی سے
کھیتی باڑی شروع کر دے تو اس کا مرتبہ راجپوت سے گر کر جٹ کا ہوجاتا ہے اور ایسے بہت سے خاندان تھے جو پہلے راجپوت تھے مگر اب جٹ بن چکے ہیں ۔ خاص کر بیواءوں کی شادی
کی وجہ سے یا زراعت کا پیشہ اپنانے کی وجہ سے ۔
پنجاب کے راجپوت
پنجاب کے راجپوتوں کی روایات جمنا کے پار راجپوتوں سے مختلف ہیں ۔ وہاں جٹ اور راجپوتوں کی درجہ بندی کے قوانین یہاں سے مختلف ہیں ۔ پنجاب میں جٹ اور راجپوت دونوں مشترکہ نسلی ماخذ رکھتے ہیں ۔ مگر جن خاندانوں نے ترقی کی وہ راجپوت بن گئے اور ان کی اولادوں نے اسے برقرار رکھنے کے لیے روایات کے ان قوانین کی سختی سے پابندی کی جس کے تحت اعلیٰ و بالا ذاتیں خود کو نیچ و پست ذاتوں سے خود کو ممتاز رکھتی ہیں ۔ ان میں کمتر سماجی رتبہ والوں سے شادی سے انکار ، اپنے خون کا خالص پن محفوظ رکھتی ہیں ۔ ان قوانین سے رد گرادنی کرنے والا سماجی رتبہ سے گرجاتا ہے اور وہ راجپوت نہیں رہتا ہے ۔ جب کہ ایسے خاندان جنھوں سماجی قوانین پیروی کرکے وہ نہ صرف راجا بلکہ راجپوت یعنی راجوں کے پوت بن گئے ۔
یہ سماجی برتری کا ارتقا جاری رہا اور انگریزوں کی آمد کے بعد بہت سے راجپوت قریشی ، عباسی یا مغل نسل کا دعویٰ کرنے لگے ۔ یہاں یہ بھی دیکھا گیا ہے کسی طرح سماجی تقدس اور سماجی رتبہ حاصل ہوجائے تو ان سماجی قوانین کی پیروی کرکے چند پیڑیوں میں کوئی بھی خاندان سید بن جاتا ہے
****************************************************
راجپوت قبائل
اتیراس
یہ صرف پٹیالہ میں ملتے ہیں ۔ ان کے بارے میں مزید آگہی نہیں ہو سکی ۔
ڈوگر
یہ چوہان کی نسل سے ہیں اور جٹ بھی ہیں ۔ پنجاب، ہریانہ، راجستھان، کشمیر، اترپردیش میں آباد ہیں
کٹیسر
یہ چوہان کی ایک شاخ ہے جو جنوبی پنجاب اور راجستھان میں آباد ہیں-
اپیسال
یہ فتح جنگ کے علاقہ میں آباد ہیں ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ منج کی شاخ ہیں ۔ ان کی رسومات اور شادیوں میں اب بھی ہندوانہ نقوش پائے جاتے ہیں ۔
باگڑی
یہ راجپوت کے علاوہ جاٹ بھی کہلاتے ہیں اور مشرقی پنجاب میں آباد ہیں ۔
برگوجر
یہ سورج بنسی ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ رام کے لڑکے لو کی اولاد میں سے ہیں ۔ دھوندھار اور راجوڑی میں ان کی ریاستیں تھیں ۔ راج گڑھ اور الور بھی ان کے تصرف میں تھا ۔ بعد میں کھچواہا قوم نے انہیں وہاں سے خارج کر دیا ۔ یہ مشرقی پنجاب میں ملتے ہیں ۔
باریہ
ان کا دعویٰ ہے کہ یہ سورج بنسی اور مہابھارت کے راجا کرن کی اولاد ہیں ۔ انہیں جٹ بھی بتایا جاتا ہے ۔
بھکر وال
یہ پہلے راجپوت کہلاتے تھے اور خود کو پنوار کی شاخ بتاتے تھے ۔ مگر اب انہوں نے عباسی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ یہ راولپنڈی کے جنوب مشرقی حصہ میں آباد ہیں ۔ ان اب بھی بعض رسومات ہندوانہ ہیں ۔
بدھال
یہ بھی پہلے راجپوت کہلاتے تھے اور خود کو پنوار کی شاخ بتاتے تھے ۔ مگر اب انہوں نے عباسی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ یہ راولپنڈی کے جنوب مشرقی حصہ میں آباد ہیں ۔ ان اب بھی بعض رسومات ہندوانہ ہیں ۔ بھکر وال نام کا ایک چھوٹا سا قبیلہ بھاولپور میں بھی آ;230;باد ہے ۔
جاٹ اور راجپوت
پاکستان خصوصی طور پر پنجاب میں ایک ہی جیسی یا ملتی جلتی گوتیں ہیں جن میں سے بعض کا تعلق جٹ اور بعض راجپوت ہیں اس کی بڑی وجہ تاریخ میں ان کے جد اور جگہوں کے وہ ملتے جلتے نام ہیں جن کی وجہ سے یہ وجود میں آئیں ۔ ایک ہی جیسا نام رکھنے والی گوت کسی بھی ذات کا حصہ ہو سکتی ہے۔ جیسے بھٹی جاٹ بھی ہیں اور بھٹی راجپوت ۔
پنجاب میں مختلف بڑی ذاتیں ہیں جو پھر مزید چھوٹی گوتوں پھر مشتمل ہوتی ہیں جیسے جٹ، راجپوت، گجر ، آرائیں، کنبوج وغیرہ
گجر، آرائیں اور بٹ جو ایک کشمیری قوم ہیں اپنی گوت کو اتنی اہمیت نہیں دیتے۔
جٹ برادری میں اپنے نام کے ساتھ گوت لکھنا اسے فخر سمجھا جاتا ہے جیسے گوندل، میکن، رانجھا، وڑائچ، چیمہ وغیرہ
اسی طرح جب کوئی گوت بڑی ہو جائے تو اس میں سے دیگر گوتیں نکل آتی ہیں جیسے جٹ ذات میں گوندل جٹ سے گاڑے ، سندرانے، بوسال وغیرہ یا میکن جٹ میں سے وجھ یا وجھی۔ اس بات کا انحصار کسی بھی علاقے میں ان کی آبادی اور دسترس پہ ہے۔
۔
بھٹہ
یہ بھی چندر بنسی ہیں اور بھٹیوں کی ایک شاخ بتائے جاتے ہیں
پنوار
پرمار یا پنوار کا تعلق اگنی کل سے ہے ۔ پورس جس نے سکندر کا مقابلہ کیا تھا اس کا تعلق بھی پرمار سے تھا ۔ اگرچہ یہ ایسے لڑاکے نہیں تھے جیسا کہ ظاہر کیا جاتا ہے ، مگر ان کی سلطنت بہت وسیع رہی ہے ۔ زمانہ قدیم سے ایک مثل مشہور ہے کہ دنیا پرمار کی ہے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرچہ یہ خاندان پرامر اگنی کل میں ابتر ہے اور یہ دولت و حشمت میں انہل وارا کے سولنکھیوں تک نہیں پہنچے اور نہ ہی وہ چوہان راجاؤں کی طرح مشہور ہوئے ۔ لیکن ان کی ریاستوں کی نسبت زیادہ ان کی ریاستیں زیادہ وسیع رقبہ پر پھیلی ہوئی تھیں ۔ ان کی حکومتیں میسر ، دھار ، منڈو ، اوجین ، چندر بھاگا ، چتور ، ابو چنرورتی ، مءو ، میدانہ ، پرماتی ، امرکوٹ ، بھکر ، لوور اور پٹن میں ان کی ریاستیں رہی ہیں یا انہوں فتح کیا تھا ۔ پنجاب کے کئی راجپوت قبیلوں کا دعویٰ ہے کہ وہ پنوار کی شاخ ہیں ۔ یہ پنجاب اور زیرین سندھ میں بڑی تعداد میں ہیں
پھتیال
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چندیل کی ایک شاخ ہیں ۔ اس لیے راجپوتوں میں پست مانے جاتے ہیں ۔ یہ بلاس پور کے علاقہ میں آباد ہیں ۔
پٹھانیہ
ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ کانگڑہ کا شاہی خاندان کٹوچ کی شاخ ہیں اور پٹھان کوٹ آباد ہونے کی وجہ سے پٹھانیہ کہلاتے ہیں ۔
پنڈیر
یہ بھی مشرقی پنجاب میں آباد ہیں اور کہا جاتا ہے یہ دھیما کی شاخ ہیں جو راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں شامل ہے ۔
تنوار
یہ راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں یہ شامل ہیں ۔ یہ خاندان بھی یادو کی ایک شاخ ہے ۔ اندرپست جو ویران پڑا تھا اسے اننگ پال توار نے آباد کیا تھا ۔ اس خاندان کا سب سے مشہور راجا بکرماجیت تھا ۔ جس نے 65 ق م میں بکرمی سمیت کا سن جاری کیا تھا ۔ اس خاندان کا آخری راجا بھی اننگ پال تھا ، جس کا کوئی بیٹا نہیں تھا ۔ اس لیے اس نے اپنے نواسے پڑتھوی راج چوہان کو تخت پر بیٹھایا تھا ۔ پر;180;تھوی راج چوہان نے محمد غوری سے شکست کھائی تھی اور خود بھی مارا گیا ۔
ٍباجوہ
باجوہ یا بجو سورج بنسی ماخذ کے دعویدار ہیں ۔ بجوات جو جموں و سیالکوٹ میں پہاڑیوں کے دامن علاقہ کا نام ان پر رکھا گیا ہے ۔ ان کی روایات کے مطابق ان کا مورث اعلیٰ راجا شیٹپ کو سکندر لودھی کے دور میں ملتان سے بدخل کیا گیا تھا ۔ اس کے دو بیٹے کلس لیس تھے ۔ لیس جموں کی طرف نکل گیا اور ایک راجپوت لڑکی سے شادی کرلی ۔ جب کہ کلس نے پسرور کی ایک جٹ لڑکی کو اپنی بیوی بنایا ۔ ان دونوں کی اولادیں بجوات کے علاقہ میں آباد ہیں اور راجپوت اور جٹ کہلاتی ہیں ۔ ایک کہانی کے مطابق انے مورث اعلیٰ رائے جہسن کو رائے پٹھورا نے دہلی سے نکالا تو وہ سیالکوٹ میں کربلا میں آباد ہو گیا ۔ بجو راجپوت باجوہ جٹوں سے اپنا نسلی تعلق تسلیم کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے بجو راجپوتوں میں سکھوں کے دور تک یہ رایات تھی کہ کسی مسلمان لڑکی کو شادی کے لیے ہندو کرنے کے لیے زیر زمین تہ خانہ میں بند کرکے اوپر ہل چلایا جاتا تھا ۔ یہ روایت بتاتی ہے کہ ان میں شادی ہندو و مسلمان دونوں آپس میں کرلیتے تھے ۔ یہ زیادہ تر سیالکوٹ میں یا اس کے ارد گر علاقہ میں ہیں ۔
بیئنس
یہ زیادہ تر ہوشیار پور کے علاقہ میں ہیں ۔ بینس راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں شامل ہیں اور سورج بنسی ماخذ کے دعویدار ہیں ۔ ان جٹ اور راجپوت دونوں ملتے ہیں ۔
تارڑ
تارڑ جو سورج بنسی ماخذ کے دعویدار ہیں ۔ ان کی روایت ہے کہ ان کا جد اعلیٰ تارڑ بھٹز محمود غزنوی کی خدمت میں گیا اور اس کے ساتھ غزنی چلا گیا ۔ جب کہ اس کا بیٹا لوہی بھٹز سے گوجرات چلا آیا ۔ جہاں یہ قبیلہ تشکیل پایا اور تارڑ اسی لوہی کی اولاد ہیں ۔ ایک اور کہانی کے مطابق ان کی آباد کاری ہمایوں کے وقت ہوئی تھی ۔ وہ گوندل ، وراءچ ، گل اور دیگر قبیلوں میں شادی کرتے ہیں ۔ وہ گوجرات ، گوجرانوالہ اور شاپور میں ان کی زیادہ آبادی ہے ۔ انہیں زراعت پیشہ لیکن شورش پسند بھی کہا گیا ہے ۔ اس قبیلے کے نصف افراد راجپوت اور نصف خود کو جاٹ بتاتے ہیں ۔
بھٹیوں کی بڑی معروف گوت ہے راجا سالباہن کے پوتے راے تاہن م کی اولاد ہونے کے باعث تاونی بھٹی کہلائے. راجا تاہن جیسلمیر سے جالندھر آیا اور اس کے لڑکے راجا انبا نے کچھ علاقہ فتح کر کے خود مختار حکومت کی بنیاد رکھی اور اپنے نام پر انبالہ کا شہر بسا کر اس کو راجدھانی کا درجہ دیا تاون یا تاونی راجپوت ہیں اور ان کا سلسلہ راجا سلواہن سے شروع ہوتا ہے راجا سلواہن کا پوتا راجا تان ان کا مورث اعلیٰ ہے اور اس کی اولاد میں ایک راجا امبا بھی تھا جس نے انبالہ کی بنیاد رکھی تھی.
۔
ٹوانہ
شاپور کوہ نمک کے علاقہ میں ٹوانہ آباد ہیں ۔ پنجاب کی تاریخ میں ان کا اہم کردار ہے ۔ ٹوانہ ، گھیسا اور سیال ہم نسل اور پنوار راجپوت ماخذ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ پہلے جہانگیرہ کے مقام پر آباد تھے ۔ بعد میں شاپور تھل میں آباد ہو گئے ۔ ٹوانوں نے سکھوں کا مطیع ہوجانے کے بعد بھی اپنی مزاحمت جاری رکھی ۔
ٹھاکر
اس کا شمار کوہستان کانگرہ کی پست ذاتوں میں شمار ہوتا ہے ۔ اگر انہیں راجپوت تسلیم کیا جاتا ہے اور راجپوت ان کی لڑکیاں لے لیتے ہیں مگر اپنی لڑکیاں انہیں نہیں دیتے ہیں ۔
جادو
رگ وید میں یادو قبیلے کا ذکر آیا ہے ۔ جس نے بھارت قبیلے اور اس کے حلیف ستجنی قبیلے کے خلاف ایک اتحاد بنایا تھا اور اس کے خلاف جنگ کی تھی اور یادو قبیلے کو شکست ہوئی ۔ یادو کرشن کا خطاب ہے اور یادو کا مورث 1علیٰ کشن چند ہے ۔ اب یہ بھٹی کہلاتے ہیں ۔
جاٹو
انہیں توار یا تنوار کی شاخ بتایا جاتا ہے اور مشرقی پنجاب میں آباد ہیں ۔
جنجوعہ
ان کا مرکز مشرقی کوہستان نمک ہیں ۔ لیکن وہ ملتان اور ڈیرہ جات میں بھی پھیلے ہوئے ہیں ۔ وہ چندر بنسی ماخذ کے راجپوتوں کی شاخ ہیں ۔ ان کی روایت ہے کہ وہ راجا مل کی اولاد ہیں جو 989ء;247; میں چودھ پور یا قنوج سے ہجرت کرکے آیا تھا ۔ جس کا بیٹا جودا تھا ۔ جنجوعہ کسی دور میں پورے کوہستان پر قابض تھے ۔ لیکن گھگروں نے انہیں مغرب کی طرف دکھیل دیا تھا ۔ اس خطہ میں ان کی سماجی حثیت گھگروں کے بعد ہے ۔ انہیں راجا کہا جاتا ہے اور ان میں نسلی تقافر بہت زیادہ ہے ۔
جودھرا
جودرا یا جودھرا ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جموں سے آئے تھے ۔ ایک روایت کے مطابق وہ ہندوستان سے آئے تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے گھیسا ان کی شاخ ہیں ۔
جسوال
یہ ہوشیار پور کے زیریں کوہستانی علاقوں میں آباد ہیں اور کٹوچ سے ان کا تعلق بتایا جاتا ہے ۔
جوئیہ
یہ سندھ اور پنجاب کے جنوبی حصہ میں آباد ہیں اور مسلمان ہے ۔ یہ جاٹ بھی کہلالتے ہیں ۔
چدھڑ
ان کا کہنا ہے کہ وہ تنوار راجا تور کی نسل سے ہیں اور محمد غوری کے دور میں راجپوتانہ سے ہجرت کرکے بہاول پور آگئے تھے ۔ جہاں اچ کے شیر محمد کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ۔ بعد میں یہ جھنگ آگئے
چبھ
یہ کانگڑہ کے کٹوچ راجپوتوں کی نسل کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ ان کا مورث اعلیٰ چبھ نے پندرہ سو سال قبل کانگڑہ چھوڑا اور جموں میں بھمبر کے مقام پر آباد ہو گیا تھا ۔ سب سے پہلے اورنگ زیب کے دور میں سور سادی نے اسلام قبول کیا تھا ۔ مسلمان چبھ اس کی بہت تعظیم کرتے ہیں اور اس کے مزار پر بچے کی چندیا نظر کرتے تھے ۔ اس رسم کی ادائیگی سے پہلے بچے کو حقیقی چبھ تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی اس رسم کی ادائیگی سے پہلے اس کی ماں گوشت کھاتی تھی ۔ دریائے جہلم کے بائیں کنارے پر کشمیر میں چبھال ان کے نام سے پڑا ۔ جبھ اعلیٰ حثیت کا قبیلہ ہے ۔ وہ جنجوعہ کی طرح راجا کا لقب استعمال کرتے ہیں ۔ سادات اور گھگر ان کے ساتھ اپنی بیٹیاں بیاہنے میں ہچکچاتے نہیں ہیں ۔
چندیل
یہ راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں شامل ہیں ۔ یہ قوم پست سمجھی جاتی ہے مشرقی پنجاب جمنا اور نربدا کے ارتصال پر آباد ہیں ۔ چندیلا راجا نے ابوالفصل کو جہانگیر کے کہنے پر قتل کر دیا تھا ، یہ مغلیہ لشکر میں کثیر تعداد میں ملازم تھے ۔
چوہان
چہومن یا چوہان یہ اگنی کل میں سب سے اعلیٰ ہیں ۔ یہ اگنی کل کیا تمام رجپوتوں میں بہادر اور شجاع ہیں ۔ ان کی ریاست پہلے پہل اجمیر میں قائم ہوئی تھی ۔ پرٹھوی راج چوہان اسی خاندان سے تھا ۔ اس کا مقابلہ سلطان محمد غوری سے ہوا ۔ پہلی جنگ میں اس نے سلطان کو شکست دی مگر یہ دوسری لڑائی میں اس نے سلطان محمد غوری سے شکست کھائی اور خود بھی مارا گیا ۔ پنجاب میں بہت سے قبائل کا دعویٰ ہے وی چوہان کی شاخ ہیں
دھنیال
یہ کوہ نمک کے رہنے والے ہیں اور چکوال میں دھنی انہیں کا نام ان کی نسبت سے پڑا ۔ یہ اب حضرت علی کی اولاد کا دعویٰ کرنے لگے ہیں ۔ اب وہ تحصیل راولپنڈی اورتحصیل مری کی پہاڑیوں پر آباد ہو گئے ہیں ۔ یہ اپنے ناموں کے ساتھ آج بھی راجا لکھتےہیں
دھودھی
یہ ایک چھوٹا سا قبیلہ ہے اور پنواروں کی شاخ ہیں اور اچھے کاشت کار ہیں ۔ یہ ستلج و چناب کے ساتھ بکھرے ہوئے ہیں اور ان کا خاص مرکز میلسی کی تحصیل ہے ۔ ان میں حاجی شیر محمد ایک پیر تھا اس کا مزار ملتان میں نہیں ملتا ہے ۔
دودوال
یہ تار پور کا قدیم خاندان ہے جو ہوشیار پور کے علاقہ میں سطح مرتفع کے شوالک کے راجپوت تھے اور اب بھی ہوشیار پور میں آباد ہیں ۔
دھوند
ڈھونڈ یا دھوند ہزارہ راولپنڈی اور دریائے جہلم کی زیریں پہاڑیوں پر آباد ہیں ۔ اب انہوں نے رسول اللہ کے چچا حضرت عباسی کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور عباسی کہلاتے ہیں ۔ ایک روایت کے مطابق ان کا مورث اعلیٰ تیمور کے ساتھ دہلی آیا تھا ۔ شاہ جہاں کے دور میں اس کا بیٹا ژواب خان کہوٹہ آگیا اور جدوال ، دھوند ، سرارا اور تنولی قبائل کا بانی بنا ۔ اس کا بیٹا کھلورا یا کولو رائے کشمیر بھیجا گیا جہاں اس نے ایک کشمیری عورت سے شادی کی ۔ اس کے بطن سے دھوند نے جنم لیا ۔ اس کی دوسری بیوی سے کیتوال پیدا ہوا ۔ ایک اور ناجائز بیٹے سے ستی کی نسل چلی ۔ یہ روایت بے معنی ہے تیمور اور شاہ جہاں میں بہت فرق ہے اور کولو رائے ہندانہ نام ہے ۔ ان کے بارے میں انگریزوں نے کہا ہے ان میں اسلام سے شناسی برائے نام ہے ۔ جب کہ معاشرتی آداب میں ان کے ہند ماخذ کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ دھوند ، بب ، چبھ کا ماخذ ہندو ہے اور ان سب کا آپس میں تعلق ہے ۔
دھاریوال یا دھانیوال یا دھالیوال
یہ اپنے بھٹی راجپوٹ بٹائے جاتے ہیں ۔ ان کی روایت کے مطابق اکبر نے ان کے سردار مہر مٹھرا کی بیٹی سے شادی کی تھی ۔ یہ بالائی ستلج میں آبادی ہیں ۔
رنگڑھ
رنگڑھ راجپوتوں کی شپیشل فورس ہے
رنگڑھ کچھ مخصوص مسلمان راجپوت گوترا کا ایک مجموعہ ہے جس میں لگ بھگ 30 کے قریب گوتھ اور ذیلی گوتھ ہیں
کچھ مخصوص مسلمان راجپوتوں کو بہادری سے میدان جنگ میں لڑنے اور میدان جنگ سے پیچھے نا ہٹنے کی وجہ سے رنگڑھ کا خطاب ملا جس کا مطلب ہے میدان جنگ میں جم کر لڑنے والا
راوت
یہ چنڈیلوں کی شاخ ہیں اور راجپوتوں میں انہیں پست مانا جاتا ہے ۔ یہ بھی مشرقی پنجاب میں آباد ہے ۔
راٹھور
راٹھوروں کے شجر نسب میں یہ رام کے لڑکے کش کے اخلاف ہیں اور اس طرح یہ سورج بنسی ہیں ۔ لیکن ان کے کبشر (نسب داں ) اس سے منکر ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اگرچہ کش کے اخلاف نہیں ہیں ، لیکن یہ کیوشت ہیں یعنی سورج بنسی اور یہ ویٹ (شیطان) کی لڑکی سے پیدا ہوئے ہیں ۔ یہ قنوج پر حکمران تھے اور بعد میں پنے ایک راجا سوجی کی نسبت سوجی کہلائے ۔ ان سا دلیر اور بہادر راجپوتوں میں کم ہی ہیں ۔ مغلیہ لشکر میں پجاس ہزار راٹھور تھے ۔ پنجاب میں یہ کم پائے جاتے ہیں ۔
سیال
پنجاب میں سیال ایک اہم قبیلہ ہے اور انہیں پنواروں کی شاخ بتایا جاتا ہے ۔ انہوں نے ضلع جھنگ کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا گیا اور ملتان اور بھیر بھی ان کے زیر تسلط رہا ہے ۔ انہوں نے نول ، منکن ، مرل اور دیگر قبائل کو اس علاقہ سے بیدل کیا تھا ۔ روایت کے مطابق سیال پنوار راجپوت کے رائے شنکر کی اولاد ہیں ۔ جو الہ آباد فتح پور کے درمیان دارا نگر کا رہائشی تھا ۔ قبل اس کے پنواروں کی ایک شاخ جونپور چلی گئی اور وہیں رائے شنکر پیدا ہوا ۔ ایک کہانی یہ بھی کہتی ہے کہ رائے شنکر کے تین بیٹے سیو ، ٹیسو اور گھیسو تھے ۔ جن سے جھنگ کے سیالوں ، شاپور کے ٹوانوں اور پنڈی گھیب کے گھیبوں کی نسل چلی ہے ۔ ایک روایت کے مطابق رائے شنکر کا اکلوتا بیٹا سیال تھا اور ٹوانوں اور گھیبوں کے مورثین شنکر اور سیال کے ہم جد رشتہ دار تھے ۔ رائے شنکر کی موت کے بعد خاندان میں لڑائی جھگڑے پیدا ہو گئے اور اس کا بیٹا پنجاب ہجرت کر گیا ۔ قریباً قریباً یہ وہی دور تھا جب کہ متعد راجپوت خاندان یعنی کھرلوں ، ٹوانوٓں ، گھیبو ، چدھروں اور پنوار سیالوں کے اجداد نے ہندوستان کے صوبوں سے پنجاب ہجرت کی ۔ ان دنوں بابا فرید کے ہاتھوں اسلام قبول کرنا ایک عام بات تھی ۔ سیال پاک پٹن پہنچا تو بابا فرید کے ہاتھوں اسلام قبول کر لیا ۔ بابا فرید نے اسے دعا دی اس کے بیٹے کی اولاد جہلم و چناب کے درمیانی علاقہ پر حکومت کرے گی ۔ مگر یہ پیشنگوئی درست ثابت نہیں ہوئی ۔ سیال اور اس کے ساتھی جہلم کے کنارے کچھ عرصہ رہنے کے بعد رچنا و جچ دو آبوں میں ادھر اوھر بھٹکتے رہے ۔ اسی دوران اس نے ایک عورت بھٹی خان میکن کی بیٹی سہاگن سے شادی کی ۔ روایت ہے اس نے سیالکوٹ میں ایک قلعہ بنایا تھا ۔ بعد میں اس نے تھل اور منکیرہ اور دریائے جہلم کی درمیانی پٹی پر قبضہ کر لیا ۔ یعنی خوشاب سے گڑھ مہاراجا تک ۔
سیال ایک بڑا قبیلہ ہے اور ان کی روایت کے مطابق پانسو سالوں میں پھیل جاتا ممکن نہیں ہے ۔ یہ اپنی ہجرت کا دور علاوَالدین خلجی کا بتاتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب کہ علاقہ سخت متاثر تھا ۔ یہاں خانہ جنگی تھی اور منگولوں کے حملے مسلسل جاری تھی ۔ اس لیے یہاں بے امنی کا دور تھا ۔ اس لیے ممکن نہیں ہے کہ سیالوں کے جد اعلیٰ نے یہاں ہجرت کی ہوگی ۔ اس کی نسبت ہندو راجپوتوں کے راجپوتانہ کا علاقہ خاصہ محفوظ ۔ جب کہ یہی دور یہاں کے بشتر راجپوتوں کا بتایا جاتا ہے ۔ جو ممکن نہیں ہے ۔ یہ روایت اس لیے وضع کی گئی ہے کہ اپنا تعلق راجپوتوں سے ثابت کیا جائے ۔ اصل میں پنوار اس علاقہ میں قدیم زمانے سے آباد ہیں ۔ ان کا شمار راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں ہوتا ہے ۔ مگر یہ بات اس علاقہ کے دوسرے خاندانوں کو معلوم نہیں تھی اس لیے وضع کی گئی ہے ۔
ضلع جھنگ کا سارا جنوبی علاقہ سیالوں کا گڑھ ہے ۔ چناب کے ساتھ ساتھ راوی سے اس کے ارتصال تک اور راوی و جہلم کے سنگموں کے درمیان بھی راوی کی ساری گزرگاہ کے کناروں پر آباد ہیں ۔ بلکہ ساہی وال ، جہلم سے شاپور اور گوجرات کے علاقہ اور ڈیرہ جات و مظفر گڑھ میں بھی پائے جاتے ہیں ۔
برطانوی رپوٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سیال مویشوں کے شوقین ہیں اور زراعت پر کم توجہ دیتے ہیں ۔ کھرل اور کاٹھیا کی طرح ہندو تہواروں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کی عورتیں پردہ نہیں کرتی ہیں ۔
راٹھی
یہ تنوار راجپوتوں کی نسل سے ہونے کے دعویدار ہیں ۔ جٹوں کا بھی ایک قبیلہ راٹھی ہے ۔
رانجھا
یہ جہلم اور چناب کے علاقہ میں ، شاپور گجرات کے علاقے میں ملتے ہیں ۔ ان کی اکثریت خود کو جٹ کہتی ہے اور ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھٹی راجپوت ہیں ۔ انہوں نے قریشی ماخذ کا دعویٰ کیا ہے اور خود کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹا جو کو غزنی میں فوت ہوا تھا کی اولاد بتاتے ہیں ۔ تاہم ان میں ہندو روایات باقی ہیں ۔
رگھ بنسی
یہ پنجاب کے پہاڑی علاقوں کے دامن میں یعنی سیالکوٹ سے کانگڑہ تک ملتے ہیں اور ان میں سے بعض خود کو منہاس بتاتے ہیں ۔
سومرو
یہ بھی پرمار کی شاخ ہیں اور یہ پہلے تھر کے ریگستان میں آباد تھے ۔ لیکن اب مسلمان ہیں اور انہوں نے سندھ پر حکومت کی ۔ ان کی حکومت کو سمہ نے ختم کیا ہے ۔ یہ سندھ اور پنجاب میں خاص کر بھاولپور کے علاقہ میں ملتے ہیں اور جٹ مشہور ہیں ۔ سموں نے ان کا قتل عام کیا تھا اس کے سوگ میں ان کی عورتیں نتھلی نہیں پہنتی ہیں
ستی
ڈھونڈوں کا کہنا ہے کہ ان کے جد کھلورا کا ستی ناجائز بیٹا ہے ۔ مگر ستی اس سے انکار کرتے ہیں اور وہ نوشیروان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔
سلہریہ
یہ چندر بنسی ہیں اور اپنا سلسلہ نسب دیومالائی راجا سیگل کی اولاد میں چندر گپت سے ملاتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ دکن سے دہندہ فوجی دستے کے سپہ سلار کی حثیت سے آیا تھا کہ شیخا کھوکھر کی بغاور سرد کرے اور سیالکوٹ میں آباد ہو گیا تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بہلول لودھی کے دور میں مسلمان ہوئے تھے ۔ یہ ماضی میں اپنی شادی کی رسومات کے لیے برہمن کی خدمات لیتے تھے ۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کی تین بیویاں سلہریہ تھیں ۔ جن میں سے ایک ستی ہو گئی تھی ۔ ان میں سے بعض اپنے کو منہاس کی شاخ بتاتے ہیں ۔ یہ کمی کمین ہوتے ہیں ۔
غوریواہا
گوریواہا یا گوریواہا یہ مشرقی پنجاب میں آباد ہیں اور مسلمان ہیں ۔ یہ رام کے بیٹے کش کی اولاد بتاتے ہیں ۔ اس طرح یہ سورج بنسی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے انہیں شہاب الدین غوری نے وسیع زمینیں دیں تھیں ۔ یہ اس وقت ہندو تھے ۔ ان کی ایک شاخ ہندو ہے ۔
کھرل
اس قبیلے کے زیادہ تر افراد نے خود کو جاٹ بتاتے ہیں ۔ یہ راوی کے بڑے قبیلوں میں سے ہے ۔ ان میں بعض نے اپنا تعلق بھٹیوں سے بتایا ہے ، کچھ کھرل اپنے کو پنوار راجپوت کہتے ہیں اور کچھ راجا کرن سے اپنا رشتہ جورتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مخدوم شاہ جہانیاں کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ہے ۔ ان کی جھنگ کے سیالوں کے شدید دشمنی رہی ہے ۔ یہ فساد پسندی اور بلند ہمتی میں سب سے آگے رہے ہیں ۔ ان کا مشہور رہنما کھرل اور حلیف قبائل کا سربراہ تھا ۔ وہ پانچ باغبانہ تحریکوں کا رہنما تھا ۔ اسے 1857 میں کیپٹن بلیک کی قیادت میں مار دیا گیا ۔ وہ راجپوت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے کھیتی باڑی خود کرنے کی بجائے مزارع سے کرواتے ہیں ۔ مگر یہ اپنی بیواؤں کی شادیاں کرتے ہیں ۔ ان میں دیکھاوا بہت ہے اور ان کی بہت سی رسومات کا ماخذ ہندوانہ ہے ۔ بٹہ یا بٹہ کھرل سرادر تھا اور سلطان محمد غوری کے دور میں پیر شیر شاہ سید جلال نے اسے مسلمان کیا تھا ۔ کسی زمانے میں یہ دختر کشی کی روایت بھی تھی ۔ ان کی ایک روایت پکی چھت کے نیچے نہیں سونے کی بھی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں حضرت سلیمان علیہ سلام نے پکی چھت کے نیچے سونے سے منع کیا ہے ۔
کھروال
یہ رالپنڈی کے پہاڑی علاقہ میں آباد ہیں اور جنجوعہ قبیلے میں راجا مل کی نسل سے ہونے کے داعی ہیں ۔ یہ اپنی بیواؤں کو شادی کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔
کنیال
یہ بھی رالپنڈی کے مشرقی حصہ میں آباد ہیں اور یہ بھی پہلے راجپوت کہلاتے تھے اور خود کو پنوار کی شاخ بتاتے تھے ۔ مگر اب انہوں نے عباسی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ ان اب بھی بعض رسومات ہندوانہ ہیں ۔
منہاس
یہ سورج بنسی ہونے کا دعویدار ہے اور جموں کے ساتھ یعنی راولپنڈی سے گوروداس پور میں آباد ہیں ۔ کشمیر کا ڈوگرا خاندان ان ہی کی نسل سے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اس خاندان کے ایک فرد ملن ہنس نے زراعت شروع کردی اس لیے وہ اپنا رتبہ کھو دیا ۔ ان کی بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں ۔ ان میں ان کا مورث اعلیٰ ایودھیا سے آیا تھا اور جموں کو فتح کرکے اسی نام کا ایک شہر بسایا تھا ۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے یہ سیالکوٹ میں رہتے تھے ۔ کچھ کا کہنا ہے پہلے یہ کشمیر گئے اور بعد میں سیالکوٹ آئے ۔ کچھ منہاس مسلمان ہیں اور انہوں نے کپڑا بنے کا پیشہ اختیار کر لیا تھا ۔
منج
یہ جالندھر سے راولپنڈی تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ یہ خود کو بھٹی اور سیالکوٹ کے راجا سالو کے باپ راجا سلواہن کی نسل سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے انہیں اچ کے مخدوم شاہ جہانیاں کے ہاتھوں مسلمان ہوئے ہیں ۔ انہوں نے ایک ریاست مغلوں کے عہد زوال میں قائم کی تھی ۔ جسے رنجیت سنگھ نے ختم کیا ۔ کہا جاتا ہے منج ابھی تک کریوا (بیوہ کی شادی) کی اجازت نہیں دیتے ہیں ۔
میکن
یہ جٹوں کی گوت ہیں اور جٹ ہی جانے جاتے ہیں ۔ ان کا جد امجد جاٹ دھودی والا سے تھا ۔ یہ جٹ برادری کی وہ قوم ہے جس کے ذریعے بھٹی راجپوتوں نے ملتان کے گردونواع اور پنوار راجپوتوں نے تھل وسندھ پہ چڑھائی کی مگر وہ ان ہی کا ساتھ چھوڑنے کے بعد زیادہ دیر اپنی حکومت قائم نہ رکھ سکے۔منکیرہ ریاست کی حکومت قائم کرنے میں میکن برادری کا ثانی نہیں مگر یہاں پر بھی بھٹی راجپوتوں نے میکن جٹ برادری کی کاوشوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے بلوچ قوم سے اتحاد کر لیا جس کے نتیجے میں جٹ میکن اکثریت ہندو سے سکھ ہو گئی اور ان کا اتحاد چھوڑتے ہی بلوچ قوم نے منکیرا پہ قبضہ کر لیا۔ میکن جٹوں نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے ساتھ مل کر دوبارہ 1821ء میں منکیرہ کو فتح کر لیا - تاریخ میں جٹ میکن برادری کی راجپوتوں سے کوئی رشتہ داری نہیں ملتی مگر بھٹی راجپوتوں نے جٹ میکن برادری کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا اور ان کا اتحاد حاصل کرنے کے لیے میکن راجپوت بھی کہلوانا شروع کر دیا مگر مہاراجا رنجیت سنگھ کی حکومت میں راجا سنگھ وہ آخری حاکم تھا جسے جٹ میکن برادری کی بہادری نصیب ہوئی اور مہاراجا رنجیت کی موت کے بعد جٹ میکن برادری نے ریاست منکیرہ کو دوبارہ خیرآباد کہ دیا - پاکستان میں میکن جٹ برادری کی اکثریت سرگودھا اور منڈی بہاوالدین میں آباد اس کے علاوہ پاکستان کے دوسرے علاقوں اور صوبوں میں بھی موجود ہیں ۔
نارو
یہ غالباً منج کی شاخ ہیں ، مگر ان میں سے بعض خود کو رگھ بنسی بتاتے ہیں اور بعض چندر بنسی بتاتے ہیں ۔ ایک اور روایت جے پور یا چودھ پور کے راج کمار کی نسل سے بتاتے ہیں جس نے محمود غزنوی کے دور میں اسلام قبول کیا تھا ۔
نے پال
یہ بھٹی کی شاخ ہیں اس لیے چندر بنسی ہیں ۔ انہیں جٹ بھی بتایا جاتا ہے ۔ اس اندازہ ہوتا ہے کہ یہ زراعت پیشہ ہیں اور بیواؤں کی شادی کرتے ہیں ۔ یہ بھی زیادہ تر مشرقی پنجاب میں ملتے ہیں ۔
ہراج
یہ سیالوں کی شاخ ہیں اور چناب و راوی سنگم کے قریب راوی کے کناروں پر آباد ہیں ۔
ورک
یہ جٹ بھی کہلاتے ہیں اور یہ اپنا مورث اعلی ورک منہاس قبیلے سے تھا ۔ جس کا تعلق جموں کے راجوں سے تھا ۔ ان کے نام سے لاہور اور گوجرنوالہ کے علاقہ کا نام ورکیت پڑا ہے ۔
وٹو
یہ بھٹی کی شاخ ہیں اور راجا سلواہن کے ایک لڑکے جو بیکانیر میں رہتا تھا کی نسل سے ہیں ۔ یہ پنجاب کے صحرائی علاقہ میں دریائے ستلج کے کناروں پر زیادہ تر آباد ہیں ۔
پنجاب کے راجپوت مکمل ہوا ۔ اگر پسند کریں تو پنجاب کے جاٹ کے بارے میں بھی لکھوں ۔ جاٹوں میں بہت سی اقواموں کا دعویٰ ہے کہ وہ راجپوت یا راجپوتوں کی نسل سے ہیں ۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں پنجاب میں راجپوتوں اور جٹوں کی تقسیم بہت الچھی ہوئی ہے ۔
****************************************************
لنگڑیال راجپوت
****************************************************
****************************************************
راول جیسل کے بیٹے راجہ سلواہن کی اولاد میں سے راجہ تان کی اولاد مسلمان ہوئی جنکی اولاد تائونی بھٹی ہیں۔
****************************************************
16 مئی یوم پیدائش بانی مذہب بدھ مت و پسر حاکم نیپال
سدھارتھ راجکمار عرف گوتم بدھ
گوتم رگھو ونشی سوریا ونشی راجپوت کھشتری خاندان کے چشم و چراغ تھے _
کلمہ پڑھنے والے کچھ مسلم راجپوتوں کو ان کے ہندو بریدرنز نے رانگھڑ یا رن۔گڑھ کہا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوؤں نے ان کلمہ پڑھنے والے مسلم راجپوتوں کی عزت افزائی اور تحسین کے لئے انھیں رن۔گڑھ کا نام دیا یا پھر ان کی انسلٹ کرنے اور انھیں عار دلانے کے لئے ایسا کیا۔ اگر تو یہ عزت افزائی کے لئے تھا پھر تو بات سمجھ آتی ہے۔ لیکن اگر کلمہ پڑھنے کی پاداش میں ہندوؤں نے کچھ مسلم راجپوتوں کی انسلٹ کرنے یا انھیں گالی دینے کے لئے انھیں یہ نام یا خطاب دیا تھا تو ان مسلم احباب نے اس خطاب کو عزت کا تاج سمجھ کے کیوں سر پر سجا لیا۔ اگر کسی مسلم راجپوت کو اپنے اصل قبیلے کا علم نہیں تو پھر وہ براڈ ڈیفینیشن میں خود کو ایسا کہلاۓ تو بھی بات سمجھ آتی ہے۔ لیکن جن راجپوتوں کو اپنی گوت کا پتہ ہے وہ اس تضحیک آمیز خطاب کا بوجھ کیوں ڈھو رہے ہیں۔ عام فہم سی بات ہے کہ جن راجپوتوں نے کلمہ پڑھا ہندو ان سے کسی طور خوش نہیں ہو سکتے۔ ممکنہ طور پر ہندوؤں نے مسلم راجپوتوں کو عار دلانے کے لئے ہی انھیں رن۔گڑھ کہا۔ یعنی تم وہ لوگ ہو جنھیں میدان جنگ میں گڑھ کے بنایا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے ایسا کہنے کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ تم نے مسلمانوں کی تلوار کے خوف سے ڈر کے اور اپنی جان بچانے کے لئے اسلام قبول کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ گن پوائنٹ پر کسی کو ڈرا کے مسلمان نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک دل ایمان کی گواہی نہ دے محض زبان سے ایمان کا اقرار اسلام لانے کے لئے کافی نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوؤں کا کسی کلمہ گو مسلم کو اس طرح عار دلانا یا طعن کرنا اپنی اصل میں کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کو ہندوؤں کے اس طنزیہ خطاب سے پیچھا چھڑا لیا جائے۔
جو اس تحریر میں بیان ہوا اگر یہ سب غلط ہے اور اس لفظ کے کوئی اور معنی یا کوئی اور تشریح ہے تو ہم اپنے اس نقظہ نظر سے رجوع کر لیں گے۔ ہمارا مقصد کسی کی دلآزاری نہیں۔ امید ہے احباب مثبت انداز میں رہنمائی فرمائیں گے۔ جزاک اللہ خیر
انسپکٹر ناصر الپیال بھائی عمومی کتب میں رانگھڑ کا کم و بیش یہی مفہوم درج ہے۔ اگر اس مفہوم کو سامنے رکھیں تو یقیناً یہ تب ہی ہوا ہو گا جب کچھ ہندو راجپوت میدان جنگ میں شکست کھا کے مسلمان ہوۓ ہوں گے۔ مزید وضاحت تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو ہندوؤں کے عطا کئے کسی قبیح و شنیع کو ترک کرنے کے روادار نہیں۔ اور اگر راست کی دعوت دو تو الٹا گلے پڑ جاتے ہیں۔
****************************************************
History and origin of Ranghar
****************************************************
There are various theories as to the origin of the term Ranghar. According to one of the traditions, the name come from the Hindi words Rana Garh, which means the the house (garh in Hindi) of a lord(rana). But the term Ranghar was also some what contemptously applied by the local Hindu community to any Rajput, who converted to Islam. The term Ranghar is rarely used by the community itself. There is another definition of Ranghar that it is combination of two words "Run" and "Garh". Run means battle field while Garh means that who fought bravely in battle field.
“ If a Hindu Chauhan Rajput turns Mohammadan, he would still be a Chauhan Rajput, but his Hindu kinsmans would also dub him Ranghar, a term only a trifle less deregatory then chotikat ”
Different communities of Ranghar had different accounts of their conversion to Islam. Thus in Jind, the local Ranghar claimed descent from a Firuz, who converted to Islam during the rule of the Mughal Emperor Aurangzeb. These converted Rajputs kept many Hindu practices, such as keeping Brahmin priests, and avoiding one gotra in marriage.
The Ranghar were pastoralists, and as such came into conflict with the British imperial authorities, as the British colonial policy favoured settled agricultural communities such as the Ror and Jat, at the expense of these pastoralists But they were also actively recruited by the British in the Indian army, and were dubbed a martial race.
رنگڑھ مطلب رن میدان اور گڑھ جم جانے والا
راؤ خلیل الرحمٰن صاحب پاکپتن شریف نے ایک کتاب تحریر کی جس میں انہوں نے اس لفظ کے پس منظر میں اپنی راۓ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ کو لوگ مسلمان ہوئے تو ان کو جہاد کی فضیلت اور شہادت کے مرتبے سے شناسائی ہوئے تو وہ لوگ پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے لڑنے لگے جسے دیکھ کر لوگ انہیں لفظ رنگڑه سے مخاطب کرنے لگے۔ جن میں زیادہ تر آبادی ہریانہ کہ قرب و جوار میں بسنے والے زیادہ تر مسلمان دیہاتوں کے مقیم تھے۔
2۔ ایک اور جگہ میں نے پڑھا تھا یہ لفظ ہندو راجپوت مسلم راجپوت قبائل کے باشندوں کو مخاطب کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے جس کا مطلب تھا
پہلے پہل یہ لفظ رن گر تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ رن گڑھ بن گیا
لفظ رن گر کا مطلب میدان، مقام سے پھر جانے والا کے ہیں۔
میری ذاتی طور ایک ہندو راجپوت سے دوستی ہے جو انڈیا سے تعلق رکھتے ہیں اُن کے بقول یہ ورڈ 2 استرہ میں زیادہ استعمال کیا جاتا تھا اور یہ تضحیک کے زمرے میں بولا يا پکارا جاتا
مگر صد افسوس ھمارے ملک میں پارٹیشن سے قبل کو راجپوت قبائل یہاں مقیم تھے انہوں نے انڈیا سے آنے والی اکثر و بیشتر راجپوت کمیونیٹی کو ایسی لقب سے نوازا اور ان سے رشتہ داری سے بھی پرہیز کیا یہ ایک الگ ہی تعصب تھا جس کی ایک اعلیٰ مثال پنڈی اور اس کے جوار میں مقیم راجپوت کمیونیٹی کو سینٹرل پنجاب کے رہنے والے راجپوت نہیں مانتے اور سینٹرل پنجاب میں مقیم کو پنڈی والے راجپوت نہیں مانتے یہ ایک تعلق حقیقت ہے
ایسے مسلم جنھیں اپنے راجپوت ہونے کے لئے ہندوؤں سے تائید و تصدیق کی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ خالصتاً ہندوانہ رسومات کو بنیاد بنا کر جنجوعہ راجپوتوں پر غصہ نکالتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں کزن میرج پر بہت سختی سے عمل ہوتا ہے۔ ہندو کزنز کو بہن سمجھتے ہیں اور دوسرے خاندان میں شادی کرنے کو خالص نسب کی اساس سمجھتے ہیں۔ مکھیالہ راجگان اور خاص طور پر میرے گھر میں پچھلی اٹھائیس پشتوں سے کبھی خاندان سے باہر شادی نہیں ہوئی۔
کبھی سوشل میڈیا پر ایسے مسلم حاسدین اسی جواز کو الٹ کر سوڈھوں اور دیگر ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے ان کے سامنے جنجوعہ راجپوتوں کا رونا رو کر اپنے دکھ ہلکے کر رہے ہوتے ہیں۔
دوسرا ہمارے ہاں غیرت دینی اور غیرت نسبی دونوں کے تقاضے ایک سے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں دینی حمیت غیرت نسبی پر حاوی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنجوعہ راجپوتوں میں ہندوؤں اور سکھوں کے لئے بہت سخت رویہ موجود ہے۔ جس کا کھل کر اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ اس سے ہندوؤں کو خاصی زک پہنچتی ہے۔ اور ہمارے اس رویے سے ہندوؤں اور سکھوں کے مسلم خیر خواہوں کے لئے بھی درد دل کا سامان ہو جاتا ہے۔
ہمارے تو بہت سے گاؤں ایسے ہیں جہاں کا ہر فرد فوج میں ہے۔ شتریہ کہلانے کا جو حق جنجوعہ راجپوتوں نے ادا کیا وہ اپنی بے مثال ہے۔
باقی وہ سب خامیاں جو سب راجپوتوں کی مشترکہ وراثت ہے ان میں بھی ہمارا حصہ ہمارے جثہ سے زیادہ ہی ہے۔ anyway سوشل میڈیا پہ موجود اس ساری کشمکش میں کبھی حصہ لینے کی توفیق ہی نہیں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہی نہیں۔ ایسوسی ایشن کے پیج پر میری تحریریں کچھ احباب خود سے شئیر کر دیتے ہیں۔ جزاک اللہ خیر
****************************************************
چدھڑ راجپوت کی تاریخ
****************************************************
#چدھڑ_راجپوت (چدھّڑ راجپُوت)
#چدھڑ، راجپوت اور جاٹ دونوں میں پایا جانے والا قبیلہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے مختلف حصوں میں لفظ #چدھڑ کے تلفظ کا طریقہ مختلف ہے۔ مثال کے طور پر اس کا تلفظ عام طور پر #چدھڑ ہوتا ہے لیکن پنجاب کے کچھ علاقوں میں، جیسے جھنگ اور دیگر ملحقہ اضلاع کے شہروں میں، اس کا تلفظ چادر کے طور پر کیا جاتا ہے، جبکہ ماجھا، دوآبہ اور مالوہ کے علاقوں میں اس کا تلفظ چندر کے طور پر ہوتا ہے۔
#چڈھرو کا دعویٰ ہے کہ مہابھارت کے بادشاہ پانڈو کے نسب کے راجہ راولن کے بیٹے چندر کا تعلق ہے۔ وہ چندر ونشی ہیں، اور بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تومر راجپوتوں کی ایک شاخ ہیں، جھنگ کے قبیلے کی شاخ کا کہنا ہے کہ وہ راجہ طور کی اولاد ہیں اور وہ راجپوتانہ سے پنجاب میں ہجرت کر کے آئے تھے۔
ان کی روایات کے مطابق 1193ء میں جب محمد شہاب الدین غوری نے ہندوستان پر حملہ کیا تو یہ قبیلہ راجستھان سے پنجاب چلا گیا۔ کچھ بہاولپور گئے، جہاں اُوچ شریف کے پیر شیرشاہ (جلال الدین سرخ پوش بخاری) نے اسلام قبول کیا۔ بہاولپور سے، انہوں نے دریائے راوی اور دریائے چناب کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف ہجرت کی۔ پانی کے ضروری وسائل پر قبضے کے لیے وہ ان قبائل سے جھگڑ پڑے جو خطے میں پہلے سے آباد ہیں جیسے کھرل، ہرال اور سیال قبائل۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزا صاحباں کی مشہور پنجابی رومانوی کہانی میں چندراں ولن تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کہانی کے ہیرو مرزا کھرل کو چادروں نے صاحبان کے طور پر قتل کر دیا تھا، ہیروئین کی شادی چندر کے جھام خان کے بیٹے ظاہر خان سے ہوئی تھی۔ اس قتل کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ چندر اور کھرل کے درمیان کئی لڑائیاں ہوئیں۔
چدھڑ ذیلی قبیلے
ذیلی قبیلے
#چدھڑ کے ماہرین نسب کے مطابق، یہ کئی ذیلی قبیلوں میں تقسیم ہیں، جن میں سے زیادہ تر جھنگ میں پائے جاتے ہیں۔ یہ شامل ہیں:
1. آسی۔
2. Wejhwe
3. وجھلکے
4. واربھو
5. کلے
6. کالوکے
7. جاپا (جپه)
8. لون یا لون
9. سجنکے
10. Nalere (کبھی کبھی Lalere کا تلفظ کیا جاتا ہے)
11. کنگر
12. راجوکے
13. کاموکے
14. ہریا
15. پاروک
16. جتوکے
17. ڈیوک
18. مونا
19. مجوکا
20. پاجیکے
21. چوکھیا
22. والارا
23. تھبل،
بہت سے چادر دیہات کا نام ان ذیلی قبائل کے نام پر رکھا گیا ہے۔
وجھلکے،
کالوکے
چک سجنکے،
چک لون اور
ضلع چنیوٹ میں چناب کے دائیں اور بائیں کنارے پر موضع ولاڑہ۔
پنجاب کے دیگر علاقوں میں چندر کے مشہور گاؤں شامل ہیں۔
چندر،
راجیانہ، ڈھابان،
اعوان اور
رام پور۔
راجپوت یا جاٹ؟
جھنگ چادروں کا دعویٰ ہے کہ وہ راجپوت ہیں، جب کہ پنجاب کے کچھ علاقوں کے چدھڑ اپنے جاٹ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ 1881 کی مردم شماری کے مطابق، 26404 چندروں نے خود کو جاٹ کے طور پر اور 177,746 نے خود کو راجپوت کے طور پر درج کیا۔ مزید برآں، ضلع جھنگ کے گزٹیئر (1881-1884) کے مطابق، چندرھوں کو اچھے کسان سمجھا جاتا ہے اور وہ اپنے پڑوسیوں، سیالوں، کھرلوں اور دیگر کے برعکس مویشیوں کی سرسراہٹ یا چوری میں شاذ و نادر ہی ملوث ہوتے ہیں۔ جہلم کی وادی میں فرق اتنا واضح نہیں ہے، تاہم، چادروں کے حوالے سے، ان کے پڑوسی عموماً کبھی کبھار ان کی حیثیت کو راجپوت کے طور پر قبول کرتے ہیں۔
تقسیم
چناب کے بائیں کنارے، ضلع جھنگ میں، کھیوا (سیال کی حدود کے ساتھ) سے شروع ہو کر راجویہ سادات کے سیدوں کے ملحقہ علاقوں تک چدھڑ زمین کے ایک بڑے حصے پر قابض ہیں۔ ان کا مرکزی گاؤں بھوانہ (چنیوٹ) کے قریب ٹہلی مانگنی ہے جو ان کا تخت یا تخت کہا جاتا ہے۔ دیگر دیہات میں چک 20 گڑھ شامل ہیں۔ تحصیل بھوانہ (ضلع چنیوٹ) 40 سے زائد دیہاتوں پر مشتمل چادروں کا مرکز ہے۔
اس حلقے سے دو بار ایم پی اے منتخب ہو چکے ہیں
1- حاجی دلاور خان (چدھّڑ راجپُوت) چدھڑ (1970)
2- حاجی محمد حیات (جپه راجپُوت) جاپہ (1997)
چادر ان اضلاع میں پائے جاتے ہیں:
چنیوٹ،
جھنگ،
فیصل آباد،
سرگودھا،
ساہیوال،
شیخوپورہ،
گجرات،
گوجرانوالہ،
لاہور،
خانیوال،
ملتان،
بھکر،
بہاولپور،
اوکاڑہ اور سندھ کے بعض علاقوں میں بھی۔
نام کا ایک گاؤں بھی ہے۔
خیبر پختونخواہ میں ٹانک کے قریب "چدھڑ"۔
چند چادروں میں آباد ہوئے۔
ہندوستانی پنجاب میں ضلع فیروز پور اور گاؤں کی بنیاد رکھی
مڈکی کے قریب "چندرہ"۔
دوسرے آباد ہو گئے۔
جالندھر کے قریب "نکودر"۔ مسلمان جاٹ کے طور پر، زیادہ تر چادر جاٹ تقسیم کے بعد فیروز پور سے امرتسر اور گورداسپور منتقل ہو گئے۔ ان میں سے زیادہ تر چادریں اب فیصل آباد میں پائی جاتی ہیں۔
چکوال کے چادر۔ جہلم، خوشاب اور میانوالی:
ضلع چکوال میں، جہاں سب سے زیادہ شمالی چادر کی بستیاں پائی جاتی ہیں، اہم دیہات شامل ہیں۔
ڈھوک چادر،
ڈھوک میال،
پنجین اور
چک باقر شاہ۔
ضلع جہلم کے گاؤں میں پائے جاتے ہیں۔
عبداللہ پور اور میں
لیلا ٹاؤن۔
منڈی بہاؤالدین کے دیہاتوں میں پائے جاتے ہیں۔
بیر پنڈی جھارانہ،
بوسال،
بکن،
گوہری،
منگت اور
میاں دا لوک۔
ضلع میانوالی میں یہ پائے جاتے ہیں۔
سلطان والا۔
انتخاب
امید راؤ امید مڈاڈھ ایڈمن رانگھڑ راجپوت بیٹھک پاکستان
HISTORY OF CHADHAR RAJPOOT
Chadhar Rajpoot (چدھّڑ راجپُوت)
Chadhar, a tribe found among both Rajputs and Jats. Interestingly, in different parts of Punjab, the way to pronounce the word Chadhar differs. For example it is commonly pronounced Chadhar but in some areas of the Punjab, like the cities of Jhang and other adjoining districts, it is pronounced as Chadhrar, while in the Majha, Doaba and Malwa areas it is pronounced as Chandhar.
Chadhars claim descent from Chandarh, the son of Raja Ravilan of the lineage of king Pandu of the Mahabharata. They are Chandra Vanshis, and it is widely believed that they are a branch of the Tomar Rajputs, with the branch of the tribe of in Jhang saying that they are the descendants of Raja Toor and that they migrated into the Punjab from Rajputana.
According to their traditions, in 1193 AD, when Mohammad Shahabuddin Ghauri invaded India, the clan moved from Rajasthan to the Punjab. Some went to Bahawalpur, where they were converted to Islam by Pir Shershah (Jalaluddin Surkh-Posh Bukhari) of Uchch Sharif. From Bahawalpur, they migrated north, along the course of the rivers Ravi River and River Chenab. They clashed wit those tribes already settled in the region such as the Kharal, Harals and Sial tribes over the possession of essential water resources.
Interestingly, the Chandarhs were the villains in the famous Punjabi romance story of Mirza Sahiban. It is said that Mirza Kharal, the hero of the story, was slain by Chadhars as Sahiban, the heroine was betrothed to Zahir Khan, the son of Jham Khan, a Chandarh Jatts. Because of this murder, it is said that there were many battles between Chandarh and Kharals.
Chadhar sub clans.
Sub-Clans
According Chadhar genealogists, they are divided into several sub-clans, most of which are found in Jhang. These include:
1. Aasi
2. Wejhwe
3. Wijhalke
4. Warbhu
5. Kulle
6. Kaloke
7. Jappa (جپه)
8. Lune or Loone
9. Sajanke
10. Nalere(sometimes pronounced Lalere)
11. Kangar
12. Rajoke
13. Kamoke
14. Harya
15. Paroke
16. Jatoke
17. Deoke
18. Moona
19. Majoka
20. Paajike
21. Chookhia
22. Wallara
23. Thabal,
Many Chadar villages are named after these sub-tribes like
Wijhalke,
Kaloke,
Chak Sajanke,
Chak Loone and
Mauza Wllara on the right and left banks of the Chenab in the Chiniot District.
Well known villages of Chandarhs in other areas of Punjab include
Chandarh,
Rajeana, Dhaaban,
Awan and
Rampur.
Rajputs or Jats?
Jhang Chadhars claim that they are Rajputs, while Chadhras of some areas of Punjab claim to be Jats. According to the Census of 1881, 26404 Chandars recorded themselves as Jats and 177,746 recorded themselves as Rajputs. Furthermore, the gazetteer of Jhang District (1881 – 1884), Chandarhs are considered to be good farmers and rarely indulged in cattle rustling or theft unlike their neighbours, the Sials, Kharals and others. The distinction in the valley of the Jhelum is not quite that clear, however, with regards to the Chadhars, their neighbours generally if sometimes grudgingly accept their status as Rajput
Distribution
Chadhars occupy a large area of land on the left bank of the Chenab, in the Jhang District, starting from Khiwa (along the boundaries of the Sials) to the adjoining areas of Sayyids of Rajoea Sadaat. Their main village is Tahli Mangeeni near Bhowana (Chiniot) which is said to be their throne or Takht. Other villages include Chak 20 Gagh. Tehsil Bhowana (District Chiniot) is the hub of Chadhars comprises more than 40 villages.
Had been elected two time MPA from this vicinity,
1- Haji Dilawar Khan (چدھّڑ راجپُوت) Chadhar (1970)
2- Haji Muhammad Hayat (جپه راجپُوت) Jappa (1997)
The Chadhars are found in districts of:
Chiniot,
Jhang,
Faisalabad,
Sargodha,
Sahiwal,
Sheikhupura,
Gujrat,
Gujranwala,
Lahore,
Khanewal,
Multan,
Bhakkar,
Bahawalpur,
Okara and also in some parts of Sindh.
There is also a village named
"Chadhrar" near Tank, in Khyber Pakhtunkhwa.
Some of the Chadhars settled in the
Firozpur District in Indian Punjab and founded the village of
"Chandarh" near Mudki.
Others settled in
"Nakodar" near Jalandhar. As Muslim Jats, most of the Chadhar Jats shifted from Ferozepur to Amritsar, and Gurdaspur after partition. Most of these Chadhars are now found in Faisalabad.
Chadhars of Chakwal. Jhelum, Khushab and Mianwali:
In Chakwal District, where the northern most Chadhar settlements are found, important villages include
Dhok Chadhar,
Dhok Miyal,
Punjain and
Chak Baqar Shah.
In Jhelum District, they are found in the village of
Abdullahpur and in
Lilla town.
In Mandi Bahauddin, they are found in the villages of
Beerpindi Jharana,
Bosaal,
Bukkan,
Gohri,
Mangat and
Mian da Lok.
In Mianwali District, they are found in
Sultanwala.
****************************************************
[17/12, 8:35 AM] Umid Rana Madadh: Thakur:
****************************************************
is an Indian feudal title in several Indian languages, literally meaning "lord". In Rajasthan, the title Thakur is usually adopted by Kshatriyas such as Rajputs. Thakur also conveys a designation meaning he is the head of the family and no one is above him. Son of Thakur is known as 'Kunwar', grandson as 'Bhanwar' and greatgrand son as 'Chel bhanwar'. Thakur is the one whose father has died. 'Kunwar' is the one who has his father alive and 'Bhanwar' is the one who has his grandfather alive and so on.
Thikana:
A Thikana is the state or (more often) estate of a Thakur.
Kunwar:
Son of Thakur is known as Kunwar.
Bhanwar:
Grandson of Thakur is known as Bhanwar.
Zamindar:
A zamindar or zemindar was an aristocrat, typically hereditary, who held enormous tracts of land and held control over his peasants, from whom the zamindars reserved the right to collect tax (often for military purposes). Over time, they took princely and royal titles such as Maharaja (Great King), Raja (King) and many others. Often zamindars were Indian princes who lost their sovereignty due to British Rule.
Jagir:
A jagir was a type of feudal land grant in South Asia bestowed by a monarch to a Sardar (Minister/Count) in recognition of his loyal service to the Crown. A jagir was technically a feudal life estate, as the grant lawfully reverted back to the monarch on death. However, in practice, many jagirs became hereditary by primogeniture. The recipient of the jagir (termed a jagirdar) was the de facto ruler of the territory and was able to earn income from taxes. The jagirdar would typically reside at the capital to serve as a Minister, typically appearing twice a day before the monarch. This feudal system of land ownership is referred to as the jagirdar system. It was first established in the 13th century by the Sultans of Delhi, was later adopted by the Maratha Empire in the early 17th century, and continued under the British East India Company. Following independence from the British Crown, the jagirdar system was abolished by the Indian government in 1951.
Princely State:
A Princely State (also called Native State or Indian State) was a nominally sovereign[1] entity of the British Indian Empire that was not directly governed by the British, but rather by an Indian ruler under a form of indirect rule, subject to a subsidiary alliance and the suzerainty or paramountcy of the British crown.A Princely State (also called Native State or Indian State) was a nominally sovereign entity of the British Indian Empire that was not directly governed by the British, but rather by an Indian ruler under a form of indirect rule, subject to a subsidiary alliance and the suzerainty or paramountcy of the British crown.
Taluq/Tehsil:
A tehsil (tahsil, tahasil) also known as taluk (taluq, taluka), and mandal, is an administrative division of some countries of South Asia.
Taluqdar:
A taluqdar or talukdar, is a term used for Indian land holders in Mughal and British times, responsible for collecting taxes from a district. In Rajastan and Bengal, a taluqdar was next only to a Raja in extent of land control and social status.
Istimrari:
The Istimrari estates were small feudal states (originally jagirs) in the 17th and 18th century Rajputana, the pre-1949 name of the present-day Indian state of Rajasthan, the largest state of the Republic of India. The Istimrari chieftains paid tribute to their masters but were not compelled to participate in wars unless called upon by their respective chiefs. In the Indian feudal system of 17th and 18th century, there were 66 Istimararis in the Rajputana (North west India). The Istimrari estates were originally only Jagirs, held under obligation of military service.
Pana or Panna:
Is a division of a family which has its own family head or Thakur. Pana's are usually created between brothers and each of them has their own estate.
Gaddi:
Is the head seat of a Province which is held by head of the family or the Thakur.
[17/12, 8:35 AM] Umid Rana Madadh: Suryavanshi Rajput — Suryavanshi rajputs trace their lineage to the Vedic Sun – Surya. Lord Rama was also born in this lineage. Suryavanshi rajputs ruled over Mewar, Marwar, Amber, etc. Raghuvanshi Rajput–A Raghav Rajput is a member of one of the major Suryavanshi Rajput clans of India who ruled a number of kingdoms and princely states. Raghav is the oldest Suryavanshi Rajput clan. They enjoy a reputation as rulers and soldiers. The Raghav population and the former Rajput states are found spread through much the subcontinent, particularly in North India and central India. The Raghav are the forefathers of many Suryavanshi Rajput clans such as the Sisodiyas, Kachwahas, and Minhass. Their kuldevta (family deity) is Lord Rama and their kuldevi (goddess) is Sita.
Nagvanshi Rajput —
The Nagavanshi dynasty is one of the ancient Kshatriya dynasties of India. The Vedas do not mention Kshatriyas of either Suryavanshi, Chandravanshi, Nagavanshi, Agnivanshi or such Vanshas or lineages. The Puranas, of debatable dating, constructed such genealogies. The Puranas were supposedly written from the Gupta Period onwards See: Puranas. Bhavishyapuran mentions 12 heavenly serpents like Takshak, Vasuki, Sheshnag, Anantnag etc. and Swastik as the weapon of Takshak. Swastik is a sacred symbol for Hindus, Buddhists and Jains. On Hindu temples and homes, statues of the Buddha and Mahavir swastik symbol is quite common. Divine serpent Sheshnag is considered as the throne of lord Vishnu. While lord Shiva is always shown with a serpent around neck. All those things clearly indicate relationship between Nagavanshi dynasties and present Indian society. A copper plate inscription from the Gupta Period relates to the Nagas being elevated to Kshatriya-hood 26. The copper plates of this period relate to the Nagas being defeated by the Guptas; and subsequently being married into them. One example is that of the King Chandragupta I who married Queen Kuber Naga. The Nagas were mentioned as a non-aryan snake worshipping tribe of ancient India 27. However, puranic legends constructed the genealogy of the Nagavanshis as a sub-clan of Suryavansha.
Chandravanshi Rajput — Somvanshi/Chandravanshi rajputs descended from Som (the vedic deity Soma or Moon). Chandravanshi and Yaduvanshi are from the same line which bifurcated at King Yadu when his father banished him from becoming the king. Gujarat, Jaisalmer was ruled by Chandravanshi rajputs. The Yaduvanshi trace there lineage to Lord Krishn
Rathore Rajput –The Rathore are a major Rajput clan originally descended from the Gahadvala Dynasty in Kannauj in Uttar Pradesh. At the time of the end of the British Raj in 1947 they were rulers in 14 different princely states in Marwar, Jangladesh, Rajasthan, and Madhya Pradesh. The largest and oldest among these was Jodhpur, in Marwar and Bikaner. The Maharaja of Jodhpur is regarded as the head of the extended Rathore clan of Hindu Rajputs. Today the clan is numerous and spread over a wide geographical area. Many Rathores have pursued successful careers in politics. At the time of Todd’s list in 1820, the Rathore clan had 24 branches, including the Barmera, Bika, Boola, Champawat, Dangi, Jaitawat, Jaitmallot, Jodha, Khabaria, Khokhar, Kotaria, Kumpawat, Mahecha, Mertiya, Pokharan, Mohania, Mopa, Randa, Sagawat, Sihamalot, Sunda, Udawat, Vanar, and Vikramayat.
Chauhan Rajput –The Chauhan (also spelled as Nirwan) are of Agnivanshi lineage. Their state was initially centered around khetri, khandela, alsisar malsisar, srimadhopur, alwar, jhunjhunu, sikar, churu, According to legend and clan history, the Nirwan are with Maharana Pratap against Akbar in Haldighati Battle. Nirwan’s have many gotras, most of these gotras are Baloji, Pithoraji, Kaluji. Vaishya Rajput
[17/12, 8:35 AM] Umid Rana Madadh: Suryavanshi ⇒
Suryavanshi Rajput
Bargujar → Kashmir to Gujarat and Maharashtra Bargujar
Sikarwar → Madhya Pradesh
Jamwal → Jammu and Kashmir
Guhilot → Kathiawar
Sisodia → Mewar
Ranawat
Chundawat
Sangawat
Sarangdevot
Kachwaha → Alwar, Amber, Jaipur
Kalyanot
Rajawat
Shekhawat
Jasrotia
Pundir
Rathore → Marwar, Jangladesh, Rajasthan, and Madhya Pradesh
Champawat
Dhandhul Bhadail (Rathore) Jodha
Khokhar
Kumpawat
Jaitawat
_________________________________________
Very nice information regarding history of Rajpoot & many sub casts specially Taoni گوت
ReplyDeleteTaoni Rajpoot Brothers Platform of Taoni Rajput brothers in Pakistan where Taoni Rajput brothers who have lost their lives in the country were gathered on one forum.
ReplyDeleteVery good work
ReplyDeletegreat work brother is mai Madaad Rajpoot ki history nhi hai?
ReplyDeletewhat a crap, copied and paste all useless information mixed up with false references, reference from many unauthentic books and papers, this blog is just a copy paste of information without authentication of sources
ReplyDelete